زنجبار کے بلوچ، باگو مویو کا بازارِ غلاماں اور پاکستان کے شیدی


تنزانیہ کے بلوچ باشندوں نے 1880 میں یہ مسجد بنائی

آخر میں صفدر جعفر ہمیں ایک اور مقام پر لے گئے جو ایک بازار کی طرح تھی اور جہاں دستکاریوں اور آرٹ کے نمونے فروخت ہو رہے تھے، ہم بڑے انہماک سے ان نمونوں کو دیکھ رہے تھے کہ اچانک صفدر جعفر نے اس سفر کا سب سے بڑا انکشاف کیا۔ انہوں نے بتایا کہ جس بازار میں آپ کھڑے ہیں یہاں ہمیشہ ہی سے دستکاریاں اور آرٹ کے نمونے فروخت نہیں ہوتے تھے بلکہ انیسویں صدی کے آخر تک اس بازار کی شہرت افریقی غلاموں کی خرید و فروخت کی تھی۔ یہاں اندرونی علاقوں سے افریقی باشندوں کو پکڑ کر لایا جاتا تھا اور اسی بازار میں نیلام کیا جاتا تھا۔ یہ پورا کاروبار عرب تاجروں کے ہاتھوں میں تھا۔ یہی تاجر ان غلاموں کو براستہ زنجبار اور اومان پوری دنیا میں فروخت کے لئے لے جاتے تھے۔

صفدر نے بازار میں ہی واقع وہ کنواں بھی دکھایا جہاں نیلامی سے پہلے ان غلاموں کو نہلایا جاتا تھا۔ ہم نے بازار مصر کا ذکر تو اکثر کتابوں میں پڑھا تھا لیکن آج اسی قسم کے ‘بازار باگو مویو’ میں ہم کھڑے اس قبیح تجارت کا ذکر صفدر کی زبانی سن رہے تھے۔ اور اسی دوران میری سوچ کی پرواز مجھے کراچی واپس لے گئی جہاں افریقی النسل باشندوں کی ایک بڑی تعداد آباد تھی اور جنہیں عرف عام میں مکرانی کہا جاتا تھا۔ مکرانی کی اصطلاح کی وجہ یہ تھی کہ افریقی نسل کے ان باشندوں کو تاریخی سندھ کے حکمران اور صاحب ثروت لوگ مکران سے خرید کر لاتے تھے اور ساری عمر اپنی غلامی میں رکھتے تھے۔

باگو مویو کا بازار غلاماں جہاں اب دستکاریاں اور آرٹ کے نمونے فروخت ہوتے ہیں

اس سفر نے میرے ذہن میں کلبلاتے ان سوالوں کے جواب کے راستے کھولنا شروع کئے جو اسپتال کی او پی ڈی میں مجید بلوچ سے تعارف کے بعد پیدا ہوئے تھے۔ میں اب جاننا چاہتا تھا کہ باگو مویو اور مکران میں کیا کوئی تعلق تھا؟ اور اگر تھا تو کیسے۔ کچھ ورق گردانی کے بعد آہستہ آہستہ ایک واضح تصویر ابھرنے لگی۔ اٹھارویں صدی کے آخر میں اس وقت کے سلطان کے انتقال کے بعد اس کے جانشینوں میں وراثت کی جنگ ہوئی۔ سلطان بن احمد کو اس جنگ میں ابتدائی شکست کے بعد خان آف قلات کے پاس پناہ لینی پڑی جنہوں نے سلطان بن احمد کو مکران کے ساحلی مقام گوادر کا قبضہ بطور تحفہ دے دیا۔ گوادر سے ہی سلطان بن احمد نے اپنی وراثت کی جنگ اپنی کامیابی تک جاری رکھی۔ اور سلطان اومان کے تخت پر بیٹھنے کے بعد بھی گوادر کو اپنی سلطنت کے حصے کے طور پر برقرار رکھا اور مقامی انتظام کے لئے ایک گورنر (والی) مقرر کر دیا۔ اس سے قبل سترھویں صدی کے آخر میں سلطنت عمان نے مشرقی افریقہ کے ساحل کے قریب زنجبار نامی جزیرے پر اپنی حکمرانی قائم کرلی تھی۔ انیسویں صدی کے وسط میں اومان کے حکمراں خاندان میں ہونے والے ایک اور تنازعے کے بعد بطور حل ایک شہزادے کو زنجبار کا انتظام سونپ کر اسے ایک خودمختار سلطنت کا درجہ دے دیا گیا۔ یہ خودمختار سلطنت بیسویں صدی کے چھٹی دہائی تک قائم رہی جب اس میں آنے والے ایک سوشلسٹ انقلاب کے بعد نئے حکمرانوں نے اس کا انضمام تانگا نیکا سے کرکے ایک نئے ملک تنزانیہ کی بنیاد رکھی۔

بازار غلاماں کا کنواں جہاں نیلامی سے پہلے غلاموں کو نہلایا جاتا تھا

سترہویں صدی کے آخر سے انیسویں صدی کے آخر تک تقریباً دوسو سال زنجبار مصالحوں اور غلاموں کی تجارت کا ایک بڑا مرکز رہا۔ غلاموں کو مشرقی افریقہ کے ساحلی علاقوں میں قائم باگو مویو جیسے بازاروں سے خرید کر عرب ممالک اور برصغیر تک فروخت کے لئے لے جایا جاتا۔ اٹھارویں صدی میں جب گوادر بھی خان آف قلات کی فیاضی اور مہمان نوازی کے نتیجے میں سلطنت عمان کا حصہ بنا تو مکران مشرقی افریقہ سے لائے ہوئے ان غلاموں کی فروخت کا ایک بڑا مرکز بن گیا جہاں سے انہیں خرید کر برصغیر کے دیگر علاقوں میں لے جایا جاتا۔ جغرافیائی قربت کے باعث سندھ میں ان افریقی النسل غلاموں کی اولادوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے جنہیں عرف عام میں شیدی کہا جاتا ہے۔

بازار غلاماں کی ایک اور جھلک

سندھ کے تالپور حکمران ان غلاموں کے ایک بڑے خریدار تھے۔ انہی غلاموں میں سے ایک تالپور حکمرانوں کی فوج کے جرنیل ھوشو شیدی شہید تھے جنہوں نے 1843ء میں انگریزوں سے لڑتے لڑتے اپنی جان دی اور جن کا نعرہ ”مرسون مرسوں پر سندھ نہ ڈیسوں” ان کو سندھ کی تاریخ میں امر کر گیا۔ سندھ کے یہ افریقی النسل باشندے حضرت علی کے ایک آزاد کردہ غلام حضرت قنبر سے اپنا روحانی تعلق جوڑتے ہیں اور اپنی شناخت قنبرانی (یا قمبرانی) کے طور پر کراتے ہیں۔

گوادر سے ہی اس کے اومانی حکمران بلوچوں کی ایک بڑی تعداد کو زنجبار لے گئے جہاں وہ لونگ اور سیاہ مرچ کے باغات میں کام کرنے کے علاوہ مقامی افواج میں بھی خدمات انجام دیتے تھے۔ ان میں سے بہت سوں نے مقامی افریقی عورتوں سے شادیاں کیں اور اب انکی اولادیں صرف سواحلی زبان بولتی ہیں۔ انہی بلوچوں میں سے ایک مجید بلوچ سے آغا خان ہسپتال دارالسلام کی او پی ڈی میں اتفاقی ملاقات نے میری اس آگہی کے دروازے کھولے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2