خود ساختہ قومی ہیروز کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے


\"abdurتاریخ دانوں کے درمیان یہ بحث بڑے ذور و شور سے جاری ہے کہ آیا ایک تاریخ لکھنے والے کو تاریخ نویسی کے کچھ اصول مدون کرنے چاہئے یا پھر اس بات کا فیصلہ قاری پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ صحیح اور غلط کے اصولوں کو بنیاد بناتے ہوئے تاریخ کے مستند یا غیرمستند ہونے کا فیصلہ خود کرے۔  تاریخ دانوں کا ایک مکتبہ فکر اس بات کا حامی رہا ہے کہ تاریخ پر اثر انداز ہونے والی اہم شخصیات کو تاریخ کے احتساب سے مستثنیٰ قرار دیا جائے اور وہ اس بات کی یہ توجیح پیش کرتے ہیں کہ ان لوگوں نے جو بھی انسانی یا غیر انسانی اقدامات کیے ان کا مقصد عوام کی بھلائی،بغاوت کا خاتمہ اور سرحدوں کی حفاظت تھا۔  انہی چیزوں کو بنیاد بناتے ہوئے یہ تاریخ دان ان کے قتل عمد، لوٹ مار اور ظلم و جبر کو جائز قرار دیتے ہیں۔

اس کے بر عکس تاریخ دانوں کا دوسرا مکتب فکر اس بات کو اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے کہ وہ بذریعہ قلم تاریخی واقعات کا بے لاگ تجزیہ کر کے ان کو نہ صرف ہوبہو نقل کریں بلکہ حکمرانوں کا اخلاقی طور پر احتساب کریں۔  اسی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے مشہور تاریخ داں لارڈ ایکٹن نے کوئین میری کے قتل کا احتساب کوئین وکٹوریہ سے لینے کا مطالبہ کیا۔  جبکہ ان ہی کے نزدیک بے گناہ لوگوں کے قتل کا ذمہ دار سکندر اعظم کو ٹھہرایا جانا ضروری ہے جس نے لاکھوں لوگو ں کو محض اس وجہ سے موت کے گھاٹ اتار دیا کیونکہ وہ چاہتا تھا کہ چار دانگ عالم میں اس کی شہرت کا ڈنکہ بجے اور اسے دنیا کے عظیم فاتح کے نام سے یاد کیا جائے۔  کہانی صرف یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ جدید دنیا کے سکندر امریکہ کے ویتنام پر ڈھائے جانے والے مظالم کا بھی احتساب ضروری ہے جس کے نزدیک ویتنام میں اس کے بہادر فوجیوں نے داستانیں رقم کیں لیکن ایک منصف تاریخ دان کی نظر میں اس کا مقصد کمیونزم سے بدلہ لینے کے لیے بلا وجہ ہزاروں انسانوں کو جنگ کی بھٹی میں جھونک دینا تھا۔

ایران کونٹرا سکینڈل میں قانون سے ہٹ کر کام کرنے کے باوجود  رونالڈ ریگن کو ہیرو قرار دیا۔ تاریخ دانوں کے اسی رویے نے جارج ڈبلیو بش اور ٹونی بلیئرکو جدید دنیا کا مہذب قاتل بنا دیا جو ایک ملین سے زیادہ بے گناہ لوگوں کی ہلاکت کے ذمہ دار ہیں۔ تاریخ ان بے انصافیوں سے بھری ہوئی ہے کہ جب بریگیڈئیر ڈائر نے جلیانوالہ باغ کے قتل کے واقعے میں سینکڑوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا تو متعصب تاریخ دانوں نے جنرل کے اس اقدام کی وجہ سے اسے قومی ہیرو قرار دیا کیونکہ ان کے نزدیک اس کا یہ اقدام انگریزی سلطنت کے مفاد میں اور سلطنت برطانیہ کے استحکام میں اہم کردار ادا کرنے والا تھا۔

جب بھی اخلاقیات کی بات آتی ہے تو ظالموں کا ساتھ دینے اور مظلوموں کی حمایت میں واضح تقسیم نظر آتی ہے۔ ہٹلر، یہودی قوم پر ظلم وستم ڈھانے کی وجہ سے یہودی تاریخ دانوں کی نظر میں ولن ہے حتی کہ بعض یورپی ممالک میں ہولو کاسٹ کے خلاف بات کرنا جرم سمجھا جاتا ہے جبکہ اس کے بر عکس فلسطینییوں کا خون بہانا یورپی مستشرقین کی نظر میں ایسے ہی ہے جیسے بدروحوں کو بھگانے کے لیے صدقہ دینا۔ نہ صرف فلسطینییوں کے خون نا حق کی حمایت اور مخالفت میں مغربی تاریخ دان تقسیم کا شکار نظر آتے ہیں بلکہ یہودیوں کی حمایت میں بڑھ چڑھ کے شور مچانے والے تاریخ دانوں کو فلسطینییوں کے موقف پر سانپ سونگھ جاتا ہے۔

تاریخ دانوں نے یہی ظلم سابقہ مشرقی پاکستان کے ساتھ روا رکھا۔ ان کے اوپر ہونے والے مظالم کے خلاف نہ صرف مقامی تاریخ دان خاموش رہے بلکہ دبے الفاظ میں ان فوجی جرنیلوں کی پیٹھ ٹھونکی جو مشرقی بازو کی علیحدگی کے ذمہ دار تھے۔ نتیجے کے طورپران سورماؤں کو نہ صرف مختلف اعزازات سے نوازا گیا بلکہ وہ مملکت پاکستان میں با عزت زندگی گزار کرجھنڈے میں لپٹے دفن ہوئے ۔ اس کے برعکس بنگلہ دیش نے تعصب کا جواب تعصب سے ہی دیا اور سپیشل ٹرائل کورٹ قائم کر کے 1971 کے سانحے میں پاکستان کی حمایت کرنے والے افراد کو فرداً فرداً پھانسی دی گئی۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر تاریخ دانوں نے حکمرانوں کے ناجائز اعمال سے اغماض برتا اور سب اچھا ہے کی لوری سناتے رہے تو یہ ظلم و ستم اور زیادتیوں کا سلسلہ رکے گا نہیں بلکہ ظالموں کو اور شہ ملے گی اور وہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق ظلم و زیادتیوں کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تاریخ عالم کو دوبارہ سے لکھا جائے اور اخلاقیات کے اصول طے کرتے ہوئے ظالم اور جابر حکمرانوں، فوجی جرنیلوں اور خود ساختہ قومی ہیروز کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).