اقبال کو خیرباد کہنا ادبی بالیدگی کے لئے ضروری ہے


اب میں اقبال کو نہیں پڑھتا اور اپنے ہم عمر دوستوں کو یہ مشورہ بھی دیتا ہوں کہ وہ اقبال کو نہ پڑھیں ۔ اس مشورے اور عمل میں بغض یا عداوت نہیں ، بس اقبالیت سے اوپر اٹھنے کی اور اٹھتے چلے جانے کی کوشش ہے۔ دنیا کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکا ، لیکن میرا اپنا تجربہ کہتا ہے کہ اقبال ایک شاعر نہیں، بلکہ ایک ایسا جذبہ شادمانی ہے جو پڑھنے والے کی رگوں میں اپنے گھروندے بنا لیتا ہے۔ اسے ہم خون کی ان گانٹھوں کی مانند بھی سمجھ سکتے ہیں ۔ جو ایک خاص قسم کے شریانی مرض سے پیدا ہوتی ہیں ۔ جس طرح یہ خونی گانٹھیں انسانی صحت کے لیے مضر ہیں ، اسی طرح اقبالیت ادبی صحت کے لیے۔غالباً میری اس بات سے زیادہ تر لوگ اختلاف کریں مگر مجھے لگتا ہے کہ اقبال کو پڑھنے کی صحیح عمر سترہ یا اٹھارہ برس ہے۔جس عمر میں ہم باتوں سے جلد متاثر ہوتے ہیں اور ان کا اثر بھی جلد ہی زائل ہو جاتا ہے۔ اس عمر میں آپ اگر اقبال کو پڑھتے ہیں تو ان کی شاعر ی میں موجود انسانی جذبات کی مذہبی اور شخصی لہروں کو پوری طرح محسوس کر سکتے ہیں ۔ جس عمر میں خون بہت زیادہ گرم ہوتا ہے اور بات بات پر کھول اٹھتا ہے۔ اقبال اس عمر میں ہی اصل مزہ دیتا ہے۔

میں اکثر جب بوڑھے لوگوں اور ادیبوں کو اقبال کی ولولہ انگیز نظموں سے چمٹا ہوا دیکھتا ہوں تو مجھے افسوس ہوتا ہے کہ یہ آخر اقبال سے کیا حاصل کر سکتے ہیں ۔ اقبال جس کے یہاں لفظوں کی سحر انگیزی کا رجز وقت کی ایک معینہ مدد کے بعد بہت زیادہ کھوکھلا اور صدائے بازگشت سا معلوم ہوتا ہے، اس بند گلیارے میں یہ حضرات کیوں اپنے سر پھوڑ رہے ہیں ۔یہ بھی کوئی انصاف کا معاملہ نہیں کہ ہم اقبال کو ادھیڑ عمر میں حوزے سارا موگو کے ناولوں کی طرح ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں ۔ اقبال تو تیز رفتاری کا قائل ہے اور سست گھوڑے کی سواری اس کی شاعری کا شعار نہیں، پھر اس کو کیوں اٹکے اٹکے اور دھیمے لہجے میں پڑھا جائے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کو یہ انصاف کی بات نہ لگے، لیکن ذرا غور کیجیے کہ جس شخص کے شاعرانہ لہجے سے غالب جیسا مخبرمکارم رجال معلوم ہونے لگے۔ ہمالیہ آدم نما بن جائے، اولیا ماورئے فہم و ادراک ہو جائیں اور ناصحانہ مغربی گوڈوڈ قاضی الحاجات معلوم ہونے لگے۔اس کو لڑکھڑاتی زبان اور پوپلے منہ سے پڑھا بھی تو کیا پڑھا ۔ یہ تو وہ شاعری ہے جو ایک دروازے کی مانند ہے ، ایسا دروازہ جو اجمیر میں جنتی کہلاتا ہے، اس سے تو جلد سے جلد معصوم عمروں میں گزر جانا ہی بہتر ہے۔ بھلا قہار اور جبار کا لفظ پچاس برس کی عمر میں لہوکو کتنی تحریک دے سکتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اقبال کی لفظیات ٹیڑھی ہیں ، جس کا ادراک ذرا دیر میں ہوتا ہے۔ مثلاً اگر اقبال کے کبوتر اور شاہین کی علامتوں کو ہی سمجھنا ہو تو اس کے لیے پڑھنے والے کو مخصوص اسلامی تاریخی واقعات کا علم ہونا چاہیے ، اس کے علاوہ انہوں نے جتنی جنگوں ، دریاوں ، ملکوں ، فرشتوں ، بزرگوں ، پیغمبروں اور آیتوں کا ذکر کیا ہے اس کے لیے تو کم سے کم درجے میں درس نظامی کو مع علم تجوید و بیان اور منطق فلسفہ فضیلت تک پڑھنا ناگزیر ہے۔ مغرب کو تو جانے ہی دیجیے کہ وہاں تک پہنچتے پہنچتے یہ مصحف الہامی دو چار برس کا قصہ نہیں رہتا ۔ لہذا بہتر ترکیب یہ ہے کہ اس کو اول وقت میں آنکھ میچ کر صرف روانی الفاظ اور تراکیب و آمیزات کی تحصیل کے لیے پڑھ جانا چاہیے اور ایسا بھی کوئی قحط نہیں کہ اگر اقبال کو سن بلوغت سے پہلے کسی ڈھنگ کے خاندان کے چشم و چراغ نے پڑھا تو کچھ تو مافوق الفطرت واقعات اس کی ذہن کی چھلنی میں پھنسے رہ ہی جائیں گے ۔اقبال نے رومی سے کیا سیکھا اور کون سے خداوں کی تعلیم میں ان دونوں بزگوں نے اپنی زندگی کا قصہ تمام کیا اس کو سمجھنے میں تو نذیر بنارسی ناکام رہے تو ہم کیا سمجھیں گے۔

میں نے اقبال کی شاعری کے ساتھ یقیناً اچھا خاصا وقت گزارا ہے، بچپن تو ان کی نذر ہوا ہی لیکن جب سے ہوش سنبھالا ہے (ادبی ہوش) تب سے تقریبا زندگی کے دو یا ڈھائی برس الگ الگ وقتوں میں ان کی نذر ہوئے ہیں ۔ اقبال سے اگر میں اتنے وقتوں میں ایک خاص طرز اظہار کے شعر کہنا سیکھتا تو یقیناً میرا ایک عدد کلیاتچہ ضرور مرتب ہو جاتا ۔ لیکن میں نے اس بات کی کوشش بھی نہیں کی۔ ان کے حالات زندگی کو جب سے زندہ رود میں پڑھا ہے ان کی شاعری سے زیادہ ان کی زندگی پر رشک آیا ہے۔ میرا یہ یقین کامل ہے کہ اقبال نے مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے کے لیے شاعری کی ہی نہیں ۔ اس لیے اس کو پڑھ کر اگر کوئی مسلم نوجوان مرد مومن بننے کا خواہش مند ہو تو اس میں ناکامی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ یہ بات اقبال کی شاعری کے ساتھ ٹھیک ٹھاک وقت گزارنے کے بعد ہی سمجھ میں آتی ہے کہ اقبال کا منشا نظموں اور بیشتر غزلوں کی حد تک خلافت و ملوکیت جیسی کتابوں کا شاعرانہ ایڈیشن تیار کرنا تھا۔ ورنہ چہ معنی دارد کہ وہ طلوع اسلام میں اس طرح کے مباحث کو داخل کریں کہ پڑھنے والے کو طلوع اسلام کے صرف ایک خاص معنی سمجھ میں آئیں۔ یہ کوئی الزام نہیں میں اس کی مثال پیش کر سکتا ہوں۔ مثلاًعلامہ فرماتے ہیں کہ:

سرشک چشم مسلم میں ہے نیساں کا اثر پیدا

خلیل اللہ کے دریا میں ہوں گے پھر گہر پیدا

اور آگے کہتے ہیں کہ:

نوا پیرا ہو اے بلبل کہ ہو تیرے ترنم سے

کبوتر کے تن نازک میں شاہیں کا جگر پیدا

اس طرح کی شاعری سے کیسا اسلام طلوع ہوگا اور اس اسلام کے طلوع ہونے میں کتنے انسانوں کی بلی چڑھے گی اقبال کو اس کی رائی برابر فکر نہیں ۔ اس شاعری سے مرد مومن تو تیار ہونے سے رہا مرد مجاہد ضرور ہو جائے گا۔ وہی مرد مجاہد جو عام گلی کوچوں میں اپنی جہالت بھری حرکتوں کی وجہ سے جھولتا نظر آتا ہے۔ یہ شاعری اسی لیے مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے کے لیے نہیں ہے کہ نیساں کے جس اثر کی طرف علامہ نے اشارہ کیا ہے وہ تو مسلمانوں میں کہیں دور دور تک نہیں۔ نسیان کی بیماری ضرور ہے۔ وہ گہر آبدار جن کے ملنے سے ایک بہتر معاشرہ بنتا ہے وہاں کا نیساں کمیونل ہارمنی ہے ۔ جس کے معنی اقبال کو معلوم نہیں ۔ اسی لیے وہ مرد مومن کی خواہش میں مرد مجاہد پیدا کر دیتے ہیں۔ اس میں بھی علامہ کی عقل کو کم ان کی روانی اظہار کو زیادہ دوشی قرار دیا جا سکتا ہے۔ جب انسان ایک خاص نوع کی جذباتیت میں بہتا چلا جاتا ہے تو ہر طرح کے امتیاز کی صفت سے ماوری ہو جاتا ہے۔ اگر اقبال اتنا سوچتے تو پھر اپنی براقی کا مظاہرہ کیسے کر پاتے۔

پکی عمر میں اقبال کو پڑھنے کے بہت سے نقصانات میں ایک یہ بھی ہے کہ آپ ادب کی ایک کھنکھناتی ہوئی فضا میں جینے کو ہی سب کچھ سمجھ لیتے ہیں ۔ ایسا نہیں کہ آپ اس کھنک کے ساتھ زندگی گزار دیں تو کسی طرح کا گناہ سرزد ہو جائے گا، بس اس سے آپ کا ذہنی ارتقا مسخ ہو کر رہ جاتا ہے۔ بانگ درا، بال جبریل، ضرب کلیم اور ارمغان حجاز ان کی صوتیات میں جو شوریدہ سری ہےوہ نئے پڑھنے والوں کے پاوں جکڑ لیتی ہے۔ اسے ایک نوع کی نفسیاتی الجھاو بھی کہا جا سکتا ہے۔ شبلی کے یہاں بھی بعض نظموں میں یہ کھنک ہے اور حالی کی مسدس میں بھی، مگر اقبال اس معاملے میں پیر فرتوت ہیں ۔ وہ اپنی لفظیات سے ایسا سماں باندھ دیتے ہیں کہ آپ کے پاس آمنا و صدقنا کہنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا۔ پھر وہ کار فریب سے بھی بخوبی واقف ہیں کہ آپ کو اقبال کے یہاں ادب کی ایک پوری کائنات نظر آئے گی۔ کون ہے جس پر انہوں نے نظم نہیں کہی، آپ اسی رویہ سےا ن کو کبھی شیخ طریقت سمجھیں گے اور کبھی مفکر اعظم ۔ افلاطونیت کے سارے دروازے شاعری کی حد تک اقبال پر بند ہوتے نظر آتے ہیں ۔ اس کے بعد آپ کے سامنے کوئی بیٹھا لاکھ گائے کہ:

داد جو اک لمحے کی ہو کیا داد نہیں کہلائے گی

آپ کان دھرنے سے رہے۔ حد تو یہ ہے کہ اقبال کی شاعری کے بعد آپ کو عطار یوسف کی دکان پہ بیٹھا حسن کوزہ گر بھی اقبال کا شاگرد معلوم ہونے لگے گا۔ کسی شاعری سے آپ جلد متاثر نہیں ہو سکتے۔ ہاں اگر اقبال کو ایک ادھورے فریم کی طرح دیکھنے کی صلاحیت آپ میں ہے اور آپ یہ جانتے ہیں کہ اقبال ایک خاص نوع کی جمالیات کا شاعر ہے جس کے یہاں سوائے تل کا تاڑ بنانے کے اور رائی کو پہاڑ میں ڈھالنے کے کچھ نہیں تو بات کچھ بن سکتی ہے۔ اس صورت میں اقبال چشم کشاوں کو جلد ہی اس ڈمرو کی طرح معلوم ہونے لگتا ہے جو ذرا سا ہلانے پر دہاڑنے لگتا ہے۔ اس کا راز یہ ہے کہ اقبال کی شاعری دوطرفہ کھڑکتی ہے۔ کبھی اس کی تلمیحات آپ کو اپنے اثر میں لیں گی اور کبھی تنبیہات۔ عین ممکن ہے کہ اقبال نے جس ماحول اور معاشرے کے لیے یہ شاعری کی ہو اس نے میواتی مسلمانوں کے حق میں کاندھلوی صحیفے سا کام کیا ہو، لیکن دور تک اس کا کوئی اثر نہیں ہو تا۔ اقبال کو مستقل پڑھنا ایک نوع کی بیماری کو خود پر مسلط کرنا ہے۔ ایسی شاعری جو فوراً متاثر کرے اور جلد ہی اس کی پرتیں کھل جائیں، کبھی بڑی شاعری نہیں ہو سکتی۔ میں نے اقبال کو دیر میں ہی سہی، خیر باد کہا ہے، کیوں کہ ادبی دنیا میں پڑھنے کے لیے اقبال سے آگے ایک جہان رنگ و بو آباد ہے۔ جہاں لطف و انبساط بھی ہے اور فہم و ادراک بھی اور وہ سب کچھ بھی ہے جو اقبال کے نقار خانے میں کہیں نظر نہیں آتا۔

 

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).