دہریت کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں


آپ نے چار کتابیں پڑھیں۔ علمیت نے عقلیت کو پسند کیا اور عقیدت کو زندگی سے رخصت کیا۔ بندگی اور خدائیت سے بیزاری پیدا ہوئی۔ منطق کی کسوٹی پر اپنی دانست میں پرکھا تو خدا انسانی ذہن کی پیداوار معلوم ہوا۔ مذہب استحصالی معاشرتی نظام کا پرتو اور عبادت و روحانیت ڈھکوسلے لگنے لگے۔

آپ نے مذہب سے بیزاری کا اظہار گاہے گاہے دوستوں کی محفل میں شروع کیا۔ کوئی جل گیا، کسی نے دعا دی کے مصداق یاروں میں سے بعض آپ کو بحث سے قائل کرنے لگے اور بعض آپ کے حق میں ہدایت اور مغفرت کی دعا کرنے لگے۔

اگر آپ زیرک ہیں تو علمیت آپ کو گہرائی اور گیرائی دے گی، آپ مذہبی شخص کو عقائد اور خدا رکھنے کی شخصی آزادی ضرور دیں گے۔ اپنی تحقیق اور علم کی جستجو اپنے تئیں جاری رکھیں گے۔

بصورت دیگر نئے نئے علم کا خمار آپ کے سر کو چڑھے گا۔ چار کتابوں کی چاندنی میں اپنے دل و دماغ کو روشن اور مذہب کے ماننے والے افراد کو جہالت کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا پائیں گے۔ ان کی دقیانوسیت پر کف افسوس ملیں گے اور ان کی کم عقلی کا ماتم جہاں موقع ملا وہاں ضرور کریں گے۔

یہاں آپ کی دہریت بذات خود مذہبیت کا وہی روپ دھار لے گی جس سے بیزاری کا اظہار آپ ظاہراً کرتے ہیں۔

نئے نویلے دہریوں کی تشکیک، سوال اٹھانے اور افکار کو منطق کی کسوٹی پر پرکھنے کی عادت متاثر کن ہے۔ لکیر کی فقیری کرنا، ہمہ جہت انسانی ذہن کی تذلیل ہی ہوگی، مانگے کی سچائی کے بجائے خود تحقیق کے رستے پر نکلنا اپنے اندر ایک خوبصورت عمل ہے۔ لیکن نئے نویلے دہریوں کا رویہ اس وقت بد صورت ہو جاتا ہے جہاں وہ مذہب اور خدا رکھنے والے شخص کی تذلیل اور تضحیک کرنے لگیں۔ اور مذہبیت کا وہی دوغلا پن اپنے روئیے میں دکھانے لگیں جس کا وہ مذاق اڑاتے ہیں۔

نئے دہریوں کے لئے رہنما اصولوں میں سے پہلا اصول یہ ہے کہ۔ نیم حکیم اور نیم ملا کی طرح نیم دہریہ بھی نرا خطرہ ہی ہوتا ہے۔ علم لا محدود ہے۔ چار کتابیں تمام سوالوں کے جواب نہیں دے سکتیں۔ چنانچہ چار کتابیں پڑھنے کے بعد آٹھ کتابیں اور پھر سولہ اور پھر بتیس کتابیں پڑھیں۔ آپ جانیں گے کہ لادینیت کے آگے جہاں اور بھی ہیں۔ اور آپ کا سفر دائرے کا سفر بھی ثابت ہو سکتا ہے۔

یہ جہان امکانات کا جہان ہے۔
آپ تشکیک کے داعی ہیں تو یقین رکھیں حرف آخر سائینس اور منظق بھی نہیں ہیں۔

اپنے روئیے میں جھانکیں تو مکمل دہریے ابھی آپ ہوئے نہیں ہیں۔ مذہب اب بھی آپ کی زندگی میں پوری طرح داخل ہے۔ نماز اور روزہ کا مذاق اڑانا آسان ہے لیکن یاد رکھیں، آپ مولوی اور شادی جیسے ادارہ کی تمام تر مخالفت کے باجو مولوی کو بلا کر مسنون نکاح ہی کرتے ہیں۔ عورت کی مساویت کے دعووں کے باوجود حق مہر کی سنت بھی پوری کرتے ہیں۔ بچے کی پیدائش پر بھی کسی بزرگ کو ضرور کھوجتے ہیں جو بچے کے کان میں اذان دے۔

مذہب سے جان اپنی چھوٹی نہیں اور چلے دوسروں کی چھڑانے؟!
آپ خدا کو نہیں مانتے ہوں گے۔ لیکن جو شخص اس کو مانتا ہے وہ اس کی محبت میں گرفتار ہے۔ کسی کے سامنے اس کے محبوب کی برائی بد اخلاقی ہے۔ جب کہ اب آپ کا اس سے کچھ لینا دینا بھی نہیں۔

کوئی کسی کو حاجت روا مان کر اپنا ہاتھ دعا میں اٹھا لے، تو آپ اسے دعا کی جگہ دوا کا مشورہ دے کر نہ چلتے بنیں۔ کسی ان دیکھی طاقت سے امید لگا کر کئی کمزور انسان مایوسی پر قابو پانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ کوئی اپنے محبوب سے دعا مانگے یا اسے چاہے جائے، یا اس کی عبادت میں سکون ملنے کا دعوی کرے تو آپ اس سکون کو چھیننے کا حق نہیں رکھتے، جبکہ آپ اس کا کوئی متبادل بھی نہیں دے سکتے۔

ایسے اخلاق سے عاری دہرئیے بھی دیکھ رکھے ہیں جو جنازے میں بیٹھ کر اپنے پیاروں کو کھونے والے مغموم افراد کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کا خدا ان پر ظالم ہے اور تدفین کی مذہبی صورت سائنسی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔

انتہا پسندانہ دہریت اور مذہبیت دونوں ایک برابر قبیح ہیں جب تک بنیادی انسانی ہمدردی، طبیعت کی شگفتگی، اپنے ساتھ دوسروں کی ذہنی آسودگی کا احترام اپنے اوپر واجب نہ کر لیاجائے۔ آپ مذہب سے کئی وجوہات کی بنا پر بیزار ہونے میں حق بجانب ہوں گے۔ لیکن خدا کو دیکھے بنا ماننا۔ رومانویت کی ایک خوبصورت ترین شکل ہے۔ دعا کا عمل، امید کا عمل ہے۔ عبادت۔ فرد واحد کا اپنے معشوق کے لئے ایک ذاتی عمل ہے۔ اس شخصی آزادی کی تضحیک روا ہے نہ قدغن۔
3 جون 2016

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments