میرے اللہ ! آخر، کب تماشا ختم ہو گا؟ – حفیظ اللہ نیازی کا مسترد شدہ کالم


یوم آزادی مبارک! آزادی کے 71 سال مکمل۔ غلامی تھی کیا؟ چند سو سال پہلے انگریز سرکار مقامی حکمرانوں کی نااہلی اور بربریت و سفاکی سے فائدہ اُٹھاتی، چالاکی اور خاموشی سے ہندوستان داخل ہوئی، 1857ء تک بلاشرکت غیرے پورے برصغیر کے مالک بن چکے۔ انگریز تیرہویں صدی سے جمہوریت کے ذائقے سے متعارف۔ اٹھارویں صدی میں داخل ہونے سے پہلے برطانیہ ایک مستحکم پارلیمانی جمہوریت تھی۔ جب ہندوستان میںانگریز حکومت مستحکم ہوئی، نام نہاد جمہوریت تو دی مگر روح نکال کر۔ جمہوریت کی روح تھی کیا؟ اصول دو ہی۔ اول، بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت یعنی مذہب، زبان، برابری پر انصاف، تقریر، تحریر، انسانی وقار، نقل و حرکت، اجتماعات، جلسے جلوس، تنظیم سازی، متعین حدود ود قیود میں بلا روک ٹوک ضمانت رہناتھی۔ جبکہ اس سے بھی پہلے حقِ حکمرانی، بمطابق بالغ حق رائے دہی، یعنی عوام الناس کی آزادانہ رائے، مرضی و منشاء رہنی تھی۔ انگریز سے گلہ نہیں کہ غلامی میں ایسے لوازمات فراہم کرنا، عیاشی ہے۔ 14 اگست 1947ء کو عظیم قائد کی 45 سالہ جدو جہد رنگ لائی۔ آخری  10 سال یکسوئی اورصراحت کے ساتھ دو قومی نظریہ کا بیانیہ عام کیا۔ مرجع خلائق بنے۔ مسلمانان ہند کو آزاد وطن دیا۔ عظیم قائد نے ہی ت وپارلیمانی جمہوریت کو مملکت کا نظام بنایا، بتایا۔

آزادی کا مطلب ایک ہی، مملکت خداد نے اسلام کا قلعہ بننا تھا۔ مملکت کے شہریوں کے بنیادی حقوق یقینی بنانے تھے۔ بالغ حق رائے دہی کے ذریعے اپنے حکمران چننے تھے۔ داستان رنج، غم و الم کا نقطہ آغازیہیں سے۔ عظیم قائد پلک جھپکتے داغ مفارقت دے گئے، آزادی کا حصول، شاید ان کی زندگی کا مدعا تمام تھا۔ دوسرا دھچکہ، ظالموں نے 16 اکتوبر 1951ء کو قائد ملت لیاقت علی خان کا سینہ چھلنی کیا، چھین لیا۔ یکے بعد دیگرے قوم دو عظیم رہنماؤں سے محروم ہوگئی۔ وہ دن اورآج کا دن حقیقی جمہوریت کو ترس گئے۔ نظریہ پر قائم پارلیمانی جمہوری اور بنیادی حقوق کی ٹامک ٹوئیاں پر گزارہ۔ بہت کچھ برباد کرنے کے بعد، آدھا پاکستان بچا۔ بالآخر73ء میں باقاعدہ آئین تشکیل پا ہی گیا۔ ماضی کی غلطیوں، کمی بیشی، زیادتیوں کا ازالہ کر نے کی ایک بہترین کوشش تھی۔

پہلا باب ہی بنیادی شہری حقوق کے لیے وقف رکھا۔ آرٹیکل 8 تا 28 بصراحت، برمحل، بخلاف بنیادی حقوق، ممکنہ واردات کے تحفظ کی گارنٹی کرتا ہے۔ حاکمیت اعلیٰ اللہ کی ذات، سپریم کورٹ کومتولی و نگران اعلیٰ بتاتا ہے۔ آرٹیکل 184(3) کا وجہ وجود ہی بنیادی شہری حقوق کا تحفظ، سپریم کورٹ کولامحدود اختیارات دیتا ہے۔ پچھلے دس سال سے غیر معمولی بلکہ کثیر مقدار سے استعمال میں ہے۔ گو جوڈیشل ایکٹیوزم ایک نیا معاشرتی تنازع جنم دے چکا۔ بے شمار قانونی موشگافیاں، آئینی گتھیاں سلجھنے سے زیادہ اُلجھ چکیں۔ بات حتمی، پارلیمانی نظام اور طاقتور سپریم کورٹ آئین میں مقرر بنیادی شہری حقوق یقینی بنانے میں ناکام رہے۔ آرٹیکل 10(A)، 14، 15، 16، 17، 19، 25، 25(A)، 28  کی کفایت شعارانہ دھجیاں اُڑتے بکھیرتے، 45 سالہ معمول بن چکا۔ 3 دفعہ آئین ٹوٹتے دیکھا۔ تجاوزقومی خصلت، جبلت، عادت گھر کر چکی۔ طاقتور ادارے، پولیس، افسر شاہی کی پسند نا پسند، قومی مقدر ٹھہر چکا۔ آرٹیکل 17 آزادی دیتا ہے کہ ہر شہری اپنی مرضی کی پارٹی بنا سکتا ہے، اختیار کر سکتا ہے۔ زبردستی کی سیاسی پارٹی بنانا، ایک پارٹی سے ہانک کر دوسری پارٹی میں دھکیلنا، تمام اداروں کی ناک نیچے، کچھ لوگ ملوث، کچھ خاموش تماشائی۔

 آرٹیکل 19: تقریر، تحریر، میڈیا کی آزادی کا ضامن ہے۔ پچھلے ہفتے کچھ لکھا، آئین کی کتاب اور میرا کالم آمنے سامنے۔ آئین ایک ایک شق، حرف بہ حرف کالم، کہیں بھی تو انحراف، تجاوز نہیں۔ نفرت، سخت الفاظ، اداروں کی تضحیک کہیں موجود نہیں۔ اداروں کی بے حرمتی، پامالی تقدس کچھ بھی نہیں۔ صرف ماضی کے واقعات سے مزین۔ کالم چھپ نہ سکا۔ جیو اور جنگ نے بھی تو کبھی آئین و قانون نہیں توڑا، پھر بھی ماورائِ قانون و آئین پابندیاں معمول بن چکی ہیں۔ دانشور دوست ڈاکٹر رسول بخش آزادی کے دن جیو مارننگ شو میں، مشرف زمانے میں جیو پر پابندی کا رونا رویا تو کمال مہارت سے 2014ء کی اعلانیہ پابندی اور 2018ء کی غیر اعلانیہ بندش کا ذکر کرنا بھول گئے۔ کیا آئین میں دیئے بحیثیت شہری میرے بنیادی حقوق مجھے میسر ہیں؟ پھرمیرا کالم کیوں نہ چھپ سکا؟ آئین کے متولی، نگہبان، وکلا برادری خدا کو حاضر جان کر بتائیں جو کچھ ہو رہا ہے سب کچھ ان کے علم میں نہیں؟ خاموش کیوں؟

ایک طرف اخبارات اور ٹی وی چینلز کے خلاف معاندانہ کاروائی سے چشم پوشی تو دوسری طرف کرپشن، بین الاقوامی جرائم میں ملوث ٹی وی چینل کو عدالتی سہارے قوم کے اوپر ٹھوسنے کا عمل جاری ہے۔ آج 184(3) کے تحت جو کچھ دیکھنے کو ملا جو 35 سا ل معزز عدلیہ کرتے، کتراتی رہی۔ پھربھی، ایکٹیوزم میرے بنیادی حقوق دلانے میں ناکام کیوں؟ جدوجہد آزادی کی اساس دوقومی نظریہ، قرارداد مقاصد رہنما اصول، بانیان وطن بقلم خود متعین کر گئے۔ قرآن و سنت کے اصولوں پر قائم مملکت نے پارلیمانی جمہوریت اورشہری بنیادی حقوق یقینی بنانے تھے۔ 67 سال سے بے توقیر، پامال ہو رہے ہیں۔ سیاست، جمہوریت کی جان اور سیاست کی جان، جمہوری نظام۔ بغیر دھونس دھاندلی، منصفانہ انتخابات جمہوری نظام کی ضمانت بننے تھے۔ مقدرپھوٹے، نصیبوں کی بَلیا، پکائی کھیر ہوگیا دلیا۔ سیاست کی ایک خرابی، متحارب سیاسی پارٹیوں کے تنازعات، تفاوت، جھگڑے، قوم کو باہمی منقسم رکھتے ہیں۔ آئینِ پاکستان کے ذی فہم وجود کا تصور کہ اداروں اور سرکاری ملازمین پر سیاست میں حصہ نہ لینے کی پابندی تاکہ قوم اداروں اور کارندوں پر منقسم ہونے سے بچ جائے۔ دوسری طرف عدالتوں اور عسکری اداروں کو زیر بحث لانا، ان اداروں کے خلاف پراپیگنڈہ کرنا، متنازع بنانا، قبیح جرم تاکہ عوامی طرز فکر اور احساس میں اداروں پر متحارب آراء نہ پنپ پائے۔ بات حتمی ادارے و سرکاری کارندے ہرگز سیاست میں ملوث نظرنہ آئیں، سیاسی معاملات و معمولات غیر ضروری آڑے ہاتھوں نہ لیں جبکہ سیاسی لیڈر، جماعتیں، عام شہری مقدس اداروں کے خلاف مہم جوئی کرنے کی جسارت کبھی بھی نہ رکھیں۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2