انصاف ارزاں ہوا ، تاکہ نظام مضبوط رہے


جب جبر اور عدل میں فرق محسوس نہ ہوسکے تو اسے قانون کی حکمرانی نہیں کہا جاسکتا۔ پاکستان میں اس وقت وہی صورت حال موجود ہے۔ ملک میں آئین کے پاسبان چیف جسٹس ثاقب نثار نے جوڈیشل کونسل کی سربراہی کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت صدیقی کے خلاف جو فیصلہ کیا ہے وہ اس المناک صورت حال کی روشن مثال ہے۔ جب ایسی مثالیں قائم کی جائیں گی تو نہ آئین محفوظ ہوگا اور نہ ہی عوام کی حکمرانی کا تصور مستحکم ہو سکے گا۔ گو کہ پاکستان میں اس وقت ہر قابل ذکر عہدے پر فائز ہر شخص اسی بات کا دعویدار ہے کہ وہ عوام کی بہبود، ملک کی بھلائی اور آنے والی نسلوں کی بہتری کے لئے من تن دھن کی بازی لگائے ہوئے ہے۔ اس رویہ کے سرخیل چیف جسٹس خود ہیں ۔ جو بدعنوانی کے خاتمہ سے لے امور مملکت کو بہتر کرنے اور ڈیموں کی تعمیر جیسے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانا اپنی زندگی کا مقصد سمجھتے ہیں۔ لیکن کسی بھی عہدے پر فائز کسی بھی عاقبت نااندیش کی طرح چیف جسٹس ثاقب نثار یہ بھول رہے ہیں کہ تاریخ اپنا فیصلہ کسی جج کے قلم سے رقم نہیں کرواتی بلکہ خود تحریر کرتی ہے۔

تین ماہ بعد ثاقب نثار جب چیف جسٹس کے عہدے سے فارغ ہو کر اپنے گھر سدھاریں گے تو ان کی کارکردگی کا حساب اسی دن سے شروع ہو جائے گا۔ اگر انہیں یا کسی دوسرے کو اس بارے میں کوئی شبہ ہو تو وہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کا انجام دیکھ لے۔ ملک کی تاریخ میں مقبولیت کی انتہا دیکھنے والے اس شخص نے اپنے اختیار اور عہدہ کو جب آئین کی مقررہ حدود اور پیشہ وارانہ اخلاقی دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے استعمال کرنے کی بجائے ، اپنی صوابدید ، ذاتی پسند و ناپسند اور مفاد کے تحت برتنے کی ناروا کوشش کی تو آنے والے وقت نے ان کی حقیقت عیاں کرنے میں دیر نہیں کی۔

جمعرات کو سپریم جوڈیشل کونسل نے ایک تقریر  میں بعض ہوشربا انکشافات کرنے کے جرم میں جس طرح جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف کارروائی کو اپنی اخلاقی اور قانونی ذمہ داری قرار دے کر پورا کیا ہے، اس کی حقیقت سامنے آتے بھی دیر نہیں لگے گی۔ اس وقت بھی عام طور سے یہ سمجھا اور کہا جارہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی سابقہ حکومت سے ناراضی کی وجہ سے ملک کے سیاسی میدان میں ڈرامہ رچایا گیا تھا اور عدالتیں اس کا اہم حصہ بنی تھیں۔ انتخاب کے نتیجہ میں جن عناصر کو حکومتیں تفویض کی گئیں وہ بھی دراصل اسی خفیہ طاقت کے دست و بازو ہیں جو ریاست کا سارا اختیار اس کے اصل وارثوں یعنی عوام سے لے کر ان اداروں کے سپرد کرنا ہی قومی مفاد سمجھتے ہیں ، جنہیں دراصل منتخب حکومت کا پابند ہونا چاہئے۔

سپریم جوڈیشل کونسل کا فیصلہ سامنے آنے کے چند گھنٹے کے اندر صدر مملکت نے جسٹس شوکت صدیقی کی برطرفی کے حکم نامہ پر دستخط کئے اور پھر وزارت قانون نے رات بھیگنے سے پہلے جس سرعت سے اس حکم کا نوٹی فکیشن جاری کرکے شوکت عزیر صدیقی کو جج کے عہدے سے فارغ کرنے کا حکم صادر کیا ۔۔۔ اس کے بعد کون ذی فہم اس سچائی سے انکار کرسکے گا کہ اس وقت ملک میں کس کی حکومت ہے اور کون کون اس میں کٹھ پتلی کا کردار ادا کررہا ہے۔

اگر نوبت یہاں تک پہنچ جائے کہ برائی کرتے ہوئے اسے چھپانے کی کوشش بھی نہ کی جائے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ فیصلے، احکامات اور طریقہ کار درست ہو گیا ہے ۔بلکہ گمان اور بدگمانی کے بیچ فاصلہ کو کم کرکے دراصل اس لڑائی کو اب ایک واضح نام دیا جا رہا ہے۔ اس جنگ کے فریقین اب کھل کر سامنے آچکے ہیں۔ اب یہ لڑائی چند لوگوں کی لوٹ مار، منی لانڈرنگ، اقتصادی مسائل، انتظامی بدانتظامی اور وسائل کی تقسیم میں برتی جانے والی ناانصافی کے خلاف نہیں ہے۔ بلکہ اب ان استعاروں کو استعمال کرکے تمام اختیارات ملک کے عوام سے غصب کرکے اس مرکز جاہ و منصب کے حوالے کردینے کا اعلان کیا جا رہا ہے جس کی جبیں پر شکن آنے سے پہلے ہی عدالتیں بھی سربسجود ہونے پر مجبور ہوتی ہیں۔

اس سال جولائی میں راولپنڈی ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے ہائی کورٹ کے متنازع مگر سینئر جج جسٹس شوکت عزیر صدیقی نے یہ تہلکہ خیز انکشاف کیا تھا کہ ملک کی خفیہ ایجنسی عدالتوں میں اپنی مرضی کے بنچ بنوا کر فیصلوں پراثر انداز ہوتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ آئی ایس آئی نے اپنے نمائیندوں کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد انور خان کاسی کو یہ پیغام بھجوایا تھا کہ ادارے انتخابات سے پہلے نواز شریف کی رہائی نہیں چاہتے ، اس لئے کوئی ایسا بنچ نہ بنایا جائے جو ایسا ’انہونا‘ فیصلہ صادر کردے۔ اس پیغام میں خاص طور سے جسٹس شوکت صدیقی کو ایسے کسی بنچ میں شامل نہ کرنے کا اشارہ بھی دیا گیا تھا۔

جسٹس شوکت صدیقی اس سے پہلے بعض فیصلوں میں آئی ایس آئی کے دائرہ اختیار اور طریقوں پر حرف زنی کرتے رہے تھے۔ اس لئے ان کے خلاف ناپسندیدگی قابل فہم بھی تھی۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جو اپنی اس حیثیت کی وجہ سے سپریم جوڈیشل کونسل کے بھی سربراہ ہیں ، جسٹس شوکت صدیقی کی اس تقریر سے پہلے ہی ان کے خلاف جوڈیشل کونسل میں دائر ایک ریفرنس کی سماعت شروع کرچکے تھے۔ یہ ریفرنس کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ایک ملازم کے ذریعے دائر کروایا گیا تھا جس میں شکایت کی گئی تھی کہ جسٹس صدیقی نے اپنی سرکاری رہائش گاہ کی تزئین و آرائش پر استحقاق سے زیادہ وسائل صرف کرواکے اپنے اختیار سے تجاوز کیا تھا ۔ ان کا یہ طرز عمل ایک جج کے رتبہ اور شان سے متصادم ہے۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali