جیل جانے والے ستر سے پچاسی سیاست دانوں اور بیورو کریٹس کی فہرست تیار ہے


چار پانچ اینکروں اور تجزیہ کاروں سے بریکنگ نیوز اگلوائی جاتی ہیں او ر پیغام پہنچائے جاتے ہیں۔ عدلیہ بھی اس منصوبے کا اہم حصہ ہوتی ہے جسے اسٹیبلشمنٹ کا پلان قرار دیا جاتا ہے، کس کو نا اہل کرنا ہے، کس کو صرف ڈرانا دھمکانا ہے، سب کو ڈکیشن مل جاتی ہے۔ افتخار چوہدری دور میں از خود نوٹس کو کچھ لوگ جوڈیشل ایکٹو ازم سے تعبیر کرتے ہیں لیکن اس تجربے سے یہ واضح ہو گیا کہ عوام کی نبض پر ہاتھ رکھنا ہے تو ان سب کو رگیدنا ہوگا جو عوامی مسائل سے پہلو تہی کرتے ہیں۔

نیب اور سپریم کورٹ کو جو سپورٹ درکار تھی وہ ادارے فراہم کر ہی رہے ہیں۔ ترقی کے دعوؤں کی قلعی ہی نہیں کھل رہی بلکہ محسوس ہوتا ہے برائلر مرغی کی کھال اتر رہی ہو۔ پاناما کا معاملہ سر اٹھاتا ہے نواز شریف اور مریم نواز شریف نا اہل ہو جاتے ہیں سزا بھی ہو گئی۔ مگر رسی جل گئی بل نہ گیا تو لندن سے بلوا کر کس بل نکالے گئے۔ اب تو آنا جانا لگا رہے گا کبھی رائیونڈ تو کبھی اڈیالہ۔ واجد شمس الحسن نے لندن میں جو صندوق بند کیے تھے وہ بھی ابھی کھلنے ہیں، ایان علی اور عزیر بلوچ کسی بھی وقت وڈیو بیان جاری کر سکتے ہیں، حسین لوائی کی گرفتاری کس کی گردن کے گرد پھندا کس رہی ہے۔

فالودہ فروش اور طالب علم کے اکاؤنٹ میں اربوں روپے کیسے پہنچ گئے سب راز افشا ہونے ہیں اپنے اپنے وقت پر سپریم کورٹ نے ریاست کے اہم ستون کا خوب کردار نبھایا۔ کرپٹ عناصر کے خلاف پھندا کسا جانے لگا۔ اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کی باتیں بھی منظرِ عام پر آئیں لیکن چیف جسٹس کسی کو ڈھیل دینے کے موڈ میں دکھائی نہیں دے رہے، دے بھی کیسے سکتے ہیں، افتخار چوہدری تو اسلام آباد میں بیٹھے از خود نوٹس لیتے تھے یہ خود ہسپتالوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ ڈیم بنانے سے لے کر منرل واٹر پلانے والوں تک سب کو سیدھا کر کے رکھا ہے۔

مشرف دور میں تو دس برس والا معاہدہ بھی ہوا اور اس سے انکار بھی کیا اب بھی ہو گا۔ یہ جو والیم ٹین ہے اور ٹین پرسنٹ کے چرچے۔ اورنج ٹرین اور میٹرو کے بعد چھپن کمپنیاں اور ان کی چھپن چھپائی ابھی بہت کچھ افشا ہونے کو ہے۔ ذرائع کے مطابق 70 (ستر) سے 85 (پچاسی) سیاست دانوں اور بیورو کریٹس کی فہرست تیار ہے جنہیں آئندہ چند ماہ میں سلاخوں کے پیچھے جانا ہے۔ نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز، خواجہ سعد رفیق کا سیاسی مستقبل کیا ہے، امیر مقام جیسے عناصر کی جگہ کہاں ہے۔ کچھ عرصے میں سب دھند چھٹ جائے گی جمہوریت کے وینٹی لیٹر پر جن کی سیاسی زندگی ٹکی تھی اب ان کی سانسیں اکھڑ رہی ہیں جمہوریت کو تو کچھ نہیں ہوگا تاہم وہ اکھڑی سانوں کے ساتھ اکھڑی باتیں کر رہے ہیں۔

کہاں گئے اسفند یار ولی، مولانا فضل الرحمان، محمود خان اچکزئی، بلیک میلنگ ختم ہوئی۔ اب کیوں نہیں بولتے نہال ہاشمی، طلال چوہدری، دانیال عزیز جیسے نمک خوار اب اگر بولتے ہیں تو فواد حسن فواد بولتے ہیں اور وہ بھی شہباز شریف کے سامنے۔ احد چیمہ بھی بولتے ہیں۔ فواد حسن فواد کو تو بولنا ہی ہے کہ انہوں نے وزیر اعظم ہاؤس کا نمک کھایا اور ان بھینسوں کا تازہ دودھ بھی ضرور پیا ہوگا جو اب نیلام ہو چکیں۔ ویسے بھی فواد حسن فواد کو نیب میں شہباز شریف کے خلاف بولنا ظاہر کرتا ہے دونوں بھائیوں کی دال میں کچھ کالا نہیں بلکہ خاندانی شب دیگ سے جلنے کی بو بھی آ رہی ہے۔

فواد حسن فواد کے طوطے میں جان ڈالی گئی ہے اور یہ طوطا ٹائیں ٹائیں سب چوری کھانے والے مجنوؤں کا کچا چٹھا کھولنے کو ہے۔ رہی بات نو خیز اور نا تجربہ کار وزیر اعظم عمران خان کی۔ گھر کو آگ لگی گھر کے چراغ سے والی مثال صادق آتی نظر آ رہی ہے گیلی لکڑیوں کو پھونکوں سے جلانے کی کوشش میں جو دھواں اٹھ رہا ہے اس سے آنکھوں میں جلن اور سانس میں گھٹن ہے۔ بیورو کریسی خصوصاً گریڈ اکیس والے خان صاحب سے تعاون پر آمادہ نہیں کہ اِس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔

نئے پاکستان کے لئے کلین اینڈ گرین انقلاب کی تلقین اور لاکھوں گھروں کی منصوبہ بندی بجا مگر عمران خان کو دو بڑی رکاوٹوں کا سامنا ہے، ان کے کچھ اپنے ہی نشیمن پر بجلیاں گرانے کی تیاریوں میں ہیں، مستقبل قریب میں ممکن ہے کہ کچھ تحریکِ انصاف کی کچھ مقتدر اور اہم شخصیات کو منظر سے ہٹا دیا جائے اگر جہانگیر ترین کو سائیڈ لائن کیا جا سکتا ہے تو علیم خان کیوں نہیں اور اگر یہ پارلیمانی جمہوری نظام معیار پر پورا نہیں اترتا تو صدارتی نظام کی بازگشت بھی سنائی دے گی۔

پیغام تو سبھی الیکٹیبلز کے لئے واضح ہے ٹھیک ہو جاؤ ورنہ اندر جاؤ یا گھر جاؤ۔ کرنا وہی پڑے گا جیسا کہ سکرپٹ میں لکھا ہے اپنے کردار میں رہو گے تو فلم چلے گی ورنہ گندے انڈوں کی طرح کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پر نظر آو گے۔ ایک بیورو کریٹ سے میں نے پوچھا عمران خان چلتا نظر آتا ہے بولے مشکل ہے کہ ایک سال بھی نکالے لیکن نواز شریف اور زرداری کا بھی کوئی مستقبل نہیں۔ اب باریاں نہیں لگیں گی۔

شاید ہم پارلیمانی نظام سے صدارتی نظام کی جانب تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ منی لانڈرنگ سے متعلق برطانیہ سے معاہدہ پہلے کیوں نہ ہوا۔ ڈیم فنڈ میں رقم جمع کرانے والوں کا تانتا کیوں بندھا ہے، اور جو قابو نہیں آ رہے انہیں طلب کرکے ببانگِ دہل کیسے کہا جا رہا ہے کہ آپ پندرہ سو ارب روپے نکالو بہت ہو گئیں موجیں۔ اسحاق ڈار کیوں لندن میں دبک کر بیٹھ گئے ہیں۔ پاکستان کا نام بلیک لسٹ میں آنے کا خدشہ۔ کہیں بڑی مچھلیوں پر ہاتھ ڈالنے کے لئے تو نہیں۔

سوچنے کی باتیں ہیں کہ آن واحد میں منی لانڈرنگ اور مجرموں کے تبادلے سے متعلق برطانیہ کے ساتھ معاہدہ بھی ہو گیا۔ چین کو سی پیک میں مجوزہ تبدیلی پر کوئی اعتراض بھی نہیں ہے، ٹرمپ بھائی دھمکی اور تھپکی دونوں سے کام چلا رہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے کارپرداز اپنے اپنے کردار بخوبی نبھا رہے ہیں، یہ تو گرگ آشتی ہے جس نے آنکھ جھپکی یا ہوشیاری دکھانے کی کوشش کی دوسرے اسے بھنبھوڑ ڈالیں گے۔ ریاست ہے یا ریموٹ کنٹرول والا دیوار سے لگا ٹی وی جو نہ مانے اسے دیوار سے لگا دو اور گندا انڈا قرار دے کر نکال باہر پھینکو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2