عاطف میاں، ہمارے دانشور اور قانونی پوزیشن


میاں عاطف اور ہمارے دانشور پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے بین الاقوامی سطح پہ معروف ماہر معاشیات میاں عاطف کو اقتصادی مشاورتی کونسل کا حصہ بنانے پر سوشل میڈیا پہ چند دنوں سے بحث کا سلسلہ جاری ہے۔

مخالفین تو کجا خود تحریک انصاف کے سپورٹرز اور ورکرز کی جانب سے بھی شدید قسم کا ردعمل سامنے آیا ہے، ابتدائی طور پر حکومتی ترجمان فواد چوہدری نے مخالفت کی اس لہر کے سامنے کھڑا رہنے کا عندیہ دیا مگر آخر کار وہی ہوا کہ ریاست نے رجعت پسندی کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔

اس سارے معاملے پہ بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا اس کے سیاسی سے لے کر مذہبی، سماجی اور تاریخی پہلووں پہ تفصیلاً بحثیں ہوئیں، کچھ جگہوں پہ محض سستی جذباتیت کا جمعہ بازار لگا جبکہ چند اہل فکر نے اس کے حق اور مخالفت میں مضبوط دلائل دیے۔

بحثیت ایک پاکستانی میری ذاتی رائے اس معاملے میں یہ تھی کہ میاں عاطف کی تقرری کا فیصلہ اصولی اور آئینی طور پہ بالکل درست ہے آئین نے احمدیوں کو اقلیت قرار دے دیا ہے اب ایک اقلیتی گروہ سے تعلق رکھنے والی شخص کو حکومت کوئی عہدہ دینا چاہتی ہے اور اس کے راستے میں قانونی رکاوٹ بھی نہیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔

لیکن اس سب کے باوجود اگر حکومت مسئلہ احمدیت کی حساسیت کو سامنے رکھتے ہوئے اس سے پیچھے بھی ہٹ جائے تو کوئی قباحت نہیں کیونکہ یہ وقت معاشی حوالوں سے بہت نازک ہے ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے ایسے میں عمران کی تمام تر توجہ ملکی معیشت کی بہتری کی طرف ہونی چاہیے۔

میری رائے کے برخلاف ایک بڑی تعداد نے اس تقرری کو اصولی طور پہ ہی آئین و قانون کی خلاف ورزی سے تعبیر کیا ان ہی افراد میں ایک نام معروف کالم نگار محترم آصف محمود کا بھی ہے، محترم کالم نگار نے یوں تو اس موضوع پہ بہت کچھ کہا اور لکھا۔ حسب روایت داد بھی وصول کی۔

اپنے ایک تازہ کالم میں انہوں نے آئین کے آرٹیکل 260 کی ذیلی دفعہ 3 اور تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298 سی اور بی کا ذکر کیا، واضح رہے کہ آصف محمود صاحب کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ وکیل بھی ہیں اور قانونی معاملات پہ اپنے کالمز میں اظہار رائے بھی وقتاً فوقتا فرماتے رہتے ہیں اور اگر وہ وکالت کے شعبے سے وابستہ نہ ہوتے تو شاید مجھے یہ سطریں تحریر کرنے کی ضرور ہی پیش نہ آتی۔

مذکورہ کالم میں آئین پاکستان کے آرٹیکل 260 اور تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298 کو ملا پڑھا گیا اور قارئین کو یہ ثاثر دیا گیا کہ کیونکہ عاطف میاں خود کو احمدی ہونے کے باوجود مسلمان ظاہر کیا یے جو 298 سی ب کے تحت جرم ہے یا قانونی دفعہ 298 بی میں احمدیوں پہ لگائی گئی پانچ دیگر پابندیوں کی خلاف ورزی کی لہذا انہوں نے ایک قابل دست اندازی پولیس جرم کا ارتکاب کیا جس کی سزا تین برس قید اور جرمانہ ہے لہذا ان کو اس وجہ سے مشاورتی کونسل کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا۔

مزید یہ کہ عاطف میاں اس جرم کا ارتکاب محض ایک مرتبہ نہیں کیا بلکہ تسلسل سے کرتے آئے ہیں، قصہ مختصر عاطف میاں کو اس کالم میں مجرم ثابت کر دیا گیا، بظاہر یہ دلیل کافی مضبوط اور معقول نظر آتی ہے لیکن حقیتاً یہ ایک بے معنی اعتراض ہے اور اگر کسی قانونی ماہر کی طرف سے کیا جائے تو اسے مضحکہ خیز کہنا بھی غلط نہ ہو گا۔

محترم آصف محمود صاحب نے کیونکہ ایل ایل بی طویل عرصہ قبل کی تھی تو شاید اسی وجہ سے ضابطہ فوجدار مجریہ 1898اور قانونی شہادت آرڈر مجریہ 1984 کے طے کردہ کچھ بنیادی اصولوں کو بھلا بیٹھے ہیں ان اصولوں کے مختصراً بیان سے صورتحال واضح کرتا ہوں۔

جب بھی کسی قابل دست اندازی پولیس جرم کا ارتکاب کیا جائے تو کوئی بھی شخص اس کے خلاف تھانے میں ایف آئی آر درج کراتا ہے (ضابطہ فوجداری دفعہ 154 )، بعد ازاں پولیس تفتیش کرتی ہے(دفعات 255 تا 276 )اور پولیس ملزم کے خلاف عدالت میں چالان پیش کرتی ہے (ضابطہ فوجداری دفعہ 173)۔

اسکے بعد ملزم کا ٹرائل ہوتا ہے( دفعات 241 تا 250 ضابطہ فوجداری)جس میں استغاثہ گواہان پیش کرتا ہے ملزم کا وکیل استغاثہ کے گواہوں پہ جرح کرتا ہے(آرڈر 130تا 161 ) اس کے ساتھ دیگر جو بھی شواہد ہوں عدالت کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں اور ملزم کا وکیل تمام ثبوتوں اور شواہد کے بارے جرح کرتا ہے۔

پھر اس کے بعد دونوں اطراف کے وکلاء دلائل دیتے ہیں اور جج اس سب کی روشنی میں فیصلہ سنا کر یا تو ملزم کو سزا دیتا ہے یا بری کر دیتا ہے(دفعہ 366 ضابطہ فوجداری)، یہ وہ قانونی مراحل ہیں جو کسی بھی شخص کو ملزم ثابت کرنے تک طے کیے جاتے ہیں۔

متعلقہ دفعات قانون کی کتابوں میں پڑھی جا سکتی ہیں، میاں عاطف نے کیا جرم کیا اور کس کا ارتکاب مسلسل کرتےآئے ہیں محترم کالم نگار نے نہ تو جرم کا ذکر کیا نہ ہی کسی ثبوت کا حوالہ دیا ہے۔

اب فرض کریں کہ میاں عاطف نے اپنے کسی سوشل میڈیا اکاونٹ سے یا کسی بھی اور ذریعے سے 298 سی یا بی کے تحت کسی جرم کا ارتکاب کیا ہے تو بھی یہ سارے مراحل طے کرنے ہوں گے اور دوران ٹرائل استغاثہ کو بہت سی باتیں ثابت کرنی ہوں گی۔

وکیل صفائی اپنے بہت سے حقوق اور ممکنہ دفاع کو آخری درجہ میں استعمال کرے گا جن کو فاضل کالم نگاربطور وکیل بہت اچھے سے جانتے اور سمجھتے ہوں گے تب جا کر عاطف میاں مجرم ثابت ہو گا اور فاضل کالم نگار کا خواب شرمندہ تعبیر ہو گا۔

یہاں یہ بھی وضاحت کر دوں کہ کسی شخص کا محض کسی عظیم ہستی یا چند عظیم ہستوں کے سامنے مبینہ طور جرم کرنا اسے ہرگز مجرم ثابت نہیں کرتا اگر ایسا ہوتا تو ضیاءالدین ہسپتال کراچی میں حال ہی میں جب پاکستان کے سب سے بڑے جج چیف جسٹس آف پاکستان نے شرجیل انعام میمن کے کمرے سے مبینہ طور پہ شراب برآمد کی تو ملزم کو موقعے پہ سزا دی دیتے نہ کہ معاملہ قانون کے حوالے کرتے۔

مجھے یقین ہے کہ میاں ثاقب نثار صاحب کو بھی اسی طرح شرجیل میمن کے مجرم ہونے کا یقین ہو گا جیسے عاطف میاں کے معاملے میں بہت سے لوگوں کو ہے لیکن انہوں نے قانون کا راستہ استعمال کیا، یہاں پر ایک اصول یہ بھی بتاتا چلوں کہ اخلاقیات قانون میں کسی بھی ملزم کو اس وقت تک معصوم کہا اور سمجھا جاتا ہے جب تک کہ وہ مجرم ثابت نہ ہو جائے۔

ملزم اور اس کے جرم کے ساتھ مبینہ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے، جبکہ اس کے بر عکس عاطف میاں کے معاملے میں آصف صاحب نے خود ہی مقدمہ کھڑا کیا خود ہی ایف آئی آر درج کرائی اور خود ہی تفتیش اور ٹرائل کے مراحل طے کرتے ہوئے ملزم کو تین سال کی سزا سنائی اور پھر اس پہ بھی نہ رکے خود ہی سزا معاف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ میاں سزا تو تمھاری معاف کر رہے ہیں بس اب مشاورتی کونسل کے قریب مت پھٹکنا۔

اس تحریر کو پڑھنے کے بعد جو بات میں سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ جب تعصب کی عینک پہن لی جائے تو اصول اور قوانین بے معنی ہوجاتے ہیں وہ تمام قانونی نکات جو فاضل کالم نگار نے سینکڑوں مرتبہ اپنے ملزم کلائنٹس کے حق میں استعمال کیے ہوں گے مذکورہ کالم میں اس کا ذکر تک نہیں کیا کیونکہ ملزم ایک احمدی تھا اور کیونکہ آصف محمود صاحب کے بقول احمدیوں کو قومی اسمبلی میں بطور اقلیت منتخب ہونے کا حق مل چکا ہے تو شاید وہ احمدیوں کو مزید کسی حق کا مستحق نہ سمجھتے ہوں۔

کالم کے ایک حصے میں آصف محمود صاحب نے وفاقی وزیر اطلاعات سے سوال کیا کہ کیا نئے پاکستان میں تعزیرات پاکستان کی دفعات ساقط ہو چکی ہیں، یہی سوال میرا بھی ہے، کیا آپ کے ہاں ضابطہ فوجداری اور قانون شہادت آرڈر کی دفعات ساقط ہو چکی ہیں؟

اسی بارے میں

عاطف میاں ۔۔۔پہلا اوور مکمل ہوا، کھیل جاری ہے

http://www.humsub.com.pk/168247/asif-mehmood-98/


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).