اوئے پومپیو، تبدیلی آگئی ہے


اب جبکہ پچیس جولائی کے الیکشن کے بعد تحریک انصاف نے بُہت ساری چھوٹی جماعتوں کے ساتھ بحالت مجبوری مل کے حکومت بنالی ہے۔ پاکستان میں لوگوں کی اکثریت سمجھتی ہے کہ عمران خان کا وزیراعظم بننا اور تحریک انصاف کی حکومت بننا بُہت بڑی تبدیلی تھی اور جو آچُکی ہے۔ اور جہاں تک ملکی مسائل جو اژدھے کی طرح مُنہ پھاڑے کھڑے ہیں۔ گویا خان صاحب کے چُٹکی بجاتے حل ہو جائیں گے لیکن دوسری طرف ن لیگ کی اکثریت سمجھتی ہے کہ موجودہ حکومتی ٹیم نا تجربہ کار ہے اور ہم تجربہ کار تھے۔ ماشا اللّہ تجربہ کاروں نے جتنے مُلک میں تجربے کیے کہ اب مزید تجربوں کی نہ مُلک نہ عوام متحمل ہو سکتے ہیں۔

موجودہ حکومت کے لئے ابھی تک اپوزیشن کی طرف سے ٹھنڈ پروگرام ہے۔ اور بدقسمتی سے حکومت نے کسی حد تک جان لیا ہے کہ چونکہ اپوزیشن کی طرف سے ابھی خطرہ نہیں تو کیوں نہ اپنی نا تجربہ کاری کے مُظاہرے شروع کر دیے جائیں۔ اور روزانہ کی بُنیاد پر حکومت جس طرح کی حرکات کررہی ہے اس سے حکومتی ترجعیات اور سنجیدگی کا پتہ چلتا ہے۔ سفارتی پروٹوکول کے مطابق اگر امریکہ کے سکریٹری سٹیٹ کا فون سُننا تھا تو وہ ہمارے وزیر خارجہ قریشی سائیں سُنتے۔ کیونکہ اس وقت اندھوں میں کانا راجہ کی طرح قریشی صاحب بہترین چوائس ہیں۔ اب چونکہ نیا پاکستان بن رہا ہے تو اس کے ضابطے ادب و آداب طور طریقے بھی نئے طریقے سے ڈھالے جائیں گے۔ اور خود وزیراعظم صاحب نے پومپیو سے دو دو ہاتھ کرنے کے لئے فون اٹھا لیا۔

لیکن دوسری طرف امریکن کی عادت ہے۔ دودھ دیں گے تو ساتھ مینگنیاں ضرور ڈالیں گے۔ اور اس فون کال میں بھی یہی خوبی کہیں یا حرکت دہرائی گئی۔ وزیراعظم کو مُنتخب ہونے پر مُبارکباد پیش کی گئی جمہوریت کے تسلسل پر زور دیا گیا۔ نیک خواہشات کا اظہار کیا گیا پاکستان کی دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں کردار کی تعریف کی گئی اور اتنے دودھ کے بعد بطور مینگنیاں کہا گیا کہ مغربی اور مشرقی سرحد پر دہشت گرد کی حمایت سے دوری اختیار کی جائے اور وہی ڈومور کی باتیں۔ سیدھے لفظوں میں وہی پُرانی ڈو مور والی بات پے آکر دوںوں ملکوں کی وزارت خارجہ نے اپنی اپنی فائدے والی باتوں کو لے کر لفظی فائرنگ شروع کردی اور آخر امریکی وزارت خارجہ نے پوری گفتگو ہی ریلیز کردی تب جا کے ہم مزید بے عزت ہونے سے بچ سکے۔ اور ایک مُبارکباد کے فون کال کو لے کر ہماری وزارت خارجہ نے نالائقی کی انتہا کردی اور کئی روز تک میڈیا کے کُچھ دوستوں نے اس گفتگو کو لے کر امریکن کو جھوٹا اور نئے پاکستان کی خارجی پالیسی اور حکومتی خوبیاں کے ڈونگرے برسائے اور عوام کو بلاوجہ جذبات کے بانس پے چڑھایا۔

امریکہ دُنیا کی واحد سپر طاقت ہےاور خطے میں بھارت کا اتحادی ہےاور دونوں کی کوشش ہے پاکستان کو سفارتی سطح پر بالکل تنہا کر دیا جائے اور بدقسمتی ہماری اپنی کُچھ حرکتوں اور امریکن کی مہربانیوں سے ہم تنہا ہوتے جارہے ہیں۔ سیکرٹری پومپیو نے مھربانی فرماتے ہوئے چند گھنٹے کے لئے ہمارے مُلک تشریف لائے اورپھر بھارت کو پیارے ہوگئے۔ سیکرٹری آف سٹیٹ کے پاکستان آمد کے موقع پرائربیس پر اگر اُن کو بڑا پروٹوکول نہ دے کر اگر آپ امریکہ کوئی پیغام دینا چاہئتے ہیں یا پھر اس پروٹوکول کے بعد سفاری سوٹوں کے بجائے سادہ کپڑوں میں سادہ پانی پلا کر یا اس طرح کی باتوں کو میڈیا پر چلوا کر خود کو اور عوام کو یہ بتانا چاہ رہے ہیں ہم اس وقت کے ٹو جتنا بلند اور امریکہ بے چارہ کسی کھائی میں پڑنے جارہا ہے تو احمقانہ اور لغو بات کےعلاوہ کُچھ نہیں۔ لیکن اصل معاملہ اور گھمبیر پریشانی تو وہ ہے جو بند کمروں میں آپ کی شکوہ جواب شکوہ والی باتیں ہوئیں۔

وہ ساری باتیں تو قُریشی صاحب نے کمبل کے نیچے ڈالنے کی پوری کوشش کی اور یہ کوئی نئی بات بھی بھی نہیں اگر تو نیا پاکستان بن رہا ہے مُلک میں جہبوریت ہے تو ان سارے شکوہ جواب شکوہ پے پارلیمنٹ کو عوام کو میڈیا کو سب کو اعتماد میں لیں اور بتائیں کہ ہمارے اور امریکہ کے درمیان تعلقات ہیں بھی کہ نہیں۔ انڈیا اور پاکستان کے مسائل کو لے کےامریکہ کتنا سنجیدہ ہے اور امریکہ اگر انڈیا کو یہاں کا نمبردار بنوانے پر بضد ہے تو ہم کہاں کھڑے ہوں گے۔ افغانستان والے معاملے پر ہمارا کردار کتنا ہوگا کہ جس سے ہماری سلامتی کا دارومدار ہے۔ چین اور اس سے ہماری دوستی اور سرمایہ کاری سے امریکہ کو کیا مسائل ہیں۔

لڑائی نہ کریں دھمکیاں نہ دیں بس لچھے دار گفتگو کے بجائے دو جمع دو چار کی طرح بات کریں۔ عوام سے پارلیمنٹ سے اپنی بہادری کے لفاظی قصے سُنانے کے بجائے اعتماد میں لے کر لگی لپٹی کے بجائے سیدھی بات بتا دیں۔ امریکہ ہم سے یہ چاہتا ہے۔ ہم امریکہ سے یہ یقین دہانی چاہتے ہیں۔ جب پارلیمنٹ ادارے عوام آپ کے ساتھ ہو۔ پھر آپ سینہ تان کے کہہ سکتے ہیں۔ اوئے پومپیو بلکہ اوئے ٹرمپوا تبدیلی آگئی ہے۔ ہیں جی ہاں جی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).