ہم ہجومِ بے مہار


نبی آخرالزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآل وسلم کی تقدیس ناموس رسالت پر ہر مسلمان اتنا ہی یقین رکھتا ہے جتنا چلتی سانسوں کی وجہ سے اپنی زندگی پر۔۔ ناموس رسالت میرا موضوع نہیں ،میں ان دنوں اور واقعات پر چند الفاظ آپ کی گوش گزار کرنا چاہتا ہوں جن کا حال ہی میں ہم نے سامنا کیا ہے۔
اکتیس اکتوبر کوملک کی اعلی عدلت کے فاضل ترین ججز نے آسیہ مسیح کی جانب سے مبینہ توہین رسالت کیس کا فیصلہ سنایا۔ مبینہ کا لفظ اس لیے استعمال کیا کہ جب یہ واقعہ پیش آیا نہ میں وہاں موجود تھا اور نہ ہی اس کے حقیقی ہونے کی سند میرے پاس موجود ہے۔ باقی اللہ بہتر جانتا ہے جو دلوں کے راز بھی جاننے والا ہے۔ ماضی کے اوراق کھنگالنے سے بہتر میں اپنے موضوع کی طرف آتا ہوں۔ عدالتی فیصلہ آتے ہی تحریک لبیک کے سرفروش کارکن ہر گلی کوچے سے نکلتے ہوئے سڑکوں پر آئے اور چند لمحوں میں مملکت خداداد کی چلتی گاڑی کا پہیہ جام کر دیا۔
دوسری جانب حکومت بھی غافل نہیں تھی اس لیے فوری موبائل سگنلز بند کر کے عوامی رابطے منقطع کر دیے۔ شام کے اندھیرے ڈھلتے ہی ملک کے سربراہ نے اپنی قوم سے خطاب کیا اور سڑکوں پر بیٹھے سرفروشوں کو گمراہ طبقہ قرار دیتے ہوئے اپنے سر سے فرض کا بوجھ اتار ڈالا۔ لیکن تب تک سرفروش اپنا اپنا منصب سنبھال چکے اور لاہور جیسے مصروف شہر میں جنگل سا سماں پیدا ہو چکا تھا۔ لاہورمیں تقریبا تیس مختلف مقامات پر سرفروشوں نے دھرنے دیئے لیکن داتا دربار اور پنجاب اسمبلی کے سامنے والے دھرنے ریاستی اداروں کے لیے درد سر کا باعث بنے رہے۔ اس کی وجہ دو شخصیات تھیں ایک علامہ خادم رضوی اور دوسرے ڈاکٹر آصف جلالی دونوں نے سفر تو اکٹھے شروع کیا لیکن چند ناگزیر وجوہات نے دونوں کو حلیف سے حریف بنا دیا۔ وجوہات کیا تھیں ابھی اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا۔
ابھی چلتے ہیں پنجاب اسمبلی کے باہر وہاں خیمے لگ چکے اور پنڈال سج چکا جس میں علامہ خادم رضوی اپنے مصاحبوں اور مریدوں کے درمیان بیٹھے ذکر و ازکار میں مصروف لیکن حکومت وقت سمیت منصفوں پر طعن و تشنیع کرنے سے نہیں چوک رہے۔ ابھی محفل جاری ہے کہ ایک سرفروش کاندھے پر لنگر کا تھال اٹھائے مجمع میں داخل ہوا اور سب کے نصیب کا راشن اس کے ہاتھ میں تھماتا گیا کچھ سر فروش اپنی جگہ سے لانگری کی جانب لپکے لیکن خادم رضوی کی جھڑکی سےمعاملہ خوش اسلوبی سے طے پا گیا۔ سرفروشوں کا مجمع دیکھتے ہوئے کچھ کم ایمان والے بھی اپنی ریڑھیاں اور خوانچے وہاں لے آئے اور مرضی کے داموں پر اشیاء خوردونوش فروخت کرتے رہے۔ جہاں مال روڈ کی ہمہ وقت زندہ سڑکیں ویران ،دوکانیں بند دیکھ کر دل اچاٹ ہوا وہیں یہ دیکھ کر تشفی ہوئی کہ چلو کسی غریب کے گھر کا چولہا آج خوب جلے گا۔

اسمبلی ہال سے چند کوس دور داتا دربار چلیں تو ڈاکٹر آصف جلالی اپنے جانبازوں کی محفل سجائے مصروف عمل ہیں۔ اور گستاخ رسول کی ایک سزا سر تن سے جدا کے نعرے لگاتے نظر آتے ہیں۔ داتا دربار سے ملحقہ علاقہ اپنے سینے میں زندگی کے کئی راز چھپائے رہتا ہے۔ یہاں پر سرفروشوں کے لیے لنگر کا کوئی خاص انتظام نہیں اگر کوئی بھول بھٹکا تبرک لے آئے تو اسے تقسیم کرتے اپنی جان کے لالے پڑ جائیں۔ لیکن وہاں ازلوں سے پڑے کچھ فاقہ مست خوش تھے کہ چلو مولویوں کی دوکانداری میں انہیں چار دن کا کھانا بغیر مشقت کے مل جائے گا۔ چند قدم دور جائیں تو اس بات سے بے خبر کہ چند گز دور ایک نعرے کے بدلے جنت تقسیم ہو رہی ہے رنگین مزاج مزدور ایک دوکان میں بیس روپے کے عوض بڑی سکرین پر انڈین فلموں سے آنکھیں ٹھنڈی کر رہے تھے۔

وہاں سے باہر نکلیں تو ایک معصوم کمسن بچی جس کے منہ سے الفاظ بھی ٹھیک ادا نہ ہو پا رہے تھے اپنے والد کے ساتھ طبلہ اور ہارمونیم کے ردھم میں عارفانہ کلام سنا کر سادہ لوح عوام سے نذرانے وصولتی نظر آتی ہے۔ حالانکہ چند قدم پرجنت کی رسیدیں مفت میں مل رہی لیکن یہ غافل اپنی اپنی دھن میں مگن موبائل سگنلز اور پہیہ جام کے بعد فرصت کے لمحات کا لطف اٹھاتے رہے۔ پنجاب اسمبلی اور داتا دربار کے سامنے تیسرے روز بھی دھرنا اپنی تمام تر روحانیت کے ساتھ جاری تھا کہ اچانک حکومت کے ساتھ معاملات طے پانے کی خبر آئی تو خواب غفلت میں مدھوش میڈیا بھی اپنے تمام تر سازو سامان کے ساتھ آخری لمحات کی برکتیں سمیٹنے وہاں آن پہنچا لیکن دل میں کئی خدشات سر اٹھائے ہوئے تھے۔

داتا کے قدموں میں ڈیرے جمائے سر فروشوں نے تو مزید نیکیاں کمانے کے چکر میں حکومتی معاہدے پر لات مارتے ہوئے دھرنا جاری رکھنے کا اعلان کیا لیکن ایک روز بعد وہ بھی معاہدہ طے پانے اور اپنوں پر گلے شکوے کرتے دھرنا ختم کر کے اٹھ گئے۔ علامہ خادم رضوی نے حکومتی وعدوں پر یقین کرتے ہوئے ملک بھرمیں دھرنے ختم کرنے کا اعلان کیا تو پاکستانیوں نے سکھ کا سانس لیا لیکن اس سے پہلے پاکستان کے معروف مزہبی اور سیاسی رہنما مولانا سمیع الحق کی قربانی ہو چکی تھی۔۔۔ دھرنا ختم ہونے کے اعلان کے بعد علامہ خادم رضوی دو گھنٹے تک پنجاب اسمبلی کے باہر اپنی مسند پر براجمان رہے اور رخصت سے پہلے بطور تبرک اپنے مریدوں کو ہاتھوں کا بوسہ دینے سے انکار نہ کر سکے۔ان تین دنوں میں دھرنوں کی حفاظت جن نوجوانوں کے سپرد رہی ان میں سے اکثریت تو شاید لفظ ناموس کے مطلب سے بھی واقف نہ تھی۔۔۔ ایک سے دریافت کیا سڑک کیوں بند کر رکھی ہے تو جواب ملا مجھے مدرسے کے مولوی صاحب کا حکم تھا کہ سڑک بند کر دو۔۔۔
تحریر کی طوالت پر معذرت خواہ ہوں کیوں کے اسی طوالت کے ڈر سے ابھی کئی ایسے واقعات ہیں جن کا تذکرہ نہیں کر پایا ۔لمحہ فکریہ یہ ہے ہم لوگ کب تک مفاد پرست ٹولے کے ہاتھوں یرغمال ہو کر اپنا نقصان اپنے ہی ہاتھوں کرتے رہیں گے۔بغیر سوچے سمجھے کسی بھی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنے ہی ساتھیوں کے خلاف علم جہاد بلند کرتے رہے ہیں۔۔۔ ان دھرنوں میں جتنا نقصان ہوا موجودہ حالات میں پاکستان اور پاکستانی قوم اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔اپنی توانائیاں ایسے تعمیری کاموں میں صرف کریں جو ملک و قوم کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرسکیں۔ خدا آپ کا حامی و ناصر ہو

تجمل بخاری
Latest posts by تجمل بخاری (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).