اب عمران خان حکومت چلا کر دکھائیں


عمران خان کو یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ وہ بہت دیر تک یہ کہہ کر کام نہیں چلا سکتے کہ وہ تو ابھی حکومت میں آئے ہیں ، اس لئے انہیں حالات کو سمجھنے اور ان کے مطابق فیصلے کرنے کا وقت دیا جائے۔ کیوں کہ جب حکمران پارٹی کی قیادت مقبولیت کے گھوڑے کو مہمیز دیتے ہوئے اپنی کمزوریوں کو چھپانے کی کوشش کرے گی تو وہ اپوزیشن کی بجائے خود کو زخمی کرنے کا سبب بنے گی۔ یوں بھی ملک کو جن اقتصادی اور سفارتی چیلنجز کا سامنا ہے، ان سے جوش و جذبہ، نعروں ، طنز اور مقبول سیاست کے ڈھونگ کے ذریعے نہیں نمٹا جا سکتا۔ اس کے لئے اہم ہے کہ حکمران جماعت ملک میں اطمینان اور سکون کی فضا پیدا کرے۔ مار دھاڑ اور پکڑ دھکڑ کے دعوے معاشی حالات کو مستحکم کرنے میں معاون نہیں ہو سکتے۔

حکومت کو معاشی استحکام کے لئے صرف آئی ایم ایف یا کسی بھی دوسرے ذریعے سے دس بارہ ارب ڈالر ہی کی فوری ضرورت نہیں ہے بلکہ اس مقصد کے لئے ملک میں خوشگوار اور تحفظ کا ماحول پیدا کرنا بھی اہم ہے تاکہ چھوٹا بڑا سرمایہ دار ہراساں ہونے کی بجائے دل جمعی سے معاشی احیا کے لئے کام کرسکے۔ اگر قومی پیداوار کا بنیادی مقصد حاصل کرنے کے لئے کام ہو سکے تو بیرونی قرضے بھی مل سکتے ہیں اور ان کی ادائیگی بھی ممکن ہوگی۔ بیرونی سرمایہ کار بھی ملک کا رخ کرے گا اور یہاں موجود سرمایہ دار بھی ملکی معیشت میں اپنا مستقبل محفوظ سمجھ کر دل جمعی سے کام کرے گا۔ لیکن اگر سیاسی بیان بازی سے بے یقینی کی کیفیت کو بڑھایا جائے گا تو یہ سنسنی خیزی صورت حال کو مزید خراب کرے گی جس کا خمیازہ ملک کے عوام کو تو بھگتنا ہی پڑے گا لیکن حکومت کے تسلسل لئے بھی یہ کوئی اچھی خبر نہیں ہو گی۔

کوئی حکومت نعروں اور دھمکیوں سے معاشی استحکام پیدا نہیں کرسکتی۔ اس مقصد کے لئے سرمایہ دار کی حوصلہ افزائی بنیادی شرط ہے۔ ٹیکس نیٹ بڑھانے اور حکومت کی آمدنی میں اضافہ کے لئے بھی اعتماد کی فضا اور مفاہمانہ ماحول پیدا کرنا ضروری ہے۔ حکومت کو اس گمان سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے کہ وہ کابینہ کے فیصلے یا پارلیمنٹ کے قانون کے ذریعے کوئی حکم نافذ کرکے ٹیکس میں اچانک اضافہ کا کوئی اقدام کرسکتی ہے۔ تحریک انصاف کی موجودہ حکومت سمیت ماضی کی سب حکومتیں اسی مجبوری کی وجہ سے بالواسطہ ٹیکسوں پر ہی انحصار کرتی رہی ہیں جن سے ملک کی غریب آبادی ہی براہ راست متاثر ہوتی ہے۔

چھوٹے سرمایہ داروں کو ٹیکس دینے پر آمادہ کرنے کے لئے ملک کے ٹیکس نظام میں اصلاح کے علاوہ لوگوں کو یہ باور کروانے کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ ٹیکس دینے کی صورت میں انہیں بعض ایسی سہولتیں حاصل ہوں گی جو ان کے کاروبار اور معاشی وسماجی رتبہ و حیثیت کے لئے اہم ہوں گی۔ عمران خان کے اس اعلان سے فرق نہیں پڑتا کہ ’میں یقین دلاتا ہوں کہ آپ کا ایک ایک پیسہ ایمانداری سے صرف ہو گا‘۔ ٹیکس دینے والے قومی مفاد یا حکومت کے فائدے سے پہلے اپنا فائدہ دیکھتے ہیں۔ یہ مزاج صرف پاکستان کا ہی خاصہ نہیں ہے بلکہ دنیا کے تمام سرمایہ دار اسی طرح سوچتے اور عمل کرتے ہیں۔ خوف کی بجائے اعتماد اور دباؤ کی بجائے ترغیب و تحریص ہی ملک کے نئے طبقوں کو ٹیکس دینے پر آمادہ کرے گی۔

ملک کو موجودہ معاشی مشکلات سے نکالنے کے لئے جس طرح حکومت کی دوست ملکوں سے غیر ضروری توقعات وابستہ کرلینے کی پالیسی غلط تھی اسی طرح بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے ایک اپیل پر اربوں ڈالر وصول کرنے کا خیال بھی خام تھا۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے چیف جسٹس کے جس ’ڈیم فنڈ‘ کو وزیر اعظم فنڈ میں بدلنے کا اعلان کرتے ہوئے ایک ہزار ڈالر فی کس کے حساب سے چندہ دینے کی جو اپیل کی تھی، اس کا خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہؤا۔ اب دنیا بھر میں پاکستانی سفارت خانوں کو مقامی پاکستانی باشندوں کو اس فنڈ میں چندہ دینے پر آمادہ کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ اس طریقہ سے بھی اتنی رقم وصول نہیں ہو سکتی کہ ملک کو درپیش زرمبادلہ کے مسئلہ سے نجات حاصل ہوجائے۔

تارکین وطن کو پاکستان سرمایہ بھیجنے پر آمادہ کرنے کے لئے بھی پاکستان کے حالات درست کرنے اور وہاں ان کے سرمایہ کو تحفظ فراہم کرنے کا میکینزم استوار کرنا اہم ہے۔ بیرونی ملکوں میں مقیم پاکستانی اپنے اہل خانہ کے لئے جو رقوم روانہ کرتے ہیں ان میں اضافہ کا امکان نہیں ۔ البتہ اگر ملک کے سماجی حالات اور انفراسٹرکچر بہتر ہو گا تو یہ پاکستانی ضرور پاکستان میں سرمایہ منتقل کرنے پر راغب ہوں گے۔ ماضی میں متعدد تارکین وطن کے تلخ تجربات نے اس رجحان کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ اوور سیز پاکستانیز بھی تب ہی پاکستان کی طرف رجوع کریں گے جب وہاں انہیں قانونی تحفظ اور سماجی احترام حاصل ہوگا۔ صرف حکومت کا اعلان ان ترسیلات میں اچانک اضافہ کا سبب نہیں بن سکتا۔

ان حالات میں ضمنی انتخابات میں مناسب سی کامیابی حاصل کرلینے کے بعد تحریک انصاف کو اب اعتماد کے ساتھ ٹھنڈے دل سے امور مملکت کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ ہیجان اور خوف کی فضا کو ختم کیا جائے۔ بنیادی حقوق اور آزادی اظہار کو یقینی بنایا جائے۔ ایسے اقدامات اور بیان بازی سے گریز کیاجائے جس سے حکومت کی گھبراہٹ اور بدحواسی کا اظہار ہوتا ہو۔ اس سلسلہ میں پہلے اقدام کے طور پر عمران خان اگر بولنے سے پہلے سوچ لیا کریں تو صورت حال میں مناسب تبدیلی واقع ہو سکتی ہے۔ اسی طرح اگر فواد چوہدری کے بیان بازی کے شوق پر مناسب قدغن عائد ہوسکے تو حکومت کی صحت میں افاقہ کا کافی امکان ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2771 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali