کربِ خلق


کسی بھی ملک کے لوگوں کے مزاج کو ناپنے کا آسان پیمانہ ٹریفک میں نظم و ضبط، نیز قوانین کی پابندی ہے۔ وطنِ عزیز یوں توعموماً بے تحاشہ مسائل کا شکار ہے، لیکن خصوصاً کراچی تو یوں لگتا ہے کہ مسائل کا انبار اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ جن میں سے ایک اہم اور گھمبیر مسئلہ، بے ہنگم ٹریفک اور نامناسب ٹرانسپورٹ ہے۔ لگ بھگ دو کروڑ سے زائد آبادی کا شہر ہونے کے باوجود ماس ٹرانزٹ تو دور کی بات ہے، مناسب پبلک ٹرانسپورٹ بھی میسر نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے نجی گاڑیوں میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ لاکھوں بائکس، چنگچی اور آٹو رکشوں کی بھرمار کی وجہ سے شہر کی سڑکوں پر دفاتر اور اسکول آ نے جانے کے اوقات میں ٹریفک کچھوے کی چال چل رہا ہوتا ہے۔

ایسے میں کسی مریض کو اسپتال لے جانا ہو، یا کسی کو ایئرپورٹ جانا ہو، تو بے بسی کا احساس اور بھی شدید ہو جاتا ہے۔ سونے پہ سہاگا، اگر کوئی وی آئی پی موومنٹ یا پروٹوکول ہو تو اس شہر کے باسی اپنی قسمت سے نالاں نظر آتے ہیں۔

بس ڈرائیور ٹوکن ٹائم کی وجہ سے تیز رفتاری سے ڈرائیونگ کرتے ہوئے مقررہ اسٹاپ تک قبل از وقت پہہچنے کی کوشش میں حادثات کا شکار ہو جاتے ہیں، اور قیمتی انسانی جانوں کے زیاں کا سبب بنتے ہیں۔ بس کنڈکٹر بھی ایک الگ ہی مخلوق ہے، جسے بھری ہوئی بس بھی خالی نظر آتی ہے۔ مسافروں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ٹھونس کر بھرنے میں اس کا کوئی ثانی نہیں ہے؛ نیز زنانہ حصے میں مردوں کو سوار کرانا مسافر خواتین کے لیے ذہنی اذیت اور کوفت کا باعث بنتا ہے۔

من چلے موٹر سائیکل سوار لڑکوں کے گروہ شہر کی سڑکوں پر کرتب دکھانے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ ایک وہیل پر موٹر سائیکل چلانا، یا ہاتھ چھوڑ کر یا لیٹ کر چلانا۔ یہ نظارے اس شہر کے باسیوں کے لیے معمول کی بات ہیں۔ ان کے حادثات کی خبریں، اکثر اخبارات میں شایع ہوتی ہیں۔ سڑک پار کرنے والے حضرات بھی ان کی تیز رفتاری کا شکار ہو جاتے ہیں۔

چنگچی، رکشوں اور بسوں کا جگہ جگہ رک کر سواریاں اٹھانا، تو ٹریفک کی روانی متاثرکرنے کا سببب بنتا ہے ہی، رہی سہی کسر سڑک کنارے قائم پتھاروں اور غیر قانونی پارکنگ نے پوری کردی ہے۔ سڑکیں پہلے ہی تنگی کا شکار ہیں ان عوامل کی وجہ سے مزید تنگ ہو جاتی ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ٹریفک کی روانی برقرار رکھنے کے لیے پتھارے، تجاوزات اور غیر قانونی پارکنگ ختم کی جائے۔ بسوں اور رکشوں کو اسٹاپ پر رکنے کا پابندکیا جائے۔ موٹر سائیکل پر کرتب دکھانے والوں سے سختی سے نبٹا جائے۔ ہیوی وہیکل یا گڈز ٹرانسپورٹ کو دن کے وقت شہر میں داخلے کی اجازت نہ دی جائے۔ ٹرانسپورٹ کا شعبہ ماضی کی طرح سرکاری سرپرستی میں چلایا جائے، نیز سرکلر ریلوے پر بھی توجہ دی جائے۔

یہ چیدہ چیدہ گزارشات ہیں جن پر عمل در آمد شہرِ قائد کے باسیوں کی ذہنی اذیت میں کمی کا سبب بنے گا، نیز ایکسیڈنٹ کی روک تھام اور قیمتی انسانی جانوں کو بچانے کا ذریعہ بھی بنے گا۔

ارشد علی، کراچی
Latest posts by ارشد علی، کراچی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).