میں بھی لبرل ہوں پر اصلی والا


محترم سید معظم معین صاحب کا لبرلز کے حوالے سے آرٹیکل پڑھا جس کے بعد موضوع پر لکھنے کی کوشش کی ہے ۔معظم صاحب نے لبرلز کی چار اقسام بیان کی ہیں ،تاہم میری نظر میں لبرلز کی دو ہی اقسام ہیں دیسی لبرلز اور اصلی لبرلز ،ہمیں تفصیل میں جانے سے سے قبل لبرلز کی تاریخ کے بارے میں جاننا ہو گا ۔مغربی دنیا کے جن لوگوں کو لبرلز ماڈل کے طور پر لیا جاتا ہے ان کی چند خصو صیات ہیں ،یہ لوگ پڑھے لکھے ہوتے ہیں،منطقی انداز میں بحث کرتے ہیں، مذہب کو انسان کا ذاتی معاملہ سمجھتے ہیں،خواہ مخواہ دوسروں پر اپنے نظریات مسلّط نہیں کرتے،دلیل سے بات کرتے ہیں، عدم تشدد کے فلسفے پر یقین رکھتے ہیں،جمہوریت اور شخصی آزادی کے حامی ہوتے ہیں،عورتوں اور اقلیتوں کے حقوق کے علمبردار ہوتے ہیں،جذباتی اور کھوکھلے نعروں کی آڑ میں مقبول نقطہ نظر کی حمایت نہیں کرتے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ غریب اور پسے ہوئے طبقات کے حق میں آواز بلند کرتے ہیں مگر خود غریب نہیں ہوتے۔

اگر ہم لبر ل ازم کی تاریخ کا بغور مطالعہ کریں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ لبرل ازم کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی ہماری جمہوری تاریخ ۔ لبرل ازم کا آغاز 16ویں صدی میں ہوا جب لوگوں میں اس شعور نے جنم لینا شروع کیا کہ ہم کسی بھی پابندی کے بغیر اپنی سوچ کے تحت اپنی مستقبل کی پیش بندی کر سکتے ہیں ۔ چند لوگ اپنی مرضی کے فیصلے ان پر مسلط نہیں کر سکتے خاص طور پر مذہبی لوگ کیونکہ 16ویں صدی تک یورپ میں چرچ کا راج تھا کوئی بھی فیصلہ چرچ کی منشا اور مرضی کے بغیر نہیں کیا جاسکتا تھا۔یہاں تک کہ بادشاہ کا انتخاب بھی چرچ ہی کرتا تھا ، اگر کبھی کبھار بادشاہ سے چرچ ناراض ہوجاتا تو بادشاہ کو حکومت جانے کی فکر لاحق ہوجاتی تھی یہ اصل لبرلز کی ہی تحریکیں تھیں جن کی بدولت لوگوں کو آواز ملی لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق ملے یہاں تک کہ جمہوریت جسے آج ماڈرن دنیا حقوق کی علمبردار یعنی ضمانت سمجھتی ہے ۔یہ تمام لبرلز کی مرہون منت ہے۔

اب آتے ہیں لبرل لفظ کے مفہوم کی طرف لبرل ازم کا معنہ اور مفہوم آزادی کے ہیں سوچ ، فکر ،تعلیم روزگار ، بولنے کی آذادی وغیرہ گویا ایک ایسی سوچ کی شروعات جس پر کوئی قدغن نہ ہو یہی دراصل لبرل ازم ہے لفظ لبرل کا سب سے پہلے استعمال ایک آرٹ نمو نہ میں ہوا یہ غالبا 1375 یا 76کی بات ہے ،جب آرٹ نمونہ آزاد انسان کے نام سے بنایا گیا جس میں تعلیم کو انسان کی بنیادی ضرورت قرار دیا گیا پھر آگے چل کر اس لفظ کا مزید استعمال ہمیشہ سے جدت کے لیے ہی استعمال ہوتا نظر آتا ہے ،جس کا مقصد معاشرے میں نئی سوچ اور تبدیلی لانا کے ہیں۔ ایک ایسی تبدیلی جس میں تمام کے حقوق برابر ہوں تمام کو آگے جانے کے یکساں مواقع میسر ہوں اور یہی نظریہ بعد میں برطانیہ کی سب سے قدیم سیاسی جماعت لیبر پارٹی کی پالیسی سازی کی بنیاد بنا. دراصل ایک انگریز فلاسفر تھامس ہل گرین نے ماڈرن دنیا میں اس سوچ کی بنیاد رکھی جسے بعد میں مثبت آزادی کے نام سے جانا گیا اور یہی نظریہ بعد میں آج کی جدید فلاحی ریاستی ماڈل کی بنیاد بنا ،گویا آج دنیا میں انسانی حقوق کا تحفظ ، معاشی آزادی ، حقوق کی برابری ،سوچ اور فکر میں آزادی ان لبرلز کی مرہون منت ہے جن میں سے سے بیشتر یورپی حکومتی کے خلاف آواز اٹھانے کی پاداش میں تختہ دار پر لٹک گئے لیکن لوگوں کو ان کے حقوق دلائے۔

اب آتے ہیں ہمارے ہاں پائے جانے والے لبرلز کی طرف ایک نقطہ میں اوپر بیان کرنا بھول گیا کہ کہ اصل لبرلز کبھی کسی کے مذہبی شعائر کا مذاق اڑاتے نہیں دیکھے گئے اس حوالے سے تاریخ ایک کھلی کتاب کی مانند ہے اس کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے تاہم ہمارے ہاں دیسی لبرلز کا پہلا حملہ ہے ہی مذہب اور اس کے شعائر پر ہوتا ہے گویا ہمارے لبرلز پہلے ہی امتحان میں فیل ہو گئے ہمارے ہاں لبرلز ریاست کی ہر پالیسی کو نشانہ بناتے ہیں اور ایک ایسی آزادی چاہتے ہیں جس میں کسی کے جذبات تک شامل ہوں اپنی زبان پر سب سے زیادہ تنقید کرتے ہیں حالانکہ ماضی کے اصل لبرلز میں ایسی کوئی بات نہیں پائی جاتی زبان ایک رابطہ کا ذریعہ اور قوم کی تاریخ کا ذ خیرہ ہے جو عام طور پر آسان فہم ہونا چاہیے۔ ہمارے لبرلز 99 فیصد کو محض اس لیے قابل تضحیک سمجھتے ہیں کہ انہیں اپنی قومی زبان پر تو عبور ہے تاہم انہیں بدیسی زبان انگریزی نہیں آتی۔ اصل لبرلز سڑک پر لوگوں کی آواز بلند کرتے رہے اور انعام میں کوڑے پھانسیاں اور قید کے طلبگار رہتے ہمارے لبرلز فائیو سٹار ہوٹلز میں بیٹھ کر ٹھنڈے یخ بستہ ماحول میں ان مزدوروں کی بات کرتے ہیں جو 49درجہ حرارت میں محنت اور مشقت میں مصروف ہوتے ہیں

ہمارے لبرلز اپنے بچوں کو اعلی تعلیمی اداروں میں بھیجتے ہیں اور وہیں غریب بچوں کا داخلہ ان سکولوں میں محض اس لیے روکتے نظر آتے ہیں کہ کہیں ان غریب بچوں کی صحبت کی وجہ سے ہمارے بچے بھی غریبوں کی طرح نہ سوچنے لگیں یعنی ہمارے بچوں کی ماڈرن سوچ اور غریب کی سوچ ایک نہیں ہونی چاہیے وہیں ہمارے لبرلز جن غریب لوگوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا تک نہیں پسند کریتے یہاں تک کہ گھریلو ملازمین کے لیے برتن بھی علیحدہ رکھے جاتے ہیں کہ کہیں دیسی لبرلز اور ان کے گھر کا ملازم ایک برتن میں نہ کھالیں اور اگر ملازم نے دیسی لبرل کے برتن میں کھانا کھا لیا تو برتن فورا توڑ دیا جاتا ہے گویا کسی ناپاک جانور نے برتن میں کھا لیا ہوں اور تو اور چند ماہ قبل لبرلز کے ایک گروہ نے اسلام آباد کلب کی مسجد میں ملازمیں کے نماز پڑھنے پر پابندی لگا دی کیونکہ ان ملازمین کی وجہ سے کلب کی مسجد کا معیار گر رہا تھا۔۔۔ ﷲ توبہ ۔۔۔

اور تو اور لبرلز نے اپنے پارکوں میں کتوں کے ساتھ جانے کی اجازت تو دے دی تاہم ملازمین کے داخلوں تک کو بند کردیا۔ سوشل میڈیا کے دور میں لبرلز اپنی بات کو حرف اخر سمجھتے ہیں اور دوسروں پر اپنے رائے تھوپتے نظر آتے ہیں ۔ قصہ مختصر ہمارے لبرلز لبرالزم کا لبادلہ اوڑھنے میں اتنے جلدی میں ہیں کہ انہیں اصل راستہ ہی بھول گیا ہے اور اب وہ ایک پگڈ نڈی پر چڑھ بیٹھے ہیں جہاں سے اوپر جان اور نیچے اترنا دونوں کام ان کے لیے مشکل ہیں اگر اصلی لبرل ہوتے تو نیچے آنے میں ہی بڑائی تصور کرتے کیونکہ یہ دیسی ہیں اس لیے ڈھٹائی سے اوپر چڑھنے کی کوشش صرف اس لیے کررہے ہی کہ ان کو دیکھنے والے لوگ کہیں یہ نہ سمجھیں کہ ہم ہار رہے ہیں۔

اندھی تقلید نے ان لبرلز کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔ ان کا سماجی نظام اور عایلی زندگی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ مجھے چند ماہ قبل ایک لبرل گھرانے کی فوتگی میں جانے کا اتفاق ہوا گھر کی مالکن یعنی لبرل کی ماں کا انتقال ہوا تھا جب میں ان کے گھر پہنچا تو رونے کی بجائے میں نے چیخنے چلانے کی آوازیں زیادہ سنیں معلوم کرنے پر پتہ چلا کے چیخنا موت کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ میت کو جلد از جلد گھر سے نکالنے پر تھا دیسی لبرل کی دیسی لبرل بیوی اس بات پر ضد اور اصرار کررہی تھی کی میت کو ابھی یہاں سے ہسپتال شفٹ کرو جنازے میں 5گھنٹے کا وقت باقی ہے ہمارے بچے میت کے گھر ہونے کی وجہ سے ڈر رہے ہیں۔ یہ حال ہمارے دیسی لبرلز کا ہے۔ لبرل ہونا نہ ہی کوئی گناہ ہے اور نہ ہی کوئی بری چیز بلکہ یہ ایک نہایت ہی مثبت سوچ کیساتھ آگے بڑھنے کانام ہی لبرل ازم ہے۔ تاہم ضروری ہے کہ لبرل بننے سے پہلے لبرل ازم کی تاریخ ضرورپڑھ لیں کیونکہ ولایتی اور دیسی میں فرق پائیداری کا ہی ہوتا ہے ،مجھے بھی لبرل ہونے پر فخر ہے مگر اصلی لبرل ہونے پر۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).