عورت اور محبت کی شراکت


دہلی کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر کے بہت ہی قریبی رشتہ داروں کے خاندان کی ایک خاتون دہلی میں تھیں، جو اردو زبان کے لحاظ سے ایک اتھارٹی، حسن و خوبصورتی کے اعتبار سے ہزاروں میں ایک، شرافت کا مجسمہ، اور اپنی سہیلیوں اور رشتہ داروں میں انتہائی عزت اور محبت کی نگاہوں سے دیکھی جاتیں، اور شہزادی کے نام سے مخاطب ہو تیں۔ اس خاتون کے ننھیال بنارس میں تھے، اور اس کی اپنی شادی بھی بنارس میں ہی ایک مرزا صاحب سے ہوئی تھی، جو یو پی میں سرکاری ملازم تھے۔ اس خاتون کی خاندانی آمدنی ہزار ہا روپیہ ماہوار تھی، اور اس کے شوہر بھی اچھے کھاتے پیتے گھرانے سے تھے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا، کہ شوہر کو عیاشی کے لئے کافی روپیہ مل جاتا۔

چنانچہ آپ نے اپنی زندگی میں بہت فراخدلی کے ساتھ طوائفوں پر روپیہ برباد کیا۔ جس کا نتیجہ یہ تھا کہ، بیوی اپنی فطری بے زبانی کے باعث شوہر سے تو کچھ نہ کہہ سکتی، مگر شوہر کی حالت کو دیکھ کر ہر وقت کرب و اذیت محسوس کرتی۔ راقم الحروف اور اس خاتون کے درمیان کئی برس تک خط و کتابت کا سلسلہ چلتا رہا۔ یہ ہر ہفتہ ”ریاست“ کی زبان کے متعلق غلطیوں پر نشان لگا کر بھیج دیتیں، تاکہ مجھے اپنی غلطیوں کا احساس ہو سکے، اور میری زبان درست ہو۔ خط و کتابت میں یہ معصوم اور بیگناہ اپنے حالات بھی لکھا کرتیں، اور ضرورت ہوتی، تو مشورہ بھی لے لیتیں۔

کئی برس کی بات ہے، اس خاتون کے ماموں معہ اپنی کنواری بیٹی کے اپنی اس بھانجی سے ملنے کے لئے دہلی آئے، اور یہ بات بیٹی کئی ماہ یہاں مقیم رہے۔ اس خاتون کے شوہر یعنی مرزا صاحب بھی ان دنوں طویل رخصت لے کر دہلی تشریف لائے۔ خاتون کے ماموں اور ماموں زاد بہن کو دہلی آئے ہوئے کئی ماہ ہوئے تھے، کہ اس خاتون کا میرے پاس خط پہنچا۔ جس میں اس نے اپنی انتہائی ذہنی کوفت کا اظہار کرتے ہوئے بتایا، کہ اس کے سوہر نے طوائفوں پر بے دریغ روپیہ تباہ کرنے کے بعد اب گھر میں ہی جنسی نقب زنی شروع کر دی ہے۔ یعنی اس نے اپنی بیوی کی ماموں زاد بہن پر ڈورے ڈالنے شروع کر دیے ہیں۔ محبت کی راہ میں ڈیڑھ سو روپیہ مالیت کا ایک نیکلس ا س لڑکی کی نذر کیا ہے، اور لڑکی کی محبت کا رخ بھی اپنی بہن سے بدل کر بہنوئی یعنی مرزا صاحب کی طرف بدلتا جا رہا ہے، اور یہ پریشان ہے، کہ کیا کرے؟

اس خط کو پڑھ کر میں سوچتا رہا، کہ اس خاتون کی بہن کے ذہن کو بدلنے کے لئے کیا کرنا چایئے۔ کئی روز سوچنے کے بعد میں نے فیصلہ کیا، کہ جب تک عورت کی فطرت کے مطابق یہ قدم نہ اٹھایا جائے، لڑکی کو نصیحت کرنے سے کچھ حاصل نہ ہو گا۔ کیونکہ ایسی صورت میں نصیحت کام نہیں دیا کرتی۔ میں نے ایک سکیم تیار کرنے کے بعد شہزادی صاحبہ (اس خاتون کو خاندانی اعتبار اور شاہی خاندان میں سے ہونے کے باعث عزیز و اقارب میں شہزادی ہی کہا جاتا تھا) کو لکھا، کہ میں کل آپ کو ایک خط بھیجوں گا۔ اس خط کو ظاہراً طور پر تو اپنی بہن سے چھپانے کی کوشش کریں، تاکہ اس کے دل میں اس خط کو پڑھنے کا زیادہ اشتیاق پیدا ہو۔ مقصد یہ ہے، کہ یہ لڑکی اس خط کو پڑھ لے۔ چنانچہ اس خط میں تفصیل کے ساتھ طریقہ بتایا، کہ جو خط میں کل لکھوں گا، اسے کس طریقہ سے استعمال کیا جائے، یعنی ایکٹنگ کی صورت ہو۔

اگلے روز میں نے شہزادی صاحبہ کو خط لکھا، جس کے الفاظ مجھے اب تک یاد ہیں، جو یہ تھے :۔
” میں کل اپنی کار میں سیر کے لئے قطب مینار گیا تھا۔ وہاں کے ریسٹورنٹ کے ساتھ والے کمرہ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا، کہ آپ کے شوہر مرزا صاحب ایک طوائف کے ساتھ مقیم ہیں، اور شراب پینے میں مصروف ہیں۔ مجھے دیکھ کر کچھ شرمندہ ہوئے۔ میں وہاں سے بدرپور والی سڑک پر روکھلا چلا گیا۔ مرزا صاحب کی اس حالت کو دیکھ کر اور بھی افسوس ہوا، کیونکہ آپ نے چند روز ہوئے لکھا تھا، کہ یہ طوائفوں کے بعد آپ کی بہن پر بھی ڈورے ڈال رہے ہیں۔ یعنی انہوں نے اپنے گھر میں ہی نقب زنی شروع کر دی ہے۔ میری دعا ہے، خدا مرزا صاحب کو عقل عطا کرے، اور وہ تمام خاندان کی تباہی کا باعث نہ ہوں“۔

یہ خط میں نے لفافہ میں بند کر کے اسی ذریعہ سے ہی دستی بھیج دیا، جس ذریعہ سے خطوط آیا کرتے تھے۔ یہ خط شہزادی صاحبہ نے پڑھا۔ شہزادی صاحبہ کی بہن بھی پاس ہی بیٹھی تھیں، کیونکہ میری خط و کتابت کا راز اس لڑکی سے چھپا ہوا نہیں تھا، اور یہ میرے تمام خطوط پڑھ لیا کرتیں۔ میرا یہ خط جب شہزادی صاحبہ نے پڑھا، تو میری ہدایت کے مطابق انہوں نے اپنی پیشانی پر بل ڈال لئے، اور خط کو پھر لفافہ میں ڈال کر اپنے تکیہ کے نیچے رکھ دیا۔ لڑکی نے دریافت کیا، کہ خط میں کیا ہے، جس کے باعث پیشانی پر بل ڈال لئے گئے، تو شہزادی نے غصہ کی حالت میں صرف یہی کہا ”کچھ نہیں“ یہ کہنے کے بعد شہزادی صاحبہ پانی کا لوٹا لے کر پاخانہ میں چلی گئیں، تاکہ ان کی غیر حاضری میں لڑکی اس خط کو پڑھ لے، اور وہ یہ خیال بھی نہ کر سکے، کہ کوئی ڈرامہ کھیلا جا رہا ہے۔

شہزادی صاحبہ بیس پچّیس منٹ تک پاخانہ میں رہیں۔ وقت کو غنیمت سمجھتے ہوئے لڑکی نے تکیہ کے نیچے سے خط نکالا۔ غور سے پڑھا، اور پھر خط کو لفافہ میں ڈال کر اپنی جگہ تگیہ کے نیچے رکھ دیا، گویا کہ اس نے خط کو پڑھا نہیں۔ شہزادی صاحبہ جب پاخانہ سے واپس ائیں، تو آپ نے دیکھا، کہ لڑکی کا چہرہ غصہ سے لال ہو رہا تھا، اور پیشانی پر بل تھے۔ شہزادی صاحبہ نے دیکھا، کہ خط تو پنی جگہ پڑا ہے، مگر اس کا رخ بدلا ہوا ہے۔ یعنی جب رکھا تھا، تو پتہ والی طرف اوپر تھی، اور لفافے کے جوڑ نیچے۔ اور اب جوڑ والی طرف اوپر تھی، اور پتہ والی طرف نیچے۔ جس کا مطلب یہ تھا، کہ خط پڑھ لیا گیا ہے، اور اس خط کے پڑھنے کا ہی نتیجہ یہ ہے، کہ بہن کا چہرہ سرخ ہے، اور پیشانی پر بل ہیں۔

اس واقعہ کے ایک گھنٹہ کے بعد شہزادی صاحبہ کے شوہر یعنی مرزا صاحب بازار سے واپس آئے، اور باہر مردانہ میں اپنی بیوی کے ماموں کے پاس بیٹھ گئے۔ لڑکی منتظر تھی، اور اس ایک گھنٹہ میں ہی کئی بار جھانک کر مردانہ میں دیکھ چکی تھی، کہ دولہا بھائی ( یعنی مرزا صاحب ) بھی واپس آئے ہیں، یا کہ نہیں۔ لڑکی نے جب دیکھا، کہ مرزا صاحب آگئے ہیں، اور اپنی بیوی کے ماموں کے ساتھ بیٹھے باتیں کر رہے ہیں، تو لڑکی نے گتے کے دبے میں سے اونچی ایڑھی والے اس سینڈل کو نکلا، جو مرزا صاحب نے اپنی اس سالی کو تین روز پہلے تحفہ دیا تھا۔

اس سینڈل کا ایک پاؤں لے کر آپ مردانہ میں آگئیں اور پور ے زور کے ساتھ مرزا صاحب کے منہ پر سینڈل مارتے ہوئے کہا :۔
”حرامزادے پہلے تو میری بہن کو تباہ کیا، اور اس کا لاکھوں روپیہ طوائفوں کو کھلا کر عیاشی کرتے رہے، اور اب مجھ پر ڈورے ڈال کر مجھ کو تباہ کرنا چاہتے ہو۔ میں اب تمہارے جال میں نہیں پھنس سکتی“۔

مرزا صاحب اور مرزا صاحب کی بیوی دونوں حیران، کہ یہ کیا ہوا۔ دونوں میں سے کسی کی سمجھ میں کچھ نہ آتا تھا۔ لڑکی کے والد جب اندر آئے، تو لڑکی اپنا سامان باندھ رہی تھی۔ اپنے والد کو دیکھ کر کہا، کہ ہم رات کی ٹرین سے واپس بنارس جا رہے ہیں، میں اس دولہا بھائی کی شکل بھی نہیں دیکھ سکتی، جو ایک طرف تو مجھ پر ڈورے ڈال رہا ہے، اور دوسری طرف بازاری عورتوں کے ساتھ شرابیں پیتا، اور عیاشیاں کرتا ہے۔

لڑکی کے والد نے بہت چاہا، کہ باپ اور بیٹی چند روز اور دہلی میں رہیں، مگر لڑکی نے صاف کہہ دیا، کہ اگر ابا یہاں رہتے ہیں، تو یہ رہیں، یہ خود ہرگز یہاں نہ رہے گی۔ اور شام کو بنارس جاتے ہوئے لڑکی اپنی بہن، یعنی اپنی شہزادی صاحبہ سے گلے مل کر زار زار روتی رہی، اور کہا، کہ اس شوہر سے تمہارا طلاق لینا ہی اچھا ہے۔

شہزادی صاحبہ تبادلہ آبادی کے زمانہ میں جب دہلی میں قتل عام جاری تھا، تو یہ اس خیال سے لاہور چلی گئیں، کہ امن ہونے کے بعد اپنے گھر میں واپس آجائیں گی۔ لاہور جانے کے بعد ان کی انتڑیوں میں تپ دق کی جراثیم پیدا ہو گئے، اور لاہور میں ہی ان کا انتقال ہوا۔

میں 1948 فروری کے مہینہ میں لاہور گیا، تو ایک روز میں نے اس خاتون کی قبر پر حاضری دی تاکہ اگر روحوں کا کوئی وجود ہے، اور اس نیک، مخلص اور بلند خاتون کی روح بھی اگر دیکھ رہی ہے، تو وہ محسوس کرے، کہ بطور ایک مداح اور معترف کے میں اس خاتون کو بھول نہیں سکا۔ اور جب کبھی دل اس دنیا سے اکتاتا ہے، تو اس خاتون کی تصاویر اور اس کے خطوط دیکھ لیا کرتا ہوں۔

دیوان سنگھ مفتوں

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

دیوان سنگھ مفتوں

سردار دیوان سنگھ مفتوں، ایڈیٹر ہفتہ وار ”ریاست“ دہلی۔ کسی زمانے میں راجاؤں، مہاراجوں اور نوابوں کا دشمن، ان کے راز فاش کرنے والا مداری، صحافت میں ایک نئے خام مگر بہت زور دار انداز تحریر کا مالک، دوستوں کا دوست بلکہ خادم اور دشمنوں کا ظالم ترین دشمن۔ سعادت حسن منٹو کے الفاظ۔

dewan-singh-maftoon has 26 posts and counting.See all posts by dewan-singh-maftoon