تاریخ لکھنے والے بمقابلہ تاریخ بنانے والے


اگست دوہزارچودہ میں منتخب جمہوری حکومت کے خلاف شروع ہونیوالا مارچ محدود تعداد اور ابتدائی ناکامی کے بعد پارلیمنٹ کے باہر دھرنے میں تبدیل ہوگیا۔ پاکستان عوامی تحریک کے ایک ڈیڑھ ہزارافراد اس دھرنے کا مرکزی اجتماع تھے جن کی اکثریت روزانہ اجرت پردھرنے میں شریک تھی دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کا اجتماع دن کے اوقات میں ایک سیکڑہ تک بھی نہ پہنچتا تھا بلکہ اکثر اوقات توخالی کرسیاں منہ چڑاتی تھیں لیکن شام گئے یہاں محفل سجنے لگتی، میلہ جگنے لگتا اور رات گئے تک جاری رہتا۔

اسی دوران اکتوبر دو ہزار چودہ میں سانحہ کارسازکی برسی کے موقع پر پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے ایک خطاب کیا جو سیاستدانوں کی حالیہ لاٹ میں سب سے کم عمربلکہ نوآموزسیاستدان کا خطاب تھا لیکن اس خطاب میں ملکی سیاسی صورتحال کا جوعمیق جائزہ پیش کیا گیا وہ سیاسی فہم وفراست کی نادرمثال ہے

بلاول بھٹو زردادری نے کہا تھا کہ ’آج کل ملک میں سکرپٹ کا شور مچا ہوا ہے یہ سکرپٹ اس وقت تک ختم نہیں ہو گا جب تک کسی طرح سے کوئی کٹھ پتلی وزیراعظم نہ بن جائے۔ یہ وہی سکرپٹ ہے جو ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف لکھا گیا تھا اس کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ جمہوریت کے نام پر دوسری قوتیں اپنا ایجنڈا مسلط کرنا چاہتی ہیں۔ ‘
اس وقت تک بیشترسیاستدان اور مجھ سے عام صحافی اس کے برعکس خیالات کے حامل تھے اسی بناء پرمجھے بلاول بھٹوکا یہ خطاب آج بھی یاد ہے بہت سوں نے بلاول کو سیاست میں کل کا بچہ سمجھا اور اس خطاب کو درخوراعتناء نہ سمجھا۔

دھرنوں کے دوران اور بعدازاں سکرپٹ کی ہاہاکار مچی رہی لیکن اس سکرپٹ میں آنے والے موڑ، اتار چڑھاؤ اور کلائیمیکس سے سکرپٹ پرچلنے والے بھی لاعلم نظرآتے تھے اس بات میں دوسری کوئی رائے نہیں تھی کہ سارا سیاسی عدم استحکام اور انتشار سکرپٹ کا ہی نتیجہ ہے دوردراز اور پسماندہ گاؤں دیہات کے سادہ لوگ جو کبھی قریبی شہرتک نہ گئے ہوں وہ بھی یہ بات تیقن کے ساتھ کرتے تھے۔

رائے عامہ ہموارکرنے والے تمام ذرائع بشمول ٹی وی اور اخبارات کی اکثریت اپنے معمول پرتھی یعنی جدھر کی ہوا چلے ادھر اڑے چلو۔ جس نے انکارکیا اسے لڑکی کے بھائیوں کے ہاتھوں پٹوایا گیا، کئی ایک کردار کشی کی مہم کا نشانہ بنے، کچھ معمولی دباؤ سے مڑگئے اور جو نہ جھکے انہیں ٹوٹ کربکھرنا پڑا۔ سکرپٹ میں کئی موڑ آئے۔ مختلف اداروں کے گٹھ جوڑ سے کہانی لمحہ بہ لمحہ آگے بڑھتی رہی۔ میڈیا کی زباں بندی، سیاسی پریشرگروپوں کو پریشرڈال کر منحرف کرنے، الیکٹ ایبلز کی وفاداریاں تبدیل کرنے، نیب میں مقدمات بنانے، عدالتوں کے ذریعے نا اہل کرانے کے ساتھ ختم نبوت ﷺ اور غداری کے ٹرمپ کارڈ بھی استعمال کیے گئے جوں جوں داستاں آگے بڑھتی کبھی تجسس سے دھڑکن تیزہوتی، کبھی ملال میں دل سے دعائیں نکلتیں، کبھی نا امیدی کی گھنیری چادرچھا جاتی اور کبھی امید کے دیے ٹمٹمانے لگتے۔ مقصد اور اہداف کے حصول تک چومکھی سازشیں جاری رہیں اور بالآخر ایک کٹھ پتلی حکومت کے قیام پر منتج ہوئیں۔

بلاول بھٹو زرداری کے دوہزارچودہ کے خطاب میں کہی گئی تمام باتیں پوری ہوئیں سکرپٹ بھی وہی نکلا جو ذوالفقارعلی بھٹو کے خلاف لکھا گیا تھا، مقصد اور اہداف بھی وہی ثابت ہوئے اور جمہوریت کے نام پردیگرقوتوں کا تسلط بھی مسلمہ حقیقت بن کرسامنے آگیا۔

معروف جرمن تاریخ دان اوشولڈ شپینگلر کے مطابق ’تاریخ دان واقعات کو گزرجانے کے بعد ان کا اپنی معلومات کے مطابق تجزیہ کرتے ہیں جب کہ تاریخ بنانے والا تاریخ بناتے ہوئے اپنی تخلیقی صلاحیت کے مطابق تاریخ کے سفر کو آگے بڑھانے کے لیے نت نئے اور نڈر فیصلے کررہا ہوتا ہے ‘۔

بینظیربھٹو شہید سے منسوب کتاب ”پاکستان: دی گیدرنگ سٹارم“ کا حذف شدہ ایک اقتباس ان کی سوچ کا حقیقی عکاس ہے اگرچہ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اس کتاب سے لاتعلقی ظاہرکی تھی۔ یہ سطور 1983 میں ایم آر ڈی کی تحریک کے بارے میں ہیں

”یہ ظلم کی ایک طویل شب ہے۔ جو اب اب چھٹے برس میں داخل ہوچکی ہے۔ یہ غیر معینہ مدت تک جاری نہیں رہ سکتی ہے۔ عوام کو ہمیشہ کے لئے فوجی بوٹوں تلے کچلا نہیں جاسکتا۔ ایک دن علم بغاوت بلند ہوگا اور وہ دن اب زیادہ دور کی بات نہیں۔ آزادی کی قیمت چاہے کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو پاکستان کے عوام اپنے خون سے ادا کریں گے۔ چاہے کچھ بھی ہو، ہم ہی کامیاب ہوں گے! “

پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقارعلی بھٹو نے سول بالادستی کے لئے جان داؤ پر لگاتے ہوئے سوچا ہوگا کہ ان کی قربانی کے بعداگلی نسل جمہوری پاکستان میں سانس لے گی لیکن ان کی جانشین بینظیربھٹو کو پھر سے وہی سب سہنا پڑا حتیٰ کہ اسی مقصدکے لئے جان بھی دینا پڑی بلاول بھٹو ان کے جانشین بن کر میدان سیاست میں آگئے ہیں لیکن حالات جوں کے توں ہیں۔

ملک سے جنگل کا قانون ختم ہوگا توہی مہذب معاشرے کی اقدارپروان چڑھیں گی۔ مائٹ ازرائٹ تین نسل پہلے بھی ملک میں نافذالعمل واحد قانون تھا اور آج بھی ہے۔ آج ذوالفقارعلی بھٹو کی جگہ پر میاں نواز شریف کھڑے ہیں اور بینظیر بھٹو کی جگہ ان کے جیسے ہی آہنی عزم لیے مریم نواز میدان عمل میں آ اتری ہیں۔ ظلم کی سیاہ رات ابھی باقی ہے کل بھی ظلم و استبداد اور آمریت ایک نہتی لڑکی سے خوفزدہ تھی آج بھی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).