نواز شریف کے سیاسی فیصلوں میں بیگم کلثوم نواز کا کردار


کئی سال تک میدان صحافت کی خاک چھاننے کے باوجود میری سیاستدانوں سے راہ و رسم بنا کر خبریں نکلوانے اور سیاسی اتار چڑھاؤ پر نظر رکھنے میں دل چسپی پیدا نہ ہو سکی۔ کوشش بھی کی تو اس میں وہ پختگی نہ آ سکی کہ حقیقی منظر نامے کو دیکھ سکوں یا دکھا سکوں۔ صحافت یا ابلاغیات کو ’غیر جانب دارانہ انداز میں حقیقی اطلاعات کی فراہمی‘ کا ذریعہ سمجھنے والے ایک عام صحافی کی نظرشاید اتنی ہی وسعت رکھتی ہے، کیوں کہ ستاروں سے آگے جہاں دیکھنے کے لیے جن آلات کی ضرورت ہوتی ہے، وہ سیاسی خانوادوں سے تعلقات یا پھر حکومتوں کوگرانے اور بنانے کے ذمہ دار اداروں سے خفیہ ملاقاتوں کی بدولت ہی میسر آتے ہیں۔

میں تسلیم کرتا ہوں کہ سیاسی اتار چڑھاؤ سے قطعی لاعلم ہوں؛ اس طرح برسر اقتدار آنے یا لائے جانے کے لیے درکار اوصاف حمیدہ کو بھانپ لینے کی صلاحیت سے بھی عاری ہوں۔ پندرہ سالہ صحافتی زندگی میں حقائق کو جاننے، پرکھنے اور دکھانے کی جست جو ضرور کی۔ اپنی صحافتی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں مجھے نواز شریف، ان کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز اور ان کے بچوں کوقریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔

چاروں اطراف سے سمندر میں گھرے یورپ میں واقع ایک چھوٹے سے ملک ’مالٹا‘ کا سفر میری زندگی کی حسیں یاد ہے۔ دو ہزار پندرہ میں دولت مشترکہ سربراہان حکومت کا اجلاس ہو رہا تھا، جس میں ملکہ برطانیہ سمیت باون ملکوں کے انتظامی سربراہان شرکت کرنے والے تھے۔ اس وقت کے وزیر اعظم محمد نوازشریف کی آمد سے ایک روز قبل ہی ہم وہاں پہنچ چکے تھے۔ محدود سے وسائل کے ساتھ چھوٹا سا یہ جزیرہ انتظامی لحاظ سے اتنے بڑے ایونٹ کو سنبھالنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا؛ سو اس کے منتظمین بوکھلائے پھر رہے تھے۔

خاتون اول بیگم کلثوم نواز دورے میں نوازشریف کے ہم راہ تھیں۔ ایئر پورٹ ہی پر میاں صاحب کو میزبانوں کی انتظامی کم زوریوں کا اندازہ ہو چکا تھا، لیکن ان کے چہرے پر ہمیشہ کے جیسا ٹھہراؤ تھا اور ان کی اہلیہ کے چہرے پر وہی شفیق سی مسکراہٹ، جو ان کی شخصیت میں یوں مدغم ہو چکی تھی، کہ اسے جدا کر کے سوچنے پر خاکے میں جان نہ پڑتی تھی۔ مجھے ان کا یہ شفیقانہ سا تبسم بہت اچھا لگتا تھا۔ ’ماں‘ سے وابستہ ہر احساس ان کی شخصیت سے چھلکتا تھا۔ مجھے وہیں پتا چلا کہ مشرقی عورت کے حقیقی تصور میں گندھی بیگم کلثوم نواز اردو میں ماسٹرز کی ڈگری کی حامل ہیں۔ بعد کے دنوں میں حسین نواز اور حسن نواز سے مل کر اندازہ ہوا کہ انھوں نے مشرقی تہذیب اور اعلیٰ تعلیم کے اس حسین امتزاج کو ان کی تربیت کے لیے بہترین طریق پر استعمال کیا ہے۔

کویت کے ایک سفر کے دوران حسن نواز کے ساتھ رفاقت کا موقع ملا، چند مواقع پر حسین نواز کے ساتھ بھی ملاقات ہوئی۔ لندن میں رہنے کے باوجود ہماری معاشرتی اقدار اور روایات کی جو تربیت اس خاندان میں نظر آتی ہے، وہ خود کو روایات پرست کہلوانے والے کسی خاندان میں بھی نہیں دیکھی۔ بیگم کلثوم نواز نے یقیناً اس کے لیے بڑی محنت کی ہے اور صرف محنت ہی نہیں، اپنا آپ، اپنا مستقبل اور اپنا آرام تیاگ ہی کر اگلی نسل کو ایسی اخلاقی اقدار منتقل کی جا سکتی ہیں۔ سادگی، کم گوئی، ’باؤ جی‘ کے ساتھ چلتے پھرتے ایک قدم پیچھے رہنے اورنمایاں نہ ہونے کی دانستہ خواہش بیگم کلثوم نواز میں واضح نظر آتی تھی؛ یوں لگتا تھا کہ اپنے شوہر کے بغیر وہ خود کو ادھورا یا شاید کسی حد تک کم زور تصور کرتی ہوں گی، لیکن پرویز مشرف کےدورِ آمریت میں غیر جمہوری قوتوں کے سامنے تنِ تنہا ڈٹ جانے کی ان کی جرات و بہادری یاد آتی ہے، تو اپنے دانست کی کم مائیگی کا احساس ہونے لگتا ہے، جو اس سادہ سی شخصیت کو پہچاننے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتی۔

بیرون ملک دوروں میں بسا اوقات وزیر اعظم اور خاتون اول وفد کے دیگر افراد کے ہم راہ ایک ہی مقام پر لنچ یا ڈنر کرتے ہیں۔ سفر کے دوران بھی بہت قریب ہوتے ہیں، جتنی بار بھی ایسے مواقع ملے کبھی ان کی آواز ہم تک پہنچی نہ شفقت بھرے تبسم سے بڑھ کر انھیں خوش ہوتے دیکھا۔ اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں مجھے دو صدور آصف علی زرداری، اور ممنون حسین، جب کہ دو وزرا اعظم راجا پرویز اشرف اور محمد نواز شریف کی تقریب حلف برداری میں شرکت کا موقع ملا۔ ایسے موقع پر خوشی چھپائے نہیں چھپتی؛ جذبات چہروں سے عیاں ہوتے ہیں۔

بیگم کلثوم نواز وہ واحد شخصیت ہیں، جنھیں میں نے تیسری بار خاتون اول بننے پر بھی اسی ٹھہراو، متانت اور سادگی کی مثال دیکھا۔ محمد نوازشریف کی وزارت عظمیٰ کے چار سالہ دور کی بیش تر تقاریب میں موجود بیگم کلثوم نواز بھی کئی تقاریب میں ان کے ہم راہ ہوتیں۔ مجھے کبھی بھی سیاست میں ان کی دل چسپی کا شائبہ تک نہ ہوا، لیکن کئی بار ایسا ضرور محسوس ہوا کہ کسی انتہائی سنجیدہ سیاسی امر پر محمد نواز شریف ان کی جانب دیکھتے اور آنکھوں ہی آنکھوں میں جواب ملنے کے بعد مطمئن سے ہو جاتے۔ وہ ان کے مشورے پر عمل کرتے تھے یا نہیں یہ ہم کبھی نہ جان سکے؛ ان کے قریبی لوگوں سے البتہ یہ سننے میں ضرور آیا کہ وہ ہر امر میں بیگم کلثوم نواز کی فہم و فراست پر بہت اعتماد کرتے ہیں۔

مریم نواز باپ کی حد درجہ لاڈلی ہیں اور زیادہ سے زیادہ وقت ان کے قریب رہنے کی خواہش مند ہوا کرتی تھیں لیکن محمد نواز شریف نے بطور وزیر اعظم یا پارٹی صدر کسی بھی فیصلے کے لیے ان کی جانب تائیدی نظر سے نہ دیکھا۔ گزشتہ سال جب بیگم کلثوم نواز کے مرض کی تشخیص ہوئی اور وہ علاج کی غرض سے لندن میں مقیم تھیں، تو پنجاب ہاوس میں ہونے والے ایک اجلاس کے دوران پہلی بار محمد نواز شریف نے تائید کے لیے مریم نواز کی جانب دیکھا، تب وہ والد کے ساتھ والی نشست پر نہیں بیٹھتی تھیں، بلکہ پیچھے کھڑی ہوتی تھیں۔

مجھے ان کے چہرے کے تاثرات اور جذبات آج بھی یاد ہیں۔ تب انھوں نے شاید پہلی بار خود کو بیگم کلثوم نوازجیسا محسوس کیا تھا۔ پھولے نہیں سما رہی تھیں لیکن تب تک انھیں یہ علم نہیں تھا، کہ بیگم کلثوم نواز بننے کے لیے انھیں کتنی پر خار راہ پر چلنا پڑے گا۔ محمد نواز شریف نے تو مریم نواز کو بیگم کلثوم نواز جیسا مشیر مان لیا، اب دیکھیں مریم نواز خود کو بیگم کلثوم نواز جیسا مضبوط سہارا اورصائب الرائے مشیر ثابت کرنے کے لیے کتنے حوصلے اور تدبر کا مظاہرہ کرتی ہیں اور قسمت کب ان کا ساتھ دیتی ہے؟

صاحب مضمون: روزنامہ جنگ سے 2003 میں کریئر کا آغاز کیا اور 2008 تک صحافت کے طالب علم کی حیثیت سے اس ادارے سے بہت کچھ سیکھا۔ 2008 میں سما ٹی وی کے آغاز کے ساتھ ادارے کو جوائن کیا، جہاں براڈ کاسٹنگ کی الف بے سیکھنے کےمواقع ملے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).