کوئٹہ کا گرم قہوہ اور کراچی کی پھیکی سیاست


سال بھرپہلے کی بات ہے، کوئٹہ میں سابق میئر اور بلدیاتی سیاست کے متحرک ترین کردار حاجی رحیم کاکڑ سے ملاقات کا موقع ملا۔ ان کے حجرے میں داخل ہوا تو وہ ٹی وی پر ”ایسانہیں چلے گا“ دیکھتے ہوئے دانت پیس پیس کر اینکر کی بے تحاشہ تعریف کررہے تھے۔

نیشنل پارٹی کے نوجوان اسلم بلوچ بھی ساتھ ہی تھے۔ رحیم کاکٹر سے کوئٹہ کی روایت کے مطابق ”حال حوال“ ہوا۔ اپنا تعارف کروایا تو حاجی صاحب کا پہلا سوال ہی زناٹے دار تھا۔ کہنے لگے کوئٹہ میں صحافی کم ہیں کیا؟ اور جواب سنے بغیر پورا طمانچہ بنا کر ٹی اسکرین کی طرف اشارے کرتے ہوئے پھر اینکر کی بے تحاشہ تعریف شروع کردی۔

کوئٹہ کے دوست واقف ہوں گے رحیم کاکٹر وہاں کی مقامی سیاست کا اہم اور دل چسپ کردار ہیں۔ جوڑ توڑ کا ہنر جانتے ہیں اور سنگل مین پارٹی بن کر سیاست کرتے ہیں۔ کوئٹہ کے مسائل پر بات شروع کی، لیکن کاکٹر صاحب میڈیا سے اس قدر شاکی تھے کہ بارباریہی پوچھتے، میڈیا والوں کوہمارے مسائل نظر کیوں نہیں آتے۔

سال بھر پہلے ویسے ہی میڈیاکی دھما چوکڑی عروج پرتھی [یا یوں کہہ لیں زیادہ عروج پر تھی] اور حاجی صاحب کی باتوں سے لگتا تھا کہ وہ اپنے ناپسندیدہ ترین چینل دیکھ کر بلڈ پریشر چیک کرنے کا مشغلہ رکھتے ہیں۔ پوچھا کہ آپ شہرکے میئر رہے ہیں، کراچی کی طرح کوئٹہ میں بھی مختلف زبان اور رنگ ونسل سے تعلق رکھنے والے رہتے ہیں۔ توازن کیسے برقرار رکھا جاسکتا ہے؟

قہوے کے کپ پر حاجی صاحب کی گرفت سخت ہوگئی، اور میں نے اپنا رائٹنگ پیڈ چہرے کے قریب کرلیا۔ کہنے لگے، یہاں کوئی اختلاپ مختالپ نہیں، دیکھو کسی بھی قوم کا آدمی ہو، اسے پانی چاہیے، روٹی چاہیے۔ روزگار، گھر اور صفائی چاہیے۔ آج ایک اچھا بلدیاتی نظام آجائے جس میں لوگوں کے مسائل حل ہوں، میں دیکھتا ہوں کون کسی دوسری قوم کے بارے میں کوئی بات کرتا ہے۔

مسئلہ ہوتا ہے تو یہ لڑتے ہیں جب مسئلے کم ہوں گے تو کم لڑیں گے، بس اتنی سی بات ہے۔ اس کے بعد کافی دیر گپ لگی، اس کے نوٹس آج بھی سنبھال رکھے ہیں، تفصیل پھر سہی۔ لیکن حاجی صاحب کی یہ بات مجھے بار بار یاد آتی ہے۔

سندھ اسمبلی میں کچھ نہ کچھ عرصے بعد تیرا میرا، تو تو میں میں ہوتی رہتی ہے۔ پھر وہی دہائیوں پرانی تقریریں دہرائی جاتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر پھروہی تماشا لگتا ہے، بحثیں ہوتی ہیں، طعنے زنی کا دور چلتا ہے اور ناطرین، گندی گلی، سے نکل کر، ٹوٹی سڑک پر پانی کی خالی بوتلیں لیے، آر او پلانٹ کی تلاش میں نکلتے ہیں۔

اسمبلی میں سندھی مہاجرباکسنگ کے دو تین راونڈ ہوتے ہیں، کبھی کبھی صوبے کا فاول بھی کھیلا جاتا ہے اورایک آدھ دن کے لیے تماشائی بھی رنگ میں اتر آتے ہیں، اور خبر ملتی ہے کہ اسمبلی کے ٹھنڈے ہال میں گرما گرمی کم ہوگئی ہے۔

عوام کی دکھیاری زندگی میں پکا قلعہ، ہم نے تمھیں پالا، ہم نے ملک بنایا، ہم نے تمھیں پناہ جیسے سنسنی خیز انٹرویل آتے رہتے ہیں، فلم جاری رہتی ہے اور حکمران ہنسی خوشی رہنے لگتے ہیں۔ یہ سب دیکھ کر دل چاہتا ہے، ان سبھی لوگوں کو حاجی کے سامنے نہتا بٹھا کر ان کے ہاتھ میں گرم قہوے کا کپ دے دیا جائے اور ٹی وی آن کردیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).