سیاست دانوں کی ریشہ دوانیاں


ایک بار پھرکچھ بڑوں پر ہاتھ ڈالا گیا ہے، ایک بار پھر لوگوں کو باور کرایا جارہا ہے کہ ملک میں پہلی بار بڑوں اور طاقتور طبقات پر ہاتھ ڈالا گیا ہے۔ عوامی ایوانوں میں اور ایوانوں سے باہر چور اور ڈاکو کے القاب دہرائے جارہے ہیں۔ حالانکہ جب وزیراعظم کی کرسی پر عمران خان جیسے کرکٹ کے ہیرو کو بیٹھتے دیکھتے ہیں تو اگرچہ خوشی ہونی چاہیے کہ یہاں کوئی ہیرو بھی اس کرسی تک پہنچ تو گیا ہے مگر ڈر لگتا ہے کہ ہمارے ہاں ہیروؤں کے ساتھ جوسلوک ستر سال سے روا رکھا گیا ہے وہ کچھ اور ہی کہانی سناتا ہے۔ ابھی محمد حنیف اور عمار مسعود کے کالموں کی سیاہی خشک نہیں ہوئی کہ حنیف نے لکھا کہ پاکستان جییے ملک میں لوگ آخر وزیراعظم بننا کیوں چاہتے ہیں، یا عمار مسعود نے پوچھا تھا کہ کیا بھٹو جیسا جینیس، برکلے اور دنیا کی نہ جانے کتنی درسگاہوں کا فاضل اور فطین اگر وزیراعظم نہ ہوتا تو کیا پھر بھی وہ اس بے کسی سے مارا جاتا؟ اور پھر خیال آتا ہے کہ لوگ پاکستان جیسے ملکوں میں آخر سیاست کرنا ہی کیوںا چاہتے ہیں؟

بھٹو، بگٹی، بلور اور اب شریف اور دوسرے بڑے اور بظاہر طاقتور سیاسی خاندانوں کے ساتھ ہونے والے المیے جوں جوں وقت گزرتا جاتا ہے اور نمایاں ہوتے جاتے ہیں، آخر کیا وجہ ہے کہ یہاں پر امیرالمونین جیسے القاب کے حامل فوجی حکمرانوں نے جب بھٹو کو پھانسی چڑھایا تو خاندان کا خاندان زیر عتاب تھا، کیا خوف تھا جبکہ وہ تو ہمیشہ سے نہتے تھے، لیکن بندوقوں والے پھر بھی پتہ نہیں کس چیز سے خائف تھے کہ رات کے اندھیرے میں اس شخص کی دفنایا گیا جبکہ محض چارپانچ سال پہلے ہی تو وہ نہ صرف ہیرو تھا بلکہ فوج کے 90ہزار قیدیوں کو بھی چھڑا لایا تھا اور پوچھا بھی نہ تھا کہ یہ قیدی کیوں قید ہوئے تھے مگر جب وہ خود قید میں ڈالا گیا تو پھر وہ سب کچھ انھیں کے ہاتھوں سہتا رہا جو غیروں سے انھیں ببانگ دہل چھڑالایاتھا۔

اور پھر اس کی بیٹی کے ساتھ کیا ہوا، کون سا گمراہ کن پروپیگنڈہ اس کے خلاف نہیں کیا گیا اور وہ جو انجام سے بے خبر اس کا حصہ بن گئے تھے آج ان کی طرف دیکھیں تولگتا ہے کہ انھیں ایک ایک کرکے وہ ساری باتوں پر اب افسوس اور پچھتاوا ہے لیکن پھر بھی کچھ لوگوں کو امید ہے کہ وہ ان کے ساتھ ایسا نہیں کریں گے۔ پتہ نہیں انسان کو وقت پر سمجھ کیوں نہیں آتی۔ پھر اسی وزیر اعظم کے بھائی کو اسی کی مرکزی اور اسی کی صوبائی حکومت میں کراچی جیسے شہر کی سڑکوں پر پولیس مقابلے میں مار دیا جاتا ہے اور وہ ابھی یہ بھی نہ جان پائی تھی کا ایسا کیسے ہوا کہ ایک دن وہ بھی پنڈی کی سڑکوں پر ماردی گئی۔

اؤ ر پھر آصف زرداری، کہ اگر وہ کہیں قصوروار تھے بھی تو ثابت کیا ہوا، کتنے عرصے جیل کاٹی، بیوی بچوں سے دور، ہر طرح کے پروپیگنڈے کا سامنا کیا، اور پھر ثابت کچھ نہ ہوا، اور وہ جو باہر سے لوٹی ہوئی رقم لانے کے مشن پر نکلے تھے وہ پتہ نہیں کتنی رقم اور لٹا کر آگئے اور پھر قدموں پر معافیاں بھی مانگنی پڑیں۔ لیکن ایک بار پھر کچھ لوگوں کو وہی پرانی کہانیاں دہرانے کی عادت ہے سو ایک بار پھر کچھ کیسز کی تیاری جاری ہے اور 70 اور اسی اسی سال کے بزرگوں کو بھی ریمانڈ پر ڈالا جار ہاہے۔ اور اب بات سیاست سے شاید بھی آگے جارہی ہے اب تو لگتا ہے کہ کوئی بھی ایسا کام جسمیں منافعے کا خدشہ ہو وہ نہیں کرنا چاہیے جو سلوک اب بڑے بڑے کاروباری خاندانوں کے ساتھ شروع ہوگیا ہے اس کے بعد کیا کسی کی ہمت ہوگی کہ وہ کاروبار بھی اعتماد سے کرسکے آخر اس ملک میں لوگ کاروبار بھی کیوں کرنا چاہتے ہیں، جب پتہ ہے کہ ایک دن بڑا حصہ مانگنے والے آجائیں گے۔

اور پھر اس بوڑھے بلوچ نواب، اکبر بگٹی کا قصہ تو ضرور یاد ہوگا، وہ جب اسلام آباد آتا تھا تو کیا شان اور کیا کروفر ہوتا تھا، بیسیوں گاڑیاں آگے پیچھے اور ہر طرح کے اسلحہ سے لیس بلوچ سیکورٹی گارڈز اسے کے ہمراہ ہوتے تھے۔ مگر اس نے بھی جب کچھ زیادہ بڑوں کے ساتھ ٹکر لے لی تو اس کے ساتھ کیا ہوا، اس کا بھی جنازہ یوں پڑھایا گیا جیسے کہ کوئی لاوار ث ہو اور بندوقوں والے اس دن بھی پتہ نہیں کیوں خائف تھے کہ ہر طرف کرفیو کا سماں تھا او ر پھر بوڑھے نواب کی لاش بھی اسی طرح دفنا دی گئی۔

پھر بھی ستر سال سے ایک ہی راگ الاپا جارہا ہے سیاست دان ملک کو لوٹ کے کھا گئےحالانکہ پوچھنا تو یہ چاہیے تھا کہ پھانسی کون چڑھائے گئے، ملک بدر کون کیےگئے، کبھی بنا کسی ثبوت کے جیلوں میں ڈال دیے گئے، کبھی جہاز کی سیٹوں سے باندھے گئے اور کبھی پنڈی کی سڑکوں پر ماردیئے گئے لیکن پھر بھی وہ بدنام ہیں حالانکہ وہ ہر ایک کو جوابدہ ہیں بھی ہیں، سڑکوں پر راہ چلتے عوام ان سے جوابدہی طلب کرتے ہیں، میڈیا پر بیٹھے بھانت بھانت کے جغادری انھیں صبح وشام لتاڑتے ہیں اور بالآخر وہ بھی ان سے جواب طلب کرنے آجاتے ہیں جو کسی کو جواب دہ نہیں ہیں۔ سارتر نے کہا تھا میں ان کو جوابدہ ہوں جو خدا کو جوابدہ ہیں اگرچہ میں خدا پر یقین نہیں رکھتا، لیکن یہاں پر کچھ ایسے ہیں ہیں جو کسی کو بھی جوابدہ نہیں۔

ہر بار کہا جاتا ہے کہ آج تک اس ملک میں کسی بڑے کو سزا نہیں ہوئی، اور مڑ کر کوئی نہیں پوچھتا، کہ اوپر جتنے نام گنوائے ہیں کیا وہ کسی کے ہاری مزدور تھے؟ ہاں اگر واقعی بڑوں کی بات کی جائے تو پھر تو یہ درست ہے لیکن ان بڑوں پر ہاتھ کون ڈال سکتا ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ احساس اب پختہ ہوتا جاتاہے کہ وہ سحر اب نہیں آنی جس کے خواب فیض صاحب اور جالب جیسے دیوانے دیکھتےاور دکھاتے ہوئے گزرگئے۔

کبھی کسی نے کسی اعلیٰ یا ادنیٰ منصف سے یہ نہیں پوچھا کہ وہ ہزاروں سے لاکھوں تک کی تنخواہ لے کر آخر کرتے کیا ہیں، آخر ان کی کارکردگی کا بھی تو کوئی معیار ہوگا، کہ کتنے مقدمے کتنے عرصے میں نمٹائے، کتنے فیصلے عالی شان کتنے عرصے میں کیے۔ لیکن کون پوچھے گا جوابدہ تو صرف سیاست دان ہیں، اور ہونے بھی چاہییں۔

پھر بھی، داد دینی پڑتی ہے سیاست دانوں کی ہمت کو کہ انھیں پتہ ہوتا ہے کہ اختیار کچھ نہیں ہےان کے حصے میں صرف آخری ذمہ داری اور اڈیالہ جیل جیسے قید خانے ہی ٹھہری گے۔ پتہ نہیں پھر بھی کس برتے پر سیاست کیے جاتے ہیں معلوم نہیں وہ سیاست چھوڑ کر کوئی اور ڈھنگ کا کام کیوں نہیں کرلیتے اورریاست اور سیاست کے امور کو ان مستقل حکمرانوں کے حوالے کیوں نہیں کردیتے تاکہ اس روز روز کی جوابدہی سے تو بچ سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).