جنرل ضیاء الحق کے طیارے کا حادثہ میرا سفارتی کیریر بھی لے ڈوبا


بھارت میں سابق امریکی سفیر جان گنتھر ڈین مزید لکھتے ہیں کہ 17 اگست 1988ء کو سہ پہر 4 بجے وہ اپنے دفتر نیو دہلی میں بیٹھے تھے کہ انہیں بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کے پرسنل سکرٹری رونن سن کی فون کال آئی، انہوں نے مجھے آگاہ کیا کہ بہاولپور کے قریب ایک ہرکولیس ٹرانسپورٹ سی ون تھرٹی جہاز جس میں پاکستان کے صدر جنرل ضیاء الحق سوار تھے کریش ہو گیا ہے۔ یہ بات تو میرے علم میں تھی کہ آج ضیاء الحق امریکی ساخت کے بنے ہوئے M1 ٹینک جن کی خریداری میں وہ دلچسپی نہیں رکھتے کی کارکردگی کا مشاہدہ کرنے کے لیے گئے ہوئے ہیں۔ اور امریکی ملٹری کنٹریکٹرز انہیں ہر حال میں یہ فروخت کرنا چاہتے ہیں۔

اسی طرح ہر پندرہ بیس منٹ کے بعد رونن مجھے اس حوالے تازہ ترین اطلاعات بہم پہنچاتے رہے، جیسے ہی مجھے حادثے کی پہلی اطلاع ملی مجھے فوراً یہ خیال آیا کہ یہ حادثہ ہرگز نہیں ہو سکتا، میرا سب سے فوری ایشو یہ تھا کہ جنرل ضیاء کے علاوہ اس میں اور کون کون سوار تھا۔

دوسری یا تیسری فون کال کے ذریعے مجھے رونن سن نے کنفرم کر دیا کہ میرے انتہائی عزیز دوست اور اسلام آباد میں امریکی سفیر آرنلڈ رافیل اور ایمبیسی میں ہیڈ آف یو ایس ملٹری ایڈ مشن، جنرل ہربرٹ ایم واسم بھی جنرل ضیاء الحق کے ساتھ اسی طیارے میں سوار تھے۔ لیکن کیوں؟

میرے علم میں یہ بات بھی تھی کہ دونوں امریکی عہدیدار ان مشقوں کو دیکھنے کے لیے ایمبیسی کے اپنے جہاز میں سوار ہو کر گئے ہیں اور پھر وہ کیوں اپنے اسی جہاز میں واپس نہیں آئے؟ اور ان کے اپنے باڈی گارڈز کا کیا ہوا ؟

مسٹر ڈین لکھتے ہیں کہ میرے انہی سوالات کے جوابات کی تلاش نے میرے سفارتی کیرئیر وقت سے پہلے پایہء تکمیل تک پہنچا دیا۔ میں ریگن انتظامیہ سے جتنا اپنے سوالات کے جواب کے لیے زور ڈالتا تو مجھے اتنا ہی پیچھے دھکیل دیا جاتا۔ میرا اصرار تھا کہ میں واشنگٹن آ کر اعلیٰ قیادت کو جنرل ضیاء الحق کے طیارے کے حادثے کے پسِ پردہ حقائق اور خطے میں اس حوالے سے آیندہ رونما ہونے والی تبدیلیوں پر اپنا موقف فیس ٹو فیس گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔

اس دوران میں نے اپنے بھارتی دوستوں، یو ایس کابل مشن اور دوسرے ذرائع سے بہت سارے شواہد اور معلومات اکٹھی کر لی تھیں۔ ستمبر 1988ء میں مجھے آگاہ کیا گیا کہ میری ملاقاتیں طے پا گئی ہیں اور میں سکرٹری آف سٹیٹ جارج شُلز اور ڈائریکٹر سی آئی اے سے آ کر مل سکتا ہوں۔

اب ہوا یوں کہ میری بیوی نے پہلی بار میرے اس فیصلے سے اختلاف کیا اور مجھے اس سفر سے باز رہنے کا مشورہ دیا، لیکن اس کی مرضی کے برعکس مقررہ تاریخ کو جب میں واشنگٹن پہنچا تو ڈیلیس انٹرنیشنل ائرپورٹ پر مجھے ریسو کرنے والے میرے دیرینہ دوست اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں ہیڈ آف ریسرچ اینڈ انٹیلیجنس مارٹ آبرآمووٹیز نے مجھے خوش آمدید کہا اور آگاہ کیا کہ، ” تمہاری اعلیٰ حکام کے ساتھ طے شدہ ساری ملاقاتیں کینسل کر دی گئی ہیں۔ تم کیوں نہیں میرے ساتھ میرے گھر چلتے وہاں ہم ڈنر اکٹھے کریں گے“۔

بعدازاں مجھے بتایا گیا کہ میں بش، شُلز، اور ویبسٹر سے تو نہیں مل سکتا تاہم اسسٹنٹ سکرٹری رچرڈ مرفی اور جارج ویسٹ ڈی جی آف دی فارن سروس سے مل سکتا ہوں۔ جب میری ملاقات اپنے پرانے باس جارج ویسٹ سے ہوئی تو مجھے اس سارے کھیل کی سمجھ آنا شروع ہو گئی۔ ہوا یوں کہ میں جس فلائٹ سے بھارت سے امریکہ پہنچا تھا اسی فلائٹ میں مجھ پر نظر رکھنے کے لیے اپنی خفیہ ایجنسی کا ایک اہلکار بھی سوار تھا جو جہاز میں کچھ فاصلے پر بیٹھ کر مجھے واچ کرتا رہا تھا۔

جارج ویسٹ سے ملاقات کے دوران مجھے بتایا گیا۔ کہ میرا کسی قسم معائنہ کیے بغیر ہی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ڈاکٹروں نے میرے لیے تجویز کیا ہے کہ میں انتہائی قسم کے سٹریس میں ہوتے ہوئے۔ ذہنی اور نفسیاتی طور پر ”پرسنیلٹی چینج“ کے مرض میں مبتلا ہوں۔

اس بنا پر میں آیندہ اپنے بطور سفیر فرائض ادا نہیں کر سکتا۔ ان حالات میں میں مجھے بطور امریکی سفیر بھارت نہیں بھیجا جا سکتا۔ بجائے اس کے مجھے کسی منٹل ہسپتال میں داخل کروا دیا جائے، جارج ویسٹ نے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کو تجویز کیا کہ مجھے سوئٹزرلینڈ میں اپنی بیوی کے فیملی سکائی کاٹیج میں آرام کرنے کے لیے بجھوا دیا جائے۔

جان گنتھر ڈین مزید لکھتے ہیں کہ ایسا ہی کیا گیا، سوئٹزرلینڈ میں، میں گھر میں چھ ہفتے قیام پزیر رہا، چھ ہفتے کے بعد مجھے اجازت دی گئی کہ میں اب بطور سفیر نہیں محض سابق سفیر کے بھارت واپس جا کر الوداعی ملاقاتیں اور اپنا ذاتی سامان لے کر واشنگٹن واپس آ سکتا ہوں۔

میں نے واپس آ جب یہ محسوس کیا کہ اب میرے لیے ڈیپارٹمنٹ میں مزید کوئی آسائمننٹ نہیں ہے تو میں نے اعلان کر دیا کہ میں ڈیپارٹمنٹ سے استعفیٰ دے رہا ہوں۔ میرے اس فیصلے کے فوراً بعد میرا میڈیکل سٹیٹس کلئیر کر دیا گیا۔ اور اب اس کے بعد میں بالکل کسی ذہنی، نفسیاتی دباؤ یا پاگل پن کا شکار نہیں رہا تھا۔

میرے استعفیٰ دینے کے فیصلے کے بعد سے ہر طرف سے میرے لیے اظہارِ محبت، شکریے اور تعریفی کلمات کی گویا بارش ہو گئی۔ صدر ریگن، نائب صدر جارج بش، اور سکرٹری آف جارج شُلز نے تعریفی خطوط لکھے۔ راجیو گاندھی نے بھی خصوصی تعریف کی۔

جان گنتھر کا مزید کہنا ہے کہ راجیو گاندھی کے پرسنل سکرٹری رونن سن نے انہیں یہ بھی بتایا تھا کہ ضیاء الحق کے طیارے کے حادثے کے وقت ایک بھارتی سٹلائٹ نے فضا سے طیارے کے گرنے کے آخری لمحات کی تصاویر بھی بنائی گئی تھیں۔

رئٹائرمنٹ کے بعد پیرس میں مقیم 92 سالہ سابق امریکی سفیر جان گنتھر ڈین کے خیال میں جنرل ضیاء الحق کے طیارے کے حادثے میں اسرائیلی ایجنسی موساد بعض دیگر قوتوں کی سپورٹ سے ملوث ہو سکتی ہے۔ وہ اس میں براہ راست بھارت، افغانستان، روس اور امریکہ کے ملوث ہونے کو خارج از امکان قرار دیتے ہیں۔ اور وہ طیارے کے وینٹی لئٹر سسٹم میں رکھی گئی وی ایکس گیس کے ذریعے پائلٹوں کو مفلوج کیے جانے کی تھیوری کے ہی زیادہ قائل نظر آتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2