نواز شریف کی رہائی: ملک نے آگے بڑھنا ہے تو احتسابی تماشا ختم کرنا ہو گا


قومی احتساب بیورو نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے مسلم لیگ کے قائد نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم اور داماد کیپٹن صفدر کو ریلیف دینے کے حکم کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نیب نے یہ فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا حکم سامنے آنے کے فوری بعد منعقد ہونے والے ایک اجلاس میں کیا ہے جس کی صدارت نیب کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال کررہے تھے۔ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ سپریم کورٹ نیب کی اس درخواست پر کس رد عمل کا مظاہرہ کرتی ہے لیکن گزشتہ ہفتہ کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ میں نیب عدالت کی سزاؤں کومعطل کرنے کی اپیل کے آخری دور میں نیب کے پراسیکیوٹر محمد اکرم قریشی نے سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار کو چیلنج کرنے کی ایک درخواست دائر کی تھی۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے ایک بنچ نے اس درخواست کو فضول اور غیر سنجیدہ قرار دے کر مسترد کردیا تھا اور اس ’فضول ‘ حرکت پر نیب کو بیس ہزار روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا تھا۔

نیب کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال جو خود بھی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رہ چکے ہیں ، کو پاناما کیس کے علاوہ دیگر ہائی پروفائل معاملات کو ذاتی عزت کا مسئلہ بنانے کی بجائے قانونی میرٹ اور انتظامی طریقہ کار کے مطابق کارروائی کا اہتمام کرنا چاہئے۔ نیب کے چئیرمین نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کی تصدیق شدہ نقل دیکھنے سے بھی پہلے اپیل دائر کرنے کا اعلان کرکے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کے میرٹ پر اعتراض سے زیادہ نیب کے طریقہ کار اور میڈیا میں جگہ پانے والے معاملات میں اپنی غیر معمولی دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔

نیب کے چئیر مین کا یہ رویہ اس ادارے کی کارکردگی کو بھی متاثر کرتا ہے اور اس کی غیر جانبداری پر بھی سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے۔ نیب کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑنا چاہئے کہ معاملہ کسی سابق وزیر اعظم سے متعلق ہے یا بدعنوانی کے مرتکب کسی ایسے شہری کےبارے میں ہے جسے میڈیا کوئی اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ نیب کا کام تو یہ دیکھنا ہے کہ کہاں بدعنوانی ہوئی ہے اور متعلقہ قوانین کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ نیب ایک بھاری بھر کم آئینی ادارہ ہے۔ اس کی انتظامی مشینری وسیع اور مختلف درجہ بندی پر مشتمل ہے۔ اس کے سامنے آنے والے معاملات میں ان کی نوعیت اور بدعنوانی کے حجم کے مطابق متعلقہ افسروں اور شعبوں کو فیصلے کرنے ہوتے ہیں ۔

نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف اگر نیب عدالت میں فیصلہ آچکا ہے تو نیب کا شعبہ قانون ہی اس معاملہ میں حکمت عملی بنانے کا ذمہ دار ہونا چاہئے۔ اس قسم کے روز مرہ فیصلوں میں نیب کے سربراہ کی دلچسپی اور پھرتی ان کی مستعدی اور فرض شناسی سے زیادہ ان کے سیاسی ایجنڈے کی نشاندہی کرتی ہے۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے گزشتہ ایک دہائی کے دوران مختلف کلیدی عہدوں پر کام کرتے ہوئے کوئی قابل ذکر کارنامہ سرانجام نہیں دیا۔ ایبٹ آباد کمیشن اور لاپتہ افراد سے متعلق بنائے گئے کمیشن کے سربراہ کے طور پر ان کی کارکردگی انصاف کی فراہمی سے زیادہ اسٹیسٹس کو برقرار رکھنے کی نمائیندگی کرتی ہے۔ شاید اسی لئے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے باالترتیب برسراقتدار اور اپوزیشن پارٹی کے طور پر جسٹس جاوید اقبال کے نام پر اتفاق کیا تھا۔ لیکن نیب جیسے اہم ادارے کا سربراہ بننے کے بعد وہ اسے وقار دلوانے اور اس کی آئینی اور غیر جانبدار حیثیت کو بحال کروانے کی بجائے، سیاسی معاملات میں نیب کے مشتبہ کردار کے حوالے سے اس کی شہرت پر مزید سوالیہ نشانات چھوڑ رہے ہیں۔

جسٹس (ر) جاوید اقبال قومی احتساب بیورو جیسے اہم اور بڑے ادارے کا سربراہ بننے کے باوجود لاپتہ افراد کمیشن کے سربراہ کے طور پر سبکدوش نہیں ہوئے۔ اسی سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ کسی بھی کام کو پروفیشنل انداز میں سنجیدگی سے کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے بلکہ ایک خاص ایجنڈا کے لئے نیب کو استعمال کرنے کا موجب بن رہے ہیں۔ اس سال منعقد ہونے والے عام انتخابات سے پہلے ملک میں سیاسی لیڈروں کی بدعنوانی کے خلاف جو فضا تیار کی گئی تھی، اس میں نیب بھی حصہ دار بننے اور میڈیا کی توجہ کا مرکز بننے کی بھرپور کوشش کرتی رہی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے کے بعد جسٹس (ر) جاوید اقبال کا ذاتی طور وزیر اعظم ہاؤس جاکر عمران خان سے ملنا اور حکومت سے بدعنوانی کے خلاف کام میں مکمل تعاون کی یقین دہانی حاصل کرنا ، دراصل نیب کو ایک خاص پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے کا حصہ قرار دینے کے مترادف اقدام تھا۔ ایک آئینی ادارے کے سربراہ کو وزیر اعظم ہاؤس جاتے ہوئے، اپنے عہدہ کی ذمہ داری اور اس سے وابستہ کی جانے والی توقعات کا لحاظ کرنا چاہئے تھا۔ لیکن نیب کو ایک سیاسی پارٹی کے ایجنڈے کی تکمیل کا ذریعہ قرار دے کر انہوں نے ملک میں بدعنوانی کے خلاف کارروائی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔

نواز شریف اور ان کے اہل خاندان کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیب عدالت کے فیصلہ کی کمزوریوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ملزمان کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس فیصلہ کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ نواز شریف ، مریم اور کیپٹن صفدر کے خلاف نیب عدالت کا حکم تبدیل کردیا گیا ہے ۔ البتہ زیر سماعت اپیلوں کا فیصلہ آنے تک انہیں وقتی ریلیف ضرور دیا گیا ہے۔ اس جزوی اور وقتی ریلیف پر نیب اور اس کے چئیرمین کی پریشانی اور سپریم کورٹ تک معاملہ لے جانے کا فیصلہ بے مقصد اور پاناما معاملہ کے حوالے سے سیاسی مباحث میں ایک خاص فریق کے خلاف فضا کو سازگار بنانے کی کوشش کرنے کے سوا کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ خاص طور سے اگر یہ بات بھی ذہن میں رکھی جائے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا حکم سنتے ہی نیب کے سربراہ نے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد کرکے اپیل کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان سے پوچھا جانا چاہئے کہ نواز شریف کیا ان کے ذاتی دشمن ہیں جن کے خلاف سزا معطل ہونے پر نیب چئیر مین کو یوں سرگرم ہونا پڑا۔

نیب کے اس فیصلہ کو گزشتہ ہفتہ کے دوران اس معاملہ میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار کے بارے میں اپیل کو مسترد کرتے ہوئے چیف جسٹس کے ریمارکس کے تناظر میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ نیب پراسیکیوٹر کی طرف سے غیر ضروری درخواست دائر کرنے پر نیب کو عائد کیا جانے والا جرمانہ بھی دراصل اس کے سربراہ کی سرزنش تھی جو ذاتی طور پر اس معاملہ میں اس قدر دلچسپی لے رہے ہیں کہ قانون دان ہونے کے باوجود عدالتوں میں اپنے وکیلوں کی ناقص کارکردگی کا نوٹس لینے اور اسے بہتر بنانے کا اقدام کرنے میں ناکام ہیں۔ اس حوالہ سے یہ بات بھی اہم ہے کہ 6 جولائی کو نیب عدالت کے فیصلہ میں نواز شریف کو بدعنوانی کے الزامات سے بری کیا گیا ہے لیکن نیب کے وکیلوں نے اس کوتاہی پر نیب عدالت کے فیصلہ کے خلاف اپیل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ نیب کا واحد مقصد کیا صرف نواز شریف کو اڈیالہ جیل میں قید رکھوانا ہے۔ یہ مقصد قانونی یا اخلاقی سے زیادہ سیاسی ہو سکتا ہے۔ نیب کے چئیرمین کو خود کو اور اپنے ادارے کو اس معاملہ میں ملوث کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کے بعد نواز شریف ، ان کی بیٹی اور داماد قانونی کارروائی پوری ہونے پر وقتی طور سے رہا ہوجائیں گے۔ ملک میں اگرچہ اس بارے میں شدید اختلاف موجود ہے کہ انہیں ملنے والی سزائیں بدعنوانی کے خلاف مہم ہیں یا یہ اسٹبلشمنٹ کی طرف سے سیاسی منظر نامہ کو زیر نگیں رکھنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ نواز شریف کی گرفتاری سے مسلم لیگ (ن) کو انتخابات میں ناکامی سے دوچار کروانے کا مقصد پورا کیا گیا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران اگر نواز شریف اور مریم نواز آزاد ہوتے تو مسلم لیگ کم از کم پنجاب میں اپنی برتری برقرار رکھنے کی پوزیشن میں تھی۔ اسی طرح زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا بیگم کلثوم نواز کی علالت کے باوجود ملک کے تین بار وزیر اعظم رہنے والے شخص کو آخری وقت میں اپنی اہلیہ کے ہمراہ رہنے کا موقع نہ دے کر بھی ملک کی عدالتوں اور انتظام نے غیرانسانی مزاج کی افسوسناک مثال قائم کی ہے۔ ملک میں احتساب کا مقصد بدعنوانی کا خاتمہ ہونا چاہئے لیکن ہمارا احتساب نظام بے دریغ سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس رویہ کوتبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

عمران خان نے احتساب کا نعرہ لگاتے ہوئے گزشتہ پانچ سال سیاست کی ہے ۔ اب وہ برسر اقتدار آچکے ہیں لیکن اب بھی تحریک انصاف سیاست دانوں کی بدعنوانی کو ہی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لئے استعمال کررہی ہے۔ عمران خان اور ان کی پارٹی کے زعما کو سمجھنا ہو گا کہ ملک میں احتساب کا شفاف نظام استوارکئے بغیر اور صرف سیاست دانوں کو معتوب کرنے کا طرز عمل ترک کئے بنا حقیقی جمہوری نظام کو استوار کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ آج جو عناصر نواز شریف یا آصف زرداری کو دباؤ میں لاکر سیاسی اہداف حاصل کرنا چاہتے ہیں ، وہ ضرورت پڑنے پر یہی ہتھکنڈے عمران خان اور ان کے ہمراہیوں کے خلاف بھی استعمال کرتے دیر نہیں لگائیں گے۔ اس لئے خوش آئند ہو گا کہ تحریک انصاف کی حکومت احتساب کے ایجنڈے کو نافذ کرنے کے لئے نظام کو شفاف اور احتساب اداروں کو خود مختار بنانے کے لئے کام کرے۔ بدعنوانی کو نعرے بازی، سیاسی فائدے اور مخالف سیاست دانوں کے خلاف تعصب عام کرنے کے لئے استعمال کرنے کی روایت کا خاتمہ کیا جائے۔

یہ کہنا مشکل ہے کہ نواز شریف اور مریم کی موجودہ رہائی کتنی طویل ہوگی۔ ان کے خلاف ایون فیلڈ کیس کے علاوہ العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنس پر بھی نیب عدالتوں میں سماعت ہورہی ہے۔ حکومت کے نمائندوں کے علاوہ دیگر حلقوں کی جانب سے یہ کہا جارہا ہے کہ نواز شریف کو چند برس ضرور قید رکھا جائے گا۔ اس قسم کے بیانات بھی قانون کی بالادستی کی بجائے سیاسی خواہشات کا اظہار لگتے ہیں جن کی تکمیل کے لئے قانون اور عدالتی نظام کو استعمال کیا جاتا ہے۔ ملک کو آگے بڑھنا ہے تو یہ تماشا ختم کرنے کی ضرورت ہوگی۔

نواز شریف نے گزشتہ ہفتہ ہی اپنی اہلیہ کو سپرد خاک کیا ہے۔ سیاسی ہزیمت کے بعد ذاتی توہین اور صدمے پر وہ ضرور غصے میں ہوں گے۔ انہیں احتجاج کی سیاست پر اکسانے والوں کی بھی کمی نہیں ہوگی۔ جولائی میں منعقد ہونے والے انتخابات میں طاقتوراداروں کی مداخلت کے خلاف احتجاج کرنا بھی ان کا استحقاق ہے۔ لیکن ’ووٹ کو عزت دو ‘ کا شعور عام کرتے ہوئے انہیں یہ بھی پیش نظر رکھنا چاہئے کہ وہ ملک میں کوئی ایسی سراسمیگی اور انتشار پیدا کرنے کا سبب نہ بنیں کہ جمہوریت دشمنوں کی بجائے جمہوریت ہی نشانے پر آجائے۔ نواز شریف کی سیاسی حکمت عملی اس ملک میں جمہوریت کے مستقبل کی ضمانت بھی بن سکتی ہے اور اس کے لئے مشکلات کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ نواز شریف کو باور کرنا ہوگا کہ ان کا ٹارگٹ عمران خان یا تحریک انصاف کی حکومت نہ ہو بلکہ وہ ملک میں جمہوریت کو کنٹرول کرنے کے رویہ کے خلاف برسر پیکار ہوں ۔ اگر تحریک انصاف اس کام میں ان کے ساتھ تعاون پر آمادہ ہو سکے اور تمام سیاسی جماعتوں میں چند رہنما اصولوں کے لئے کام کرنے پر اتفاق رائے پیدا ہو سکے تب ہی عوام کے حق حکمرانی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali