ایک زرداری سب پہ بھاری مگر کس قیمت پر


ہفتہ کو چیف جسٹس ثاقب نثار نے کراچی کے ضیا الدین ہسپتال کے وی آئی پی وارڈ میں چھاپہ مار کر وہاں سب جیل قرار دئیے گئے ایک کمرے سے شراب کی دو بوتلیں برآمد کرلیں۔ اسے اتفاق ہی کہا جاسکتا ہے کہ اس کمرے میں پیپلز پارٹی کے رہنما شرجیل میمن ’قید‘ اور زیر علاج تھے۔ انہیں کئی ارب روپے کی بدعنوانی کے الزام میں نیب کی درخواست پر گرفتار کیا گیا تھا تاہم وہ بیماری کی وجہ سے علاج کے لئے ہسپتال منتقل ہوگئے تھے ۔ بھری عدالت میں چیف جسٹس کے اس انکشاف کے بعد پیپلز پارٹی کے معاون چئیر مین آصف زرداری نے معصومیت سے پوچھا تھا کہ ’جس ملک میں چیف جسٹس چھاپے مارے تو پھر ہم کیا کریں‘۔ آج حکومت سندھ کے ڈائیریکٹر لیبارٹریز اینڈ کیمیکل ایگزامینر ڈاکٹر حسن انصاری نے زرداری کے اس استفسار کا تفصیلی جواب فراہم کردیا ہے۔

اس اعلیٰ سرکاری عہدیدار کے دستخط سے جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس نے مبینہ طور پر شرجیل میمن کے کمرے سے شراب کی جو دو بوتلیں برآمد کی تھیں ، ان میں سے ایک میں شہد اور دوسری میں زیتون کا تیل تھا۔ یہ رپورٹ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے اس دعویٰ کے عین مطابق ہے جو چیف جسٹس کے چھاپے میں شراب برآمد ہونے پر سامنے آیا تھا۔ شرجیل میمن کو تو شراب کی بوتلوں میں شہد اور زیتون برآمد ہونے کی تصدیق سے پہلے ہی سزا کے طور پر سنٹرل جیل منتقل کیا جاچکا تھا۔ لیکن اب ان کے صاحبزادے راول میمن چیف جسٹس سے بجا طور سے یہ پوچھ رہے ہیں کہ کمرے میں شراب کی موجودگی کا الزام لیبارٹری رپورٹ میں غلط ثابت ہوچکا ہے۔ لیکن اس معاملہ پر ان کے والد کے میڈیا ٹرائل کا ذمہ دار کون ہے۔

راول میمن نے یہ بھی بتایا ہے کہ ان کے والد کے خون کا ٹیسٹ بھی لیا گیا تھا لیکن اس ٹیسٹ رپورٹ میں بھی واضح ہؤا ہے کہ شرجیل میمن کے خون میں الکوہل کا کوئی سراغ نہی ملا۔ حالانکہ اگر کسی شخص نے شراب پی ہو تو چھ سات ہفتوں کے بعد بھی اس کے بلڈ ٹیسٹ میں اس کا سراغ مل جاتا ہے۔ راول میمن کے سوال اور شکایت کا جواب تو چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار ہی دے سکتے ہیں جو چاہیں تو کسی مجسٹریٹ کی عدالت میں جاکر اپنا بیان حلفی بھی جمع کروا سکتے ہیں کہ انہوں نے تو شراب ہی برآمد کی تھی ۔ بعد میں ’ساقی‘ نے شراب میں کچھ ملادیا ہو تو وہ اس کا کیا جواب دیں۔ البتہ اس واقعہ میں آصف زرداری کے سوال کا جواب ہی نہیں ملا بلکہ انہوں نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ ان کے بارے میں’ایک زرداری سب پہ بھاری‘ کی جو مثل بولی جاتی ہے، وہ غلط نہیں ہے۔

ان کا سیاسی جثہ ہی نہیں بلکہ ان کی باتوں کو بھی قیمتی اور سونے میں تولے جان کے لائق سمجھا جانا چاہئے۔ آصف زرداری نے تو ہفتہ کے روز ہی چیف جسٹس کے سامنے اپنی بے بسی کا رونا روتے ہوئے گزارش کر دی تھی کہ چیف صاحب چھاپے مارنے کے علاوہ اگر سپریم کورٹ میں زیرسماعت مقدمات میں سائلین کو انصاف فراہم کرنے پر بھی وقت صرف کریں تو بہت سے مظلومین کا بھلا ہو گا جو سال ہا سال سے اپنی اپیلوں پر فیصلوں کا انتظار رکرہے ہیں۔ لیکن چیف جسٹس سو موٹو ایکشن میں مصروفیت کے باعث اس طرف توجہ نہیں دے پارہے۔

زرداری سب پہ بھاری کا ایک کرشمہ تھوڑی دیر پہلے اسلام آباد کے زرداری ہاؤس میں مولانا فضل الرحمان کے ساتھ ملاقات میں بھی دیکھنے میں آیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے ذرائع نے روزنامہ دی نیوز کو بتایا ہے کہ اس ملاقات میں برف پگھلنا شروع ہوئی ہے ۔ اگرچہ آصف زرداری نے صدارت کے لئے بطور امید وار اعتزاز احسن کا نام واپس لینے سے انکار کیا ہے لیکن مولانا فضل الرحمان اس دوڑ سے باہر ہونے پر آمادہ ہیں۔ مولانا فضل الرحمان اب مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف سے ملیں گے جس کے بعد وہ رات گئے آصف زرداری سے دوبارہ مل سکتے ہیں تاکہ اپوزیشن کی طرف سے ایک ہی امید وار حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار ڈاکٹر عارف علوی کا مقابلہ کرسکے۔ ان ذرائع نے اخبار کو یہ بھی بتایا ہے کہ اپوزیشن کے مشترکہ صدارتی امیدوار مولانا فضل الرحمان اس شرط پر اپنانام واپس لینے پر آمادہ ہو رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی شہباز شریف کو متحدہ اپوزیشن کا لیڈر تسلیم کرلے گی۔ یہ خبریں محض افواہ سازی بھی ہو سکتی ہیں اور کل صبح دس بجے جب ملک کا نیا صدر منتخب کرنے کے لئے ووٹنگ شروع ہوگی تو بدستور ملک کی اکلوتی صدارت کو حاصل کرنے کے لئے تین رہنما مد مقابل ہوں لیکن آصف زرداری کے علاوہ مولانا فضل الرحمان بھی سیاسی معجزہ سازی کے ماہر ہیں اس لئے افواہوں میں سے کوئی حقیقت برآمد ہونے کے امکان کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

ان حالات میں اس بات میں تو شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ آصف زرداری سیاسی بساط پر مہرے چلنے کے ماہر ہیں اور ہر مشکل میں اپنی پوزیشن مضبوط کرکے چال چلنے میں ید طولی رکھتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی انتخابات سے پہلے ، دوران اور بعد میں آصف زرادری کی سیاسی چال بازی سے یہ بھی واضح ہؤا ہے کہ وہ سب پر بھاری ضرور ہو سکتے ہیں لیکن ان کی ہنر مندی کی بدولت مضبوط اور گراں ڈیل اپوزیشن کا مکمل انتشار کا شکار ہوچکی ہے جو 25 جولائی کے انتخابات کے بعد دیکھنے میں آرہی تھی۔ انتخابات میں تحریک انصاف سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری تھی ۔ اس پارٹی نے چھوٹی پارٹیوں اور آزاد ارکان کو ساتھ ملاکر اور اس تعاون کا مناسب سیاسی معاوضہ ادا کرکے وزیر اعظم کے انتخاب میں عمران خان کے لئے معمولی اکثریت بھی حاصل کرلی تھی۔ تاہم لگتا تھا کہ اپوزیشن کے ڈیڑھ سو کے لگ بھگ ارکان معمولی اکثریت والی حکومت کو ناکوں چنے چبوائیں گے۔ لیکن اس مشکل میں بھی سب پر آصف زرداری کی چال ہی بھاری پڑی۔ اور عمران خان کو درپیش چیلنج کو پیپلز پارٹی کے واک آؤٹ سے ملیامیٹ کردیا گیا۔ آصف زرداری نے وزارت عظمی کے انتخاب سے ایک دن پہلے شہباز شریف کی امید واری پر اعتراض کرکے پیپلز پارٹی کے پچاس سے زائد ارکان کو قومی اسمبلی کے اجلاس کا بائیکاٹ کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس طرح عمران خان آسانی سے وزیراعظم بھی بن گئے اور زرداری اپوزیشن میں رہتے ہوئے بھی کامیاب ٹھہرے اور داد و تحسین کے ڈونگرے بھی سمیٹے۔ یہ الگ بات ہے کہ بعض جمہوریت پسند اس اقدام کو جمہوری عمل اور پارلیمنٹ کے وقار کے لئے خطرہ قرار دیتے ہوئے یہ کہہ کر اپنا سر پیٹتے رہے کہ اس طرح تو وہی ادارے مضبوط ہوں گے جو اس ملک میں نہ جمہوریت کو چلنے دیتے ہیں اور نہ سیاست دانوں کو کامیاب ہونے دیتے ہیں۔ وہی سیاست دان سرخرو ہو سکتا ہے جو طے شدہ قومی ایجنڈے پر عمل کرسکتا ہو۔ آصف زرداری کا کمال یہ ہے کہ وہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے بھی سرکاری ایجنڈے کا علم سرنگوں نہیں ہونے دیتے۔

پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابقہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے اپوزیشن سے مشورہ کئے بغیر اعتزاز احسن کو یک طرفہ طور سے پیپلز پارٹی کی طرف سے صدارتی امیدوار نامزد کرنے کا عذر پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ پیپلز پارٹی نے یہ اقدام حکمران پارٹی تحریک انصاف کے وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی تجویز پر کیا تھا ۔جنہوں نے اعتزاز احسن کو نہایت اہل اور قابل ہونے کے علاوہ قابل قبول امید وار کے طور پر پیش کیا تھا۔ فواد چوہدری نے اس دعویٰ پر اس سے زیادہ تبصرہ نہیں کیا کہ تحریک انصاف کے امید وار تو عارف علوی ہی ہیں۔ یوں اعتزاز احسن فی الوقت صرف پیپلز پارٹی کے امیدوار بن کر رہ گئے ہیں لیکن سیاسی مہرے چلنے کے اس کھیل میں آصف زرداری یہ واضح کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ وہ تنہا ہونے کے باوجود وہی کرتے ہیں جو ’بہترین قومی مفاد ‘ میں ہوتا ہے۔ خواہ عین وقت پر وزارت عظمی کے لئے اپوزیشن کے مشترکہ امیدوار کی حمایت سے ہاتھ کھینچنے کا معاملہ ہو یا صدارت کے لئے اپوزیشن کی بجائے حکومت کی تجویز پر امیدوار کھڑا کرنے کا فیصلہ ہو۔ اب اسے کوئی جمہوریت کو خطرہ قرار دیتاہے تو اس کا ظرف ہے۔ جیالوں کی پارٹی کے معاون چئیرمین سے زیادہ کون جان سکتا ہے کہ بہترین قومی مفاد کس وقت کیا کہنے اور کرنے کا تقاضہ کرتا ہے۔

چیف جسٹس کے چھاپے میں خواہ شراب ہی کی بوتلیں برآمد ہوئی ہوں لیکن اگر لیبارٹری میں جاکر ان میں شہد اور زیتون کا تیل نکل آتا ہے تو اس میں بھی ضرور کوئی بڑا قومی مفاد ہی پوشیدہ ہوگا۔ پس ثابت ہؤا کہ آصف زرداری کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتے۔ وہ دام لگانے سے پہلے مال تول لیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali