عمران خان بنام سمندر پار پاکستانی


عمران خان نے قوم پر ان گنت یقین دہانیاں ٹھونسی ہیں کہ ان میں صلاحیت موجود ہے کہ حکومت میں آتے ہی وہ سمندر پار پاکستانیوں کو ملک میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے لیے راغب کر لیں گے۔ مگرعمران خان کے دکھائے گئے دیگر خوشگوار سپنوں کی طرح یہ بھی محض ایک سپنا ہی رہ گیا ہے۔ گزشتہ دو ماہ کے دوران، جب سے عمران خان نے حکومت سنبھالی ہے، زمینی حقائق حیران کن حد تک مختلف نظر آئے ہیں۔

قیاس آرائی کے گھوڑے پر سوار وزیر اعظم عمران خان اور ان کے معاشی شعبدہ باز اسد عمر نے سمندر پار پاکستانیوں کو بذریعہ بینک ایک ہزار ڈالر فی کس کے حساب سے رقم بھیجنے کی ترغیب دی تھی تا کہ زرمبادلہ کے ذخائر کی کمی کا مسئلہ حل ہو سکے، مگر اس سے بھی صفر کے قریب ہی نتائج برآمد ہوئے ہیں۔

سٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعدادوشمار کے مطابق اگست 2018 میں، یعنی انتخابات اور وزیر اعظم کے اس ڈھنڈورا پیٹنے کے ایک ماہ بعد، سمندر پار پاکستانیوں کی ترسیلات زر میں 2017 اگست کے مقابلے میں صرف 4.24 فیصد کا معمولی اضافہ ہوا۔ مگر اس کا سبب بھی سالانہ معمول کے مطابق ہونے والا اضافہ اور عید قربان کو قرار دیا جا سکتا ہے جو اس سال اگست میں آئی۔ اس کے مقابلے میں جولائی میں بیرون ملک سے بھیجی جانے والی رقوم میں 25 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ اس سے ثابت ہوا کہ سمندر پار پاکستانی عمران خان کی اپیلو ں پر ٹس سے مس نہیں ہوئے۔

بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا جذبات سے عاری رویہ مزید اس حقیقت سے کھل کر سامنے آ جاتا ہے کہ ضمنی انتخابات کے دوران ووٹ ڈالنے کے اولین موقع پر ووٹ دینے کے اہل افراد سمندر پار پاکستانیوں میں سے صرف ایک فیصد نے ووٹ دیا۔ یعنی 500000 میں سے صرف 5000 کے لگ بھگ ووٹ۔

تحریک انصاف کی حکومت پر یہ بات کھل کر سامنے آ جانی چاہیے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے پاکستانی سیاست میں اس انتہائی پست درجے کی دلچسپی کے ساتھ، جبکہ وہ ووٹ دینے میں بھی دلچسپی نہیں دکھاتے، تو ان کی محنت کی کمائی سے حکومت کچھ حصہ کس طرح لے سکتی ہے۔

شاید بیرون ملک مقبولیت پر بے جا بھروسہ عمران خان کو اکسا رہا تھا اور سادہ لوح ذہنیت کے ساتھ وہ پچھلے 20 سال کے دوران شوکت خانم ٹرسٹ کے لیے ملنے والی خیرات کا تذکرہ کر رہے تھے۔ شوکت خانم ٹرسٹ کے کل عطیات پچھلے سال، اندرون اور بیرون ملک پاکستانیوں کے عطیات کل ملا کر، مجموعی طور پر تین ارب روپے ( 22 ملین ڈالر ) تک تھے۔ اس مجموعی رقم میں سمندر پار پاکستانیوں کا حصہ اگرچہ ظاہر نہیں کیا گیا، مگر ان عطیات کا تعلق سیاست یا قومیت کے ساتھ تعلق نہیں کہ یہ مکمل طور پر انسانی ہمدردی کے جذبے کے تحت دیے گئے تھے، اور سال میں 22 ملین ڈالر وہ زیادہ سے زیادہ رقم ہے جو عمران خان برانڈ اکٹھی کر سکا ہے۔

اب شوکت خانم ٹرسٹ کے اس سالانہ چندے کا ان اربوں ڈالر سے موازنہ کریں جس کا عمران خان نے قوم کو یقین دلا رکھا ہےکہ وہ سمندر پار پاکستانیوں سے جمع کر کے دکھائیں گے۔ مگر ان کی حکومت کے پہلے دو ماہ کے رجحانات سے نظر آتا ہے کہ یہ دعوی بہت بڑے مبالغے پر مبنی ہے۔ یہ ایک کھوکھلا دعوی معلوم ہوتا ہے جس کا نتیجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

اور جب ہم وزیر اعظم اور چیف جسٹس کے مشترکہ ڈیم فنڈ میں سمندر پار پاکستانیوں کا حصہ دیکھتے ہیں تو مزید واضح ہو جاتا ہے کہ تاش کا یہ اکا کس طرح جوکر ثابت ہونے جا رہا ہے۔ دستیاب ڈیٹا کے مطابق ڈیم فنڈ میں سمندر پار پاکستانیوں کا حصہ پانچ فیصد سے بھی کم ہے۔ امریکہ میں مقیم پاکستانی جو ہر ماہ آدھ ارب ڈالر کے قریب رقم پاکستان بھیجتے ہیں، ستمبر تک ان کی جانب سے ڈیم فنڈ میں دی جانے والی کل رقم صرف 50000 ڈالر یا 57 لاکھ روپے کے قریب تھی۔ یہ رقم امریکی پاکستانیوں کی ماہانہ ترسیلات زر کا 0001۔ فیصد بنتی ہے۔

بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ڈالربھیجنے کے لیے متحرک کرنے کی اصل حکمت عملی شاید انہیں معاشی فوائد فراہم کرنے میں ہے۔ تحریک انصاف کی جانب سے حال ہی میں سمندر پار پاکستانیوں کے لیےپیکیج ٹھوس ترغیبات سے خالی معلوم ہوتا ہے۔ گرین چینل اور نادرا کی جانب سے جاری کیے گئے سپیشل ایکس پیٹس کارڈ، گورنمنٹ بانڈز اور نیشنل سیونگ سرٹیفکیٹس میں ان کے لیے زیادہ شرح منافع، مارکیٹ ریٹ سے 5۔ 3 فیصد زیادہ، کیونکہ وہ ڈالر لاتے ہیں اور انہیں روپے میں ادائیگی کی جاتی ہے۔

اس سے بڑھ یہ کہ حکومتی زمین پر بننے والی ہاوسنگ سوسائٹیز، جہاں ابتدائی ڈیویلپمنٹ کا کام بھی حکومت نے کروایا ہے، سمندر پار پاکستانیوں کو سبسڈی (نجی کالونیوں کے مقابلے میں 75 فیصد سستی) پر اور فراڈ کے خلاف حکومتی گارنٹی پر پلاٹ دیے گئے۔ علاوہ ازیں زیادہ دولت مند پاکستانیوں کو گرین فیلڈ اور براون فیلڈ انڈسٹری میں 10 سال کے لیے ٹیکس معافی کی پیش کش کی گئی۔

سرمایہ صرف تحفظ اور فائدے کا پیچھا کرتا ہے، یہ خوابوں، نصیحتوں اور امیدوں کی نہیں سنتا۔

عمران باجوہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمران باجوہ

مصنف کو تحقیقی صحافت کے لیے اے پی این ایس کی جانب سے ایوارڈ مل چکا ہے۔

imran-bajwa-awon-ali has 17 posts and counting.See all posts by imran-bajwa-awon-ali