“اداس نسلیں” کی کہانی


’’ ادانس نسلیں ‘‘کے پچاس برس ہونے پر ہم نے2013 میں عبداللہ حسین کا انٹرویو کیا تو انھوں نے بتایا :

’’اداس نسلیں تین نسلوں کے بعد بھی پڑھا جا رہا ہے۔خریدا جا رہا ہے۔اس کا موضوع ایسا ہے یا پھراس سے زیادہ اس کے سٹائل میں خاص بات ہے۔ مجھے نوجوان ملتے ہیں، جنھوں نے اس ناول کو پہلی بار پڑھا ہوتا ہے، بتاتے ہیں کہ انھیں یوں لگتا ہے جیسے ناول اب لکھا گیا ہو۔ میرے خیال میں اس کا سٹائل اور زبان کی تازگی ہے، جس کے باعث اسے پسند کیا جا رہا ہے۔ ناول تو اچھے اور بھی لکھے گئے ہیں، لیکن ان کو ایک کے بعد دوسری نسل نے پڑھا نہیں۔ میرے نزدیک ادب کو جانچنے کا معیار وقت بھی ہے۔ جو ادبی کاوش ایک ، دو، اور تین نسلوں کوعبور کر کے زندہ رہتی ہے، وہ معیاری ہے اور’’اداس نسلیں‘‘ کے ساتھ تو یہی معاملہ ہے۔‘‘

ناول کی مختلف تعبیریں ہوتی رہی ہیں، اسے تاریخی شعور کا حامل قرار دیا گیا، اور بھی کئی طرح کی باتیں اس ناول کے باب میں ہوتی رہیں۔ جب یہ ناول چھپا تو عبداللہ حسین نے اسے بنیادی طور پر محبت کی کہانی قراردیا ، اس موقف پر وہ ہمیشہ قائم رہے ۔ انھوں نے راقم کو بتایا ’’میں اب بھی یہی سمجھتا ہوں کہ یہ محبت کی کہانی ہے، لیکن روایتی محبت کی نہیں بلکہ اس عظیم محبت کی ، جس کے لیے آدمی بڑی سے بڑی قربانی دینے پر خود کو آمادہ پاتا ہے۔‘‘

’’اداس نسلیں‘‘ کی مقبولیت سے عبداللہ حسین کو تخلیقی سطح پر یہ نقصان ضرور ہوا کہ ان کی دیگر تخلیقات کو وہ توجہ نہ مل سکی، جس کی مستحق تھیں۔ اس طرف معروف ادیب اور نقاد آصف فرخی نے کچھ یوں توجہ دلائی ’’افسانہ نگاری کے جائزوں میں بالعموم عبداللہ حسین کا نام نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ بات یہ نہیں کہ نقاد اور مبصر عبداللہ حسین کو درخور اعتنا نہیں سمجھتے بلکہ وہ ’’اداس نسلیں‘‘ اور ’’باگھ‘‘ کے دیوقامت سائے سے اتنا مرعوب ہوجاتے ہیں کہ وہ باقی تحریروں پرتوجہ نہیں دے پاتے جیسے تیز روشنی پر تھوڑی دیر نظریں جمانے سے آنکھیں چندھیا سی جاتی ہیں،پھر آس پاس کی چیزوں کے خدوخال دھندلے سے پڑنے لگتے ہیں۔ لیکن مختلف کتابوں کے لیے اندازنظربھی مختلف ہونا چاہیے۔ ’’باگھ‘‘ کا بیانیہ ترشا ترشایا اور گٹھا ہوا ہے جب کہ’’اداس نسلیں‘‘زندگی کے حجم سے بڑی معلوم ہوتی ہے۔ رزمیے کی سی وسعت رکھنے والی جس میں زندگی ٹھاٹھیں مارتی ہوئی اس طرح بہتی چلی جاتی ہے کہ اور چھور نظرنہیں آتا اور دور تک کنارے کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔ ان ناولوں کی اہمیت کے باوجودعبداللہ حسین کے مختصر ناول اورافسانے ایسے بے مایہ بھی نہیں کہ ان کے سائے میں ٹھٹھرکر رہ جائیں اور پنپ نہ سکیں۔‘‘

عبداللہ حسین کو ذاتی طور پر ’’اداس نسلیں‘‘ سے زیادہ ’’باگھ‘‘ پسند تھا ۔عبداللہ حسین کے فکشن کی خوبیوں خامیوں پرگفتگو کا سلسلہ تو آیندہ بھی چلتا رہے گا لیکن عبداللہ حسین کو جس فن میں مہارت ہے، وہ کہانی کہنے کا فن ہے۔ عبداللہ حسین نے ’’اداس نسلیں‘‘کا The Weary Generations کے عنوان سے ترجمہ کیا۔ ان کے بقول ’سنڈے ٹائمز نے اس پر مثبت ریویو لکھا اور کہا کہ کئی سال گزرجانے کے باوجود ناول فریش محسوس ہوتا ہے۔‘

جون 1956ء میں ناول کا آغاز اس وقت ہوا جب عبداللہ حسین والد کی وفات کے بعد ڈپریشن کا شکار تھے اور داؤد خیل میں بسلسلہ ملازمت مقیم تھے۔ان کے بقول، انھوں نے بوریت دور کرنے کے لیے قلم اٹھایا اور لکھنا شروع کر دیا ۔اس کے بعد چل سو چل۔ مئی 1961 میں یہ مکمل ہوا اور 1963 میں کتابی صورت میں سامنے آیا ۔ مصور مشرق عبدالرحمٰن چغتائی نے اس کا ٹائٹل بنایا۔ عبداللہ حسین کے بقول، ناول شائع ہونے سے پہلے محمد حنیف رامے ، شیخ صلاح الدین اور محمد سلیم الرحمٰن نے پڑھا اور پھر ان کی آرا کی روشنی میں ’’ نیا ادارہ ‘‘ کے مالک چودھری نذیر احمد اس کی اشاعت پر راضی ہوئے۔ حنیف رامے اور شیخ صلاح الدین تو اب اس دنیا میں نہیں، لیکن ممتاز ادیب محمد سلیم الرحمٰن ہمارے درمیان موجود ہیں۔ ہم نے ان سے ’’اداس نسلیں ‘‘ کی اشاعت سے پہلے کے مراحل،اسے پڑھنے کے بعد ان کا تاثر اور یہ جاننا چاہا کہ انور سجاد کی اس بات میں کتنی صداقت ہے کہ اس کی نوک پلک آپ نے درست کی تھی۔ ان سوالوں کا جواب محمد سلیم الرحمٰن نے کچھ یوں دیا:

’’نصرت‘‘ کے دفترمیں ایک دن حنیف رامے نے آکر مجھے بتایاکہ ادب کے میدان میں ایک نووارد نے ایسا ناول لکھا ہے جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے اور اس ناول کو چودھری نذیراحمد اپنے اشاعتی ادارے ’’نیا ادارہ‘‘ سے شائع کریں گے۔ حنیف رامے کسی کی تعریف یا کسی پر تنقید کرتے ہوئے احتیاط کا دامن نہ چھوڑتے تھے۔ ان کی والہانہ داد سے مجھے بھی اشتیاق ہوا کہ ناول کا مسودہ ایک نظر دیکھوں۔ چند روز بعد شیخ صلاح الدین سے ملاقات ہوئی تو وہ بھی ’’اداس نسلیں‘‘ پڑھ چکے تھے اور اس کی خوبیوں کے حنیف رامے سے بھی زیادہ معترف نظر آئے ۔ آخر میں ’’نیا ادارہ‘‘ گیا اور چودھری نذیر صاحب سے کہا کہ مجھے بھی ناول کا مسودہ پڑھنے کا موقع دیا جائے۔ انھوں نے کہا کہ اسے پڑھو اور اس کے بارے میں تعارفی کلمات لکھو۔ اس تعارف کو ’’سویرا‘‘ میں شائع کیا جائے گا۔

ناول کے انداز اور نثر دونوں نے مجھے خاصا حیران کیا۔ اردو میں اس طرح کی تحریر کم دیکھنے کو ملتی تھی۔ صاف ظاہر تھا کہ مصنف نے معاصر انگریزی ادب نہ صرف غورسے پڑھا ہے بلکہ اس سے بہت کچھ سیکھا بھی ہے۔ لب و لہجے کی تازگی سے ظاہرتھا کہ ناول کو پسند کیا جائے گا۔ یہ معلوم کر کے اور بھی تعجب ہوا کہ مصنف ،عبداللہ حسین، کیمیکل انجینئرہیں۔ میرا استعجاب اصل میں بے محل تھا۔ ادب کی تخلیق صرف ہمہ وقت ادب سے وابستہ رہنے والوں سے مخصوص نہیں۔ یہ بارامانت ہرکوئی اٹھا سکتا ہے بشرطے کہ بوجھ کو سہار سکے۔ اس کے بعد پتا چلا کہ چودھری نذیرصاحب نے عبداللہ حسین سے فرمائش کی کہ ’’تم بالکل نووارد ہو۔ اگر ناول کی اشاعت سے پہلے دو تین افسانے لکھ دو توخوب ہو۔ پڑھنے والے تمھارے ناول کا زیادہ شوق سے انتظار کریں گے۔‘‘

چنانچہ پہلا افسانہ ’’ندی‘‘ کے نام سے’’سویرا‘‘میں شائع ہوا اور اسے بالعموم پسند کیا گیا۔ ناول کے خیرمقدم کے لیے فضا تو پہلے ہی سازگار ہو چکی تھی۔ چھپا تو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ آدم جی انعام کا مستحق بھی قرار پایا۔ سچ یہ ہے کہ کوئی ناول ناشرانہ تعریفوں، ادبی انعاموں اور ناقدانہ جائزوں کے سہارے اپنا لوہا نہیں منوا سکتا۔ کتنے ہی ناولوں کو چند سال کی واہ واہ کے بعد طاق نسیاں کی نذرکر دیا جاتا ہے۔ اگر’’اداس نسلیں‘‘ پچپن سال گزر جانے کے بعد بھی مقبول اور خواندنی ہے تو اس میں اسے خلق کرنے والے کے کمال کو دخل ہے۔ اردو فکشن کی تاریخ میں عبداللہ حسین کا کام ہمیشہ سراہا اور پڑتالا جاتا رہے گا۔ بعض ادیبوں نے کہا کہ ’’اداس نسلیں‘‘کی نثر میں نے درست کی تھی۔ یہ الزام بالکل بے بنیاد ہے۔ ناول حرف بحرف اسی طرح چھپا ہے جیسے عبداللہ حسین نے اسے تحریرکیا تھا۔‘‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2