ڈاکیہ: انتون چیخوف کی کہانی


حالاںکہ ابھی تک لڑکا خوف سے کانپ رہا تھا لیکن جیسے ہی اسے محسوس ہوا کہ خطرہ ٹل گیا ہے اور وہ اب محفوظ ہے تو اسے یہ سارا واقعہ اتنا مضحکہ خیز لگا کہ کہ اس نے زور زور سے ہنسنا شروع کر دیا۔ اس کا موڈ بالکل بدل چکا تھا۔ زندگی میں پہلی مرتبہ اس نے اتنی رات گئے سفر کیا تھا، اور وہ بھی ایک ڈاک گاڑی میں۔ جن خطرات سے وہ دوچار ہوا اس کے نتیجے میں سوائے زخمی کمر اور ماتھے پر ایک چھوٹے سے گومڑ کے اور کوئی خاص نقصان نہیں ہوا تھا۔ اس نے سگرٹ سلگایا اور ہنستے ہوئے کہنے لگا۔

پتہ ہے جیسے آپ گرے تھے، شکر کریں گردن نہیں ٹوٹی

ڈاکیے نے اس کی بات کا جواب نہیں دیا اور منہ پھلائے بیٹھا رہا۔

لڑکے نے ہمت نہیں ہاری اور نہایت ثابت قدمی سے پھر بولا۔

آپ کب سے اس ڈاک گاڑی کی ڈیوٹی دے رہے ہیں؟

گیارہ سال سے۔

ہر روز؟

ہاں، ہر روز۔ جیسے ہی یہ ڈاک پہنچ جاتی ہے میں اسی گاڑی سے واپس پوسٹ آٓفس آتا ہوں اور پھر رات کو دوبارہ یہی ڈیوٹی دیتا ہوں۔ کیوں، کس لیے پوچھ رہے ہو؟

لڑکا سوچ میں پڑ گیا تھا۔ اگر یہ ڈاکیہ روز یہ سفر کرتا ہے تو اس کا تو ہر دن ایسے ہی آج کی طرح کی دلچسپ اور خطرناک مہم جوئی میں گزرتا ہوگا؟ کبھی یہ برف کے طوفانوں میں گھر جاتا ہو گا؟ کبی گھوڑے بدک جاتے ہوں گے تو کبھی ڈاکو اس کی گاڑی پر حملہ کر دیتے ہوں گے؟ اس کے پاس تو بے انتہا کہانیاں جمع ہو گئی ہوں گی؟

‘تو کیا آپ کے ساتھ اکثر اس طرح کے واقعات ہوتے رہتے ہیں؟

اس کا خیال تھا کہ ڈاکیہ اب اپنے بارے میں اس کی دلچسپی دیکھ کر آپ بیتی سنانی شروع کر دے گا۔ لیکن ڈاکیے نے مکمل خاموشی اختیار کیے رکھی۔ اتنی دیر میں صبح کے آثار نمایاں ہونے شروع ہو گیے تھے، چاند بادلوں میں گھرا ہوا تھا، ہلکے ہلکے اجالے میں اب ڈاکیے کا تھکا ہوا اور غصے سے بھر پور چہرہ نظر آنے لگا تھا۔ جیسے وہ ابھی تک کوچوان سے سخت خفا ہو۔

‘شکر ہے روشنی تو ہوئی۔ لڑکے نے کوچوان کو اور ڈاکیے کے غصیلے اور سردی سے ٹھٹھرتے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا۔

مجھے خود بھی سردی لگ رہی ہے۔ ستمبر میں راتیں کافی ٹھنڈی ہو جاتی ہیں، لیکن سورج نکلنے کے بعد ذرا گرمی پڑنے لگتی ہے۔ کیا خیال ہے ہم کتنی دیر تک سٹیشن پر پہنچ جایں گے؟

ڈاکیے نے نہایے اکتاہٹ سے لڑکے کی طرف دیکھا اور ڈانٹ کر اسے کہا ‘چپ ہو جاؤ، تم کچھ زیادہ ہی بولتے ہو۔

لڑکا مایوس ہو کر چپ ہو گیا اور باقی سفر کے دوران اس نے اور کوئی بات نہ کی۔

اب مزید روشنی ہو چکی تھی۔ چاند بالکل مدہم ہو کر سرمئی آسمان میں چھپ گیا تھا۔ افق پر بنفشی رنگ کی لکیریں نمودار ہونے لگی تھیں جن کے پیچھے سے سورج نمودار ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔ لیکن سردی ابھی بھی برداشت سے باہر تھی، اوپر سے ڈاکیے کے رویے نے لڑکے کی طبیعت مکدر کر دی تھی۔ اب وہ پہلے کی طرح ہشاش بشاش نہیں تھا بلکہ خاصا اداس ہو گیا تھا۔ اسی اداسی کے عالم میں اس نے اپنے ارد گرد دیکھا تو سوچا کہ انسان تو انسان یہ درخت اور گھاس تک بھی ان شدید سردی کی راتوں سے تنگ آ گئے ہوں گے۔ اگرچہ سورج نکل آیا تھا لیکن تمازت کی بجائے اس کے دھیمے پن سے ایک سرد مہری کا احساس ہوتا تھا۔ کہانیوں میں پڑھے ہوئے طلوع آفتاب کے منظر کے برعکس درختوں کی چوٹیاں کرنوں کا استقبال نہیں کر رہی تھیں، سست سست پرندوں کی اڑان میں کوئی مسرت نہیں دکھائی دے رہی تھی۔ روشنی کے باوجود سردی جوں کی توں تھی

آبادی شروع ہو چکی تھی۔ اس نے ایک مکان کی کھڑکی پر پڑے ہوئے پردے کو دیکھ کر سوچا کہ ان پردوں کے پیچھے مکین خواب غفلت کے مزے لے رہے ہوں گے۔ وہ نہ تو سردی سے کپکپا رہے ہوں گے ہر نہ ہی وہ اس ڈاکیے کے غصیلے، منحوس چہرے کو دیکھ رہے ہون گے۔ اور اگر کوئی دوشیزہ گاڑی کی گھنٹیوں کی آواز سن کر جاگ بھی گئی تو فورا ایک نیند بھری مسکراہٹ کے ساتھ کروٹ بدل کر پھر سے حسین خوابوں کی وادیوں میں کھو گئی ہو گی۔

ابھی وہ ان خیالوں میں گم تھا کہ ڈاکیے کی آواز نے اسے چونکا دیا۔

‘معلوم ہے کہ ڈاک گاڑی میں کسی پرایویٹ سواری کو بیٹھنے کی اجازت نہیں ہے۔ اور کسی غیر متعلقہ شخص کو بٹھانا جرم ہے۔ مجھے یہ بات بالکل پسند نہیں۔

تو پہلے کیوں نہیں کہا؟ لڑکے کو بھی اب غصہ آگیا تھا۔

حسب معمول ڈاکیے نے کوئی جواب نہیں دیا اور اسی طرح غصیلی نظروں سے لڑکے کو گھورتا رہا۔ جب تھوڑی دیر بعد گاڑی ریلوے سٹیشن کے گیٹ پر پہنچی تو لڑکے نے تکلف سے ڈاکیے کا شکریہ ادا کیا اور گاڑی سے اتر گیا۔ ابی تک ڈاک والی ٹرین نہیں آئی تھی۔ صرف ایک لمبی مال گاڑی پٹری پر کھڑی تھی۔ انجن میں ریل کا کوچوان اور اس کا اسسٹنٹ ٹین کے مگوں میں چائے پی رہے تھے۔ ریل کی بوگیاں، پلیٹ فارم، سیٹیں سب گیلی اور ٹھنڈی تھیں۔ ڈاک گاڑی کے آنے تک لڑکے نے پلیٹ فارم کے اکلوتے سٹال سے ایک چائے لی جسے وہ چسکیاں بھر بھر کے پی رہا تھا۔ ڈاکیے پر ایک اضطرابی سی کیفیت طاری تھی۔ آستینوں میں ہاتھ ڈالے، نظریں نیچی کیے، پلیٹ فارم ایک سرے سے دوسرے تک جاتا اور پھر واپیس مڑ جاتا۔ خدا جانے وہ کن خیالوں میں کھویا ہوا تھا، لیکن اس کے چہرے پر غصے کا تاثر جم کر رہ گیا تھا۔ وہ پلیٹ فارم کو ایسے غصیلے انداز میں کھڑا دیکھ رہا تھا جیسے وہ دنیا میں تنہا ہے، اور سوائے مایوسی، غصے اور ناراضی کے زندگی میں اس کے لیے اور کچھ نہیں۔ لڑکے کے ذہن میں صرف یہی سوال گونج رہے تھے۔

وہ کس سے ناراض تھا؟ اپنی زندگی سے؟ غربت سے؟ لوگوں سے؟ یا خزاں کی راتوں سے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3