طلبہ تنظیمیں: یہ کس راہ چل دیے ہو


پاکستان چودہ اگست انیس سو سینتالیس کو معرض وجود میں آیا۔ دنیا نے صرف اس ملک کا وجود دنیاکے نقشے پر ابھرتادیکھا۔ لیکن اس کے پیچھے کی جانے والی جدوجہد اورملک حاصل کرنے کے لئے دی جانے والی قربانی پر کسی کی توجہ نہیں گئی۔ اگر اس ملک کے پس منظر کی بات کریں تو لاکھوں کروڑوں افراد جن میں بچے، بوڑھے، خواتین، مرد اور خصوصا نوجوانون کی بڑی تعداد شامل تھی۔ اپنی دولت، جان سب کچھ قربان کرکے اس وطن کی لکیریں اپنے خون سے سینچی ہیں۔ پاکستان آزاد تو ہوگیامگر بہت قربانیوں کے بعد۔ آزادی کے بعد جن مسائل کا سامنا تھا ان میں پانی، رہائش، مہاجرین کی آبادکاری وغیرہ کے مسائل بھی شامل تھے۔

سب سے اہم مسئلہ تعلیم کا بھی تھا۔ جسے حل کرنے کے لئے 1951میں کراچی شہر میں ایک بڑی سرکاری جامعہ کی بنیاد رکھی گئی۔ ان جامعات میں طلبہ تنظیمیں بھی قائم ہوئی۔ یہ طلبہ تنظیمیں غریب اورمتوسط طبقے کی سیاسی نرسریاں سمجھی جاتی تھیں۔ یہ تنظیمیں جامعات میں طالبعلموں کو درپیش مسائل کے حل کے لئے بنائی گئی تھیں۔ ان تنظیموں کے ذریعے ملک کو سیاسی قیادت بھی ملی ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سینیئر رہنما اور سینیٹر افراسیاب خٹک بھی طلبہ تنظیموں سے ابھرکر ایوان تک پہنچے۔ ماضی میں ان تنظیمون کا مقصد طالبعلموں کے مسائل کےحل اور ان کی رہنمائی کرنا تھا۔

مگر بعد میں یہ اپنے مقاصد سے ہٹ گئے۔ آئے دن ہوئے طلبہ تنظیموں میں تصادم ایک دوسرے کے لئے نازیبا الفاظ کا استعمال اورسیاسی طاقت کا حصول ہی ان کا مقصد بن کر رہ گیا ہے۔ کیا یہ وہی نوجوان طبقہ ہے جس نے ماضی میں بانی پاکستان کے ساتھ ملکر انتھک کوشش اور جدوجہد کرکے ملکی آزادی میں حصہ ڈالا تھا۔ مگر اب ہمارے اندر صبر ختم ہوگیا ہے۔ ہم ایک دوسرے کی اور خاص کرکے خواتین کی تعظیم نہ ہوکر رہ گئی ہے۔ جامعات میں آئے تو پڑھنے کے لئے تھےمگر نہ جانے کون سی راہ چل دیے۔ ماں کےشکم سے جنم لے کر ماں کے ہاتھوں پل بڑھ کر دوسرے کی ہی ماں کے لئےبرے القابات اور نازیبا الفاظ کا استعمال معمول بن کر رہ گیاہے۔ کیا اسی طرح ملک کا اپنےوالدین کا اور اپنا مستقبل روشن کریں گے۔ ذرا سوچیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).