ایک نئی سرجیکل اسٹرائیک کی دھمکی


بھارتی فوج کے سربراہ نے پاکستان کو سبق سکھانے کی ضرورت بیان کرنے کے دو روز بعد لائن آف کنٹرول کے پار پاکستانی زیر انتظام علاقوں میں ایک نئی سرجیکل اسٹرائیک کی دھمکی دی ہے۔ بھارت نے دو برس قبل آزاد کشمیر میں ایک سرجیکل اسٹرائیک کے ذریعے ایسے دہشتگرد گروہوں کے ٹھکانے تباہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا جو مقبوضہ کشمیر میں حملے کرتے تھے۔ پاکستان نے اس دعویٰ کو مسترد کرتے ہوئے مقامی اور عالمی صحافیوں کےایک وفد کو متعلقہ علاقوں کا دورہ کرواتے ہوئے واضح کیا تھا کہ بھارت کا یہ دعویٰ جھوٹ کا پلندہ ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کشیدگی اور تصادم کی جس سطح پر پہنچ چکے ہیں، اس میں سچ کی تلاش کار بے مقصد سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ اس لئے دونوں ملکوں کے عوام اپنی قیادت کے پیش کردہ اعداد و شمار اور دعوؤں کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ بھارتی عوام میں ہمسایہ ملک کے بارے میں غم و غصہ بڑھانا ملک کے انتہا پسند سیاست دانوں کی مجبوری اور میڈیا کی کمزوری بن چکی ہے۔ غربت، روزگار، صحت اور سماجی دباؤ کے مسائل سے بھارت کا معاشرہ بھی پوری طرح نبرد آزما ہونے میں کامیاب نہیں ہے۔ اس لئے عوام کو مصروف رکھنے کے لئے اشوز کی تلاش رہتی ہے۔ پاکستان سے دشمنی کو راسخ کرکے بی جے پی کے علاوہ قوم پرستی کو ابھارنے والا میڈیا مقبولیت تو حاصل کر رہا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی حالات کو ایسے پوائینٹ آف نو ریٹرن کی طرف بھی دھکیلا جارہا ہے جس کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کا قیاس بھی کسی ہوشمند کی نیندیں اڑانے کے کافی ہے۔

پاکستان کے حوالے سے بھارتی سیاست میں فوجی قیادت کی طرف سے اظہار خیال اور دھمکی آمیز بیانات ایک نئے عنصر کا اضافہ ہے۔ 29 ستمبر 2016 کو ہونے والی سرجیکل اسٹرائیک کا اعلان بھی وزارت دفاع کی بجائے فوج کے ترجمان نے ایک پریس کانفرنس میں کیا تھا اور اس حوالے سے کچھ ’دستاویزی ثبوت‘ بھی فراہم کئے گئے تھے۔ پاکستان نے اس نام نہاد ثبوتوں اور دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے چیلنج کیا تھا کہ اگر بھارت کے پاس پاکستان کے علاقے میں گھس کر کارروائی کرنے کا کوئی ٹھوس ثبوت موجود ہے تو اسے دنیا کے سامنے لایا جائے۔ تاہم نہ بھارت کے فراہم کردہ شواہد پاکستان نے قبول کئے اور نہ ہی بھارت کی حکومت اور فوج کے نمائیندوں نے ان دعوؤں کا راگ الاپنا بند کیا۔ بلکہ وقفے وقفے سے سیاسی و فوجی بیانات کے علاوہ میڈیا مباحث اور پروپیگنڈا نما رپورٹوں میں پاکستانی علاقوں میں بھارتی فوجی کارروائی کا تذکرہ تواتر سے ہوتا رہا ہے۔ بلا شبہ اس کی ایک وجہ نریندر مودی کی حکومت کی طرف سے انتہا پسند ووٹروں کو رجھائے رکھنا ہے لیکن دوسری اہم وجہ مقبوضہ کشمیر میں بڑھتی ہوئی مزاحمت ہے۔ اس مزاحمت میں جولائی 2016 میں برہان وانی کی شہادت کے بعد اضافہ ہؤا ہے۔ بھارتی حکومت اسے دہشت گردی کا شاخسانہ قرار دے کر اپنے عوام اور عالمی رائے کو گمراہ کرنا چاہتی ہے۔ اور بھارتی فوج اپنی ناکامیوں کا ذمہ دارپاکستان کو قرار دینے کے لئے سرجیکل اسٹرائیک جیسے عذر تراشنے لگی ہے۔ تاہم بھارتی فوج کی طرف سے جنگ کی دھمکیوں اور سرجیکل اسٹرائیک کے دعوؤں کی وجہ سے بھارت کی سیاست میں فوج کو استعمال کرنے کے جس رجحان کو مودی حکومت نے متعارف کروایا ہے، وہ بھارتی جمہوریت کے لئے اندیشوں کا سبب بن سکتا ہے۔

گزشتہ چار برس کے دوران بھارت کی طرف سے ہر سطح پر پاکستان سے بات چیت سے انکار نے ایسی افسوسناک صورت حال پیدا کی ہے جو بھارت کے نو دریافت شدہ مربی امریکہ کے لئے بھی پریشانی کا سبب ہے۔ اس رویہ کو فی الوقت بھارت کی اہمیت و ضرورت کے سبب قبول کیا جارہا ہے۔ لیکن جنگ کا ماحول پیدا کرنے یا پاکستان کے ساتھ کوئی ڈرامائی صورت حال میں عالمی سطح پر حاصل کی گئی سفارتی کامیابی کا رخ تبدیل ہو سکتا ہے۔ بھارت کی محبت میں دنیا کا کوئی ملک بھی دنیا کی تباہی کی طرف اٹھتے ہوئے کسی قدم کو قبول کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہو گا۔ پاکستان گوناگوں داخلی اور خارجی مسائل کا شکار ہونے کے باوجود تسلیم شدہ ایٹمی طاقت ہے۔ یہ امر بھی افسوسناک اور قابل مذمت ہے کہ سرحد کے دونوں طرف کی قیادت نے اس سنجیدگی اور تدبر کا مظاہرہ نہیں کیا جس کی جوہری طاقت کے حامل کسی ملک سے توقع کی جاتی ہے۔ پاکستان اور بھارت کے عوام کو ان کا کوئی نہ کوئی لیڈر یہ بتانے کے لئے تیار رہتا ہے کہ ایٹم بم دشمن کے دانت کھٹے کرنے کے لئے ہی تیار کئے گئے ہیں۔ لیکن اس خطرناک دھمکی آمیز سیاسی ہتھکنڈے کو استعمال کرتے ہوئے کوئی یہ بتانے کی زحمت نہیں کرتا کہ جوہری ہتھیار وں کے استعمال میں پہل کرنے والا اپنے ملک کا ’جیالا‘ ہو یا دشمن ملک کا مخبوط الحواس لیڈر۔۔۔ اس سانحہ کے بعد شاید کوئی بھی کامیابی کے ثمرات دیکھنے کے لئے زندہ نہیں بچے گا۔ برصغیر میں جوہری ہتھیاروں سے پیدا ہونے والی تباہی صرف پاکستان اور بھارت کے علاقوں میں ہی زندگی کو ختم نہیں کرے گی بلکہ دنیا کے وسیع حصوں پر اس ایٹمی تابکاری کے اثرات محسوس کئے جائیں گے۔ پاکستان اور بھارت کے لیڈروں کو اس کا اندازہ ہو یا نہ ہو لیکن دنیا کے سب طاقتور ملک اس سچ سے آگاہ ہیں۔

پاکستان کے ساتھ معاملات کرتے ہوئے بھارت کا مؤقف مسلسل غیر حقیقت پسندانہ اور مسلمہ سفارتی طریقوں کے برعکس رہا ہے لیکن نریندر مودی کے حکومت سنبھالنے کے بعد سے مسلسل دہشت گردی کو عذر بنا کر پاکستان سے مذاکرات سے انکار کیا جاتا رہا ہے۔ پاکستان نے اس دوران بات چیت پر اصرار کیا ہے اور ہر موضوع پر گفتگو کرنے پر رضا مندی بھی ظاہر کی ہے۔ حتیٰ کہ وزیر اعظم عمران خان نے نریندر مودی کے نام جس خط میں وزرائے خارجہ کی ملاقات کی تجویز دی تھی، اس میں کسی شرط کےبغیر سادہ اور براہ راست لکھے گئے فقرہ میں دہشت گردی پر بات چیت کا عندیہ دیا تھا۔ پاکستان کی طرف سے اس سے زیادہ سفارتی رعایت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت نے اس ملاقات پر آمادگی ظاہر کرنے کے ایک روز بعد سرحد پر ایک بھارتی فوجی کی ہلاکت اور بعض ڈاک ٹکٹوں کے اجرا کا بہانہ بناتے ہوئے، نہ صرف اس ملاقات کو منسوخ کردیا بلکہ پاکستان کے نو منتخب وزیر اعظم پر الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہوئے یہ تک کہا کہ پاکستان کبھی نہیں سدھرے گا۔ عمران خان نے اس الزام تراشی کا ’ ٹویٹ ڈپلومیسی‘ سے جواب دیتے ہوئے بھارتی لیڈروں کو ادنیٰ قرار دے کر اپنی توہین کا بدلہ تو لےلیا لیکن پاکستان کا سفارتی سفر مشکل بنا دیا۔

اس وقت دونوں ملکوں کے درمیان بیان بازی اور الزام تراشی کا مقابلہ جاری ہے جس میں بھارت اس لحاظ سے بازی لے رہا ہے کہ وہ دھمکی دیتا ہے جس کا پاکستان کی طرف سے جواب دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں اگر دھمکی کا جواب دینے کے لئے سول حکومت کے نمائیندوں کے علاوہ پاک فوج کے ترجمان میدان میں اترے ہوئے ہیں تو بھارت نے بھی جنرل بپن راوت کو بیان بازی کے محاذ پر متعین کر رکھا ہے۔ دونوں ملکوں کی سیاسی صورت حال اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ کوئی ڈرامائی صورت حال پیدا کی جاسکے۔ یعنی یا تو فوری طور سے ددنوں ملکوں میں ایسا امن معاہدہ ہو جو دنیا کے علاوہ اس خطے کے لوگوں کو حیران کردے۔ متلون مزاج عمران خان نے شاید اسی امید پر نریندرمودی کے رسمی خط کو مذاکرات کی دعوت اور امن کی خواہش سمجھتے کرتے ہوئے جوابی خط میں امن کا ایجنڈا طے کرنے کی کوشش کی۔ یہ خواہش بوجوہ پوری نہیں ہو سکتی تھی لیکن اس کا آغاز ہونے سے پہلے ہی بھارتی حکومت پر داخلی دباؤ کے سبب جو انجام ہؤا، اس نے حالات کو پہلے سے زیادہ سنگین اور تشویشناک بنا دیا ہے۔

 بھارت کی حکومت اپنے عہدے کی مدت پوری کرنے والی ہے اور بھارتی جنتا پارٹی اور نریندر مودی کو2019 کے انتخابات میں پاکستان دشمنی کا لبادہ اوڑھ کرہی ووٹ لینے کی امید ہے۔ پاکستان دشمنی بھارتی انتخابات میں ایک اہم سیاسی کارڈ کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ اسی لئے شاہ محمود قریشی اور سشما سوراج کی ممکنہ ملاقات سے انکار کے بعد دھمکیوں اور الزامات میں شدت آئی ہے۔ انتخابات تک اس میں مزید اضافہ ہوگا اور بھارت کا قوم پرست میڈیا بھی اس شعلے کو دھیما نہیں پڑنے دے گا۔ دوسری طرف پاکستان کی حکومت نے ابھی اقتدار سنبھالا ہے۔ عمران خان اور تحریک انصاف بلند بانگ دعوؤں کے ساتھ پہلی بار برسر اقتدار آئے ہیں۔ عمران خان کی طرف سے ’صلح جوئی‘ کی کوشش ناکام ہوجانے کے بعد اب بھارت کے خلاف فضا کو انگیختہ کرکے ہی اپوزیشن کے علاوہ رائے عامہ کو مطمئن کیا جا سکتا ہے۔ بھارتی جارحیت کے اندیشے پر گفتگو دیگر شعبوں میں حکومت کی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہو گی۔

کشیدگی اور تصادم کے اس ماحول میں بھارت میں ایک طرف دو سال قبل کی جانے والی سرجیکل اسٹرائیک کی سالگرہ منانے کا اہتما م ہو رہا ہے تو دوسری طرف دوبارہ ایسا ہی اقدام کرنے کی دھمکی دی جا رہی ہے۔ عالمی فورمز پر پاکستان کے خلاف رائے سازی کا کام زور شور سے جاری ہے۔ اقوام متحدہ میں بھارت کے مندوب کا لب و لہجہ اس بات کا غماض ہے۔ اس ماحول میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اقوم متحدہ میں تقریر کے دوران سخت اور جارحانہ بیان دینے پر مجبور ہوں گے۔ جنرل بپن راوت کی دوبارہ سرجیکل اسٹرائیک کی دھمکی بھی دراصل دونوں ملکوں کے درمیان جاری پروپیگنڈا جنگ کا حصہ ہے جس میں دونوں حکومتیں اپنا حصہ ڈالنے پر مجبور ہیں۔ لیکن دونوں طرف کے لیڈر یہ بھول رہے ہیں کہ اندازے کی کوئی غلطی کسی بڑی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔ بھارت پاکستان کو سزا دینے کی خواہش میں خود اپنی انگلیاں جلا سکتا ہے۔

دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان تصادم کی صورت میں اگر معاملہ صرف انگلیاں جلانے تک محدود رہے تو بھی کسی نہ کسی طرح اس مشکل سے نکلا جاسکتا ہے۔ لیکن برصغیر کے جذباتی ماحول، نتائج کی پرواہ سے عاری سیاسی ہتھکنڈوں اور اپنی طاقت پر ضرورت سے زیادہ گھمنڈ کے ماحول میں کوئی معمولی چنگاری کسی ایسے فساد میں تبدیل ہو سکتی ہے جس پر قابو پانا کسی کے بھی بس میں نہیں ہوگا۔ دونوں ملکوں اور خاص طور سے دھمکیوں پر اترے ہوئے بھارت کو یہ باور کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی عددی اور عسکری ٹیکناجی میں برتری کو کسی تصادم میں جیت کی ضمانت نہ سمجھے۔ جنگ کسی کے لئے بھی پھولوں کا ہار لے کر نہیں آئے گی۔ پاکستان سے لڑائی کی صورت میں بھارت کی پوری معیشت داؤ پر ہوگی جس کی تعمیر نو سہل نہیں ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali