دوسرا جنم: 8 اکتوبر 2005 کے زلزلے کی بطور کم سن طالب علم ذاتی تجربے پر لکھی گئی تحریر


اس کے بعد کا کچھ عرصہ بڑی بد حالی میں گزرا۔ رمضان کا مہینہ تھا۔ لوگ بھوکوں سحر کرتے اور فاقوں افطار۔ چھت جیسی سہولت شاذ شاذ ہی میسر تھی۔ میرے لیے یہ بڑی بے خیالی کے دن تھے۔ موت کے تلخ ترین تجربے کے اتنا قریب سے مشاہدے نے مجھے بے حس اور باغی بنا دیا تھا۔ میں دن بھر بے دلی سے یہاں وہاں گھومتا رہتا۔ غیر ملکی امدادی جہازوں کی اڑانیں گنتا، مشینوں کی ملبے کی صفائی کے دوران نعشوں کی تلاش کے شغل کو دیکھتا اور پتھرائے ہوئے لوگوں کی حالت دیکھنے خیموں اور جھونپڑوں کے گرداگرد گھوما کرتا۔ میرے اندر ایک عجیب سی خوشی کا سانپ لہرا کر یک دم جوان ہو گیا تھا کہ زلزلہ جو ہوا سو ہوا اب اسکول کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو گیا ہے۔ مجھے اسکول کے بندھے ہوئے معمول اور اس کے نتیجے میں ملنے والے کام سے شدید کوفت ہوتی تھی۔ اسکول کی دائمی بربادی کا سوچ کر مجھے ویسا ہی شدید سرور طاری ہوجاتا جو شاید مجاوروں کو حال کھیلتے ہوئے طاری ہوتا ہو۔

لا پرواہی کے یہ دن ہوں ہی گزر رہے تھے کہ ایک دن خبر ملی کہ اسکول کے پرنسپل صاحب نے سب بچوں اور ان کے والدین کو بلایا ہے۔ میری امیدوں پر گھڑوں پانی پڑ گیا۔ چاروناچار اسکول جانا پڑا۔ بچوں اور والدین کا ایک بڑا مجمع جمع تھا۔

پرنسپل غلام حسین وانی جو بذات خود شدید صدمے سے دوچار تھے نے تاریخ ساز تقریر کی۔ یہ بڑا انقلابی گیان تھا۔ وہ گویا ہوئے
“ باغ اس وقت تک باغ کہلاتا ہے جب اس میں پھولوں کا ڈیرہ ہو۔ ہمارا باغ اجڑ گیا ہے مگر ہم نے ہی اسے سنوارنا ہے۔ کوئی شخص کسی غیبی امداد کی توقع کرے نہ ہی کسی کے سامنے ہاتھ پھیلائے۔ ہم سب کو چاہیے کہ اپنے گھروں کو لوٹ جائیں۔ ان کی دوبارہ تعمیر کریں یا غاریں کھود کر ان میں رہیں مگر امدادی کیمپوں میں کوئی نہ رہے۔ کیمپوں میں رہنے والوں کی نہ کوئی تاریخ ہوتی ہے نہ ان کی نسل کا یقین ہوتا ہے۔ ہم حوصلے سے کام لیں گے محنت کریں گے اور ایک بار پھر سے اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں گے۔ ہمارے بچے پڑھیں گے اور ہم ان کو پڑھائیں گے“۔

ان کے الفاظ نے لوگوں کی قوت ارادی پر زبردست اثر کیا۔ یہ بڑی پُر تاثیر گفتگو تھی۔ لوگ اپنے شکستہ گھروں کو لوٹے اور رفتہ رفتہ زندگیاں تعمیر ہونے لگیں۔ ہم بھرپور جذبے سے اسکول جانے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے باغ پھر سے پھلنا پھولنا شروع ہو گیا۔ آج کا باغ پہلے سے کہیں زیادہ شاداب اور ترقی یافتہ ہے مگر کمی ہے تو ان آبیاروں کی کہ جن کے جسموں کو اس مٹی نے بطور کھاد استعمال کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2