ڈھیلا پجامہ ایٹ ہاٹ میل ڈاٹ کام


میں پاپا کے ایک آفس میں بیٹھتا ہوں۔ زیادہ تر تو وہی کرتا ہوں جو پاپا کہتے ہیں اور یہ کرنا ضروری ہے کیونکہ کل یہ سب کچھ مجھے ہی سنبھالنا ہے، ساتھ میں لڑکیوں کا شوق بھی لگ گیا ہے اور اس شوق میں آسانی بھی بہت ہے۔

ایسا بڑا پیسوں کا خرچا بھی نہیں۔ بات یہ ہے کہ ہوٹل میں کمرہ لینا پڑتا ہے۔ اس کا خرچا ضرورہے، میں نے اصول بنایا ہے۔ آفس، گھر اپنے جاننے والوں کے فلیٹ، اپارٹمنٹ کسی بھی جگہ ان لڑکیوں کو لے جانا نہیں ہے، کسی سے ملانا نہیں ہے۔ اس میں بڑی مشکل ہوسکتی ہے۔ ابھی تک تو یہی ہوا ہے کہ لوٹ لیا اور غائب ہوگئے تو وہ بے چاری انٹرنیٹ پر ہی تلاش کرتی رہتی ہے۔ پیغام چھوڑتی ہے، تھوڑا روتی بھی ہوگی، غصّہ بھی کرتی ہوگی، الٹی سیدھی باتیں لکھتی ہے مگر پھر کون سنتا ہے۔ بدنامی تو میری نہیں ہوتی ہے، اسی کی ہوتی ہے۔ میرا تو کوئی نام نہیں ہے یا ہو ڈوٹ کام یا ہاٹ میل ڈوٹ کام ایسے تو لاکھوں ہیں کروڑوں جن کا نہ نام ہے نہ پتہ۔ اور اگر بہت شور کیا بڑی دھمکی دی تو اپنے موبائل فون سے کھینچی ہوئی تصویر ای میل کردیتا ہوں کہ اب اگر بکواس کی تو یہ تصویر ہر جگہ چلی جائے گی۔ بہت کامیاب حربہ ہے یہ!

شروع شروع میں تو میں پہلی ملاقات ہی ہوٹل کے کمرے میں کرتا تھا۔ اس میں آسانی تھی۔ فائیو اسٹار ہوٹلوں میں کمرہ لینا کیا بڑی بات ہے۔ چار پانچ ہزار میں چوبیس گھنٹے کے لیے کمرہ مل جاتا ہے۔ میل پر ہی طے ہوجاتا ہے وقت بھی، جگہ بھی، صرف کمرہ نمبر بتانا ہوتا ہے اور وہ ملنے چلی آتی ہے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوا کہ صبح کسی سے ملاقات اور رات کسی اور سے۔ مگر یہ پالیسی بدلنی پڑ گئی۔ بات ہی کچھ ایسی ہوگئی تھی۔

ہوا یہ کہ ایک لڑکی سے بات بڑی لمبی ہوگئی۔ اس نے بہت کچھ لکھا مجھے۔ لکھا تو سب کچھ سچ سچ، بڑے باپ کی بیٹی تھی۔ پیسہ بھی بہت تھا اور باتوں سے خوبصورت بھی لگی۔ وہی بڑے گھروں کی کہانی۔ باپ کے پاس وقت نہیں تھا اس کے لیے، دو بہنیں شادی شدہ اپنے اپنے گھروں میں، ایک بھائی تو وہ بھی باپ کے ساتھ مصروف اور ماں گھرداری رشتہ داروں اور دوستوں کی محفلوں میں مصروف۔ اس کے لیے وقت ہی نہیں تھا۔ میرے پاس وقت بھی تھا، باتیں بھی تھیں اور باتیں کرنے کا انداز بھی تھا۔

میں نے عادت کے مطابق اسے پہلے ہی جھٹکے میں اپنے آنکڑے میں اُتار لیا۔ وہی خوبصورت باتیں، پیار محبت کی باتیں اور یہ کہ اس سے باتیں کرکے مجھے پتہ لگا کہ زندگی کی حقیقت کیا ہے۔ میں کہ جو ایک Lonely Heart لے کر گھوم رہا ہوں۔ مجھے کسی نے پیار نہیں دیا وغیرہ وغیرہ۔ پھر شادی کی اور شادی کے بعد زندگی بھر اس کے ساتھ گزارنے کا وعدہ اور ان وعدوں کو نبھانے کا وعدہ کرتا چلا گیا۔ وہ پھنستی چلی گئی۔

گھنٹوں راتوں کو آن لائن چیٹ کرنا پڑا اس سے اور پھر اندازہ ہوگیا کہ وہ دامِ اُلفت میں گرفتار ہوگئی ہے تو پھر اسے ملنے کے لیے بلایا لیا تھا میں نے۔ اس دعوت کا وہ انتظار ہی کررہی تھی۔
پرل کانٹی نینٹل میں کمرہ نمبر تین سو تین ملا تھا اس دن مجھے۔ میں عام تیاریوں کے ساتھ یعنی سرخ گلاب کے پھول اور خوشبو لگاکر وقت پر کمرے میں پہنچ گیا اور ساتھ پی آئی ڈی سی سے خوشبو والے چار پان بھی لینا نہیں بھولا تھا۔ یہی اسٹائل تھا میرا۔

پھر ہوا یہ کہ کمرے پر دستک ہوئی تھی اور جب میں نے دروازہ کھولا تو وہ سامنے کھڑی تھی۔ لیکن آنے والی جو بھی تھی، حقیقت میں میری بہن تھی۔ ایک لمحے میں میرا دماغ نہ جانے کتنی دفعہ گھوما ہوگا مجھے اندازہ ہے اس کا اور اس کی شکل پر جو کچھ ہورہا تھا اس کا بھی اندازہ ہے مجھے مگر نہ جانے کیسے یکایک، یکدم ایک بہانہ کسی بجلی کی چمک کی طرح میرے دماغ میں چمکا اور سب پر قابو کرلیا میں نے۔

”تمہیں یہاں نہیں آنا چاہیے تھا۔ اسے بھگا دیا ہے میں نے اس وعدے کے ساتھ کہ وہ تمہیں کبھی میل نہیں کرے گا۔ اس کی ہڈّی توڑ دی ہے میں نے۔ میں نے تمہارا کمپیوٹر چیک کیا تھا۔ کیسے یہ مت پوچھو، بھائیوں کو کرنا پڑتا ہے، بہنوں پر نظررکھنی پڑتی ہے، کوئی دھوکہ تو نہیں دے رہا۔ دنیا عجیب جگہ ہے طرح طرح کے لوگ ہیں یہاں پر۔ بس اب گھر چلو اور آئندہ کبھی بھی اس قسم کے چکروں میں نہ پڑنا۔ اس طرح کے لوگوں نے تو یہ کاروبار پھیلایا ہوا ہے معصوم لڑکیوں کو پھنساتے ہیں اور پھر غائب ہوجاتے ہیں۔ شکر ہے کہ میں نے تمہارا ای میل چیک کرلیا اور تم اس مصیبت سے بچ گئیں۔ “

یہ سب کچھ ذہن میں یکایک اُگا اور میں نے بڑی باکمالی سے اسے سمجھا بھی دیا۔ آخر میں میں یہ بھی کہہ بیٹھا کہ یہ بات صرف میرے اور تمہارے درمیان رہے گی۔ نہ پاپا کو پتہ لگے گا نہ امی کو بھنک پہنچے گی۔ ٹھیک ہے۔
”ٹھیک ہے! “ بڑی شرمساری سے میری بہن نے کہا اور میں اسے لے کر نیچے آیا تھا۔ وہ اپنی گاڑی میں بیٹھ کر چلی گئی تھی۔

بہت سے لوگوں کا خیال ہوگا کہ اس واقعے کے بعد میں بدل گیا ہوں گا۔ نہیں میں بالکل بھی نہیں بدلا۔ میں کیسے بدل سکتا ہوں کوئی بھی نہیں بدلتا ہے جو جیسا ہوتا ہے ویسا ہی رہتا ہے۔ جس بچے نے چوری سیکھی ہوتی ہے وہ چوری ہی کرتا ہے، جو بے ایمان ہوتا ہے وہ بے ایمان ہی رہتا ہے، وقت بدل جاتا ہے، داڑھی اُگ آتی ہے، پیشانی پر نشان بن جانے میں، آدمی بڑا ہوجاتا ہے، مشہور ہوجاتا ہے، لیکن درحقیقت بدلتا نہیں ہے۔ میں بھی نہیں بدلا۔ میں نے صرف پالیسی بدل دی تھی۔ جی ہاں پالیسی، نئی پالیسی۔

اب یہی ملاقات ہوٹل کے کمرے میں نہیں ہوتی ہے ہوٹل کی لابی میں ہوتی ہے، ریسٹورانٹ میں ہوتی ہے، میں کبھی بھی دیے ہوئے وقت پر نہیں آتا ہوں ہمیشہ دیر سے پہنچتا ہوں کبھی بھی بتائی ہوئی نشانی مثلاً سرخ ٹائی یا نیلی قمیض پہن کر نہیں آتا ہوں۔ اگر پہلے سے انتظار کرتی ہوئی لڑکی جاننے والی نہیں ہوتی ہے تو پھر نشانی پہن کر نہ آنے پر معذرت کرکے اسے کمرے میں لے جاتا ہوں۔
نئی پالیسی پرانی پالیسی سے بہتر ہے۔ بالکل حکومت کی پالیسیوں کی طرح۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2