عرب امارات اور ڈرائیونگ لائسنس


قابلیت اور محنت نے خوب رنگ جمایا اور تھیوری ٹسٹ میں ہم 46 / 46 لے کر ٹاپر رہے۔ فل مارکس لے کر باہر نکلے تو ڈھیروں ڈھیر فیل شدہ پریشان حال کھڑے فلپینو، انڈین، اور عرب لوگوں کے سوالیہ چہروں کے سامنے وکٹری کا نشان بنایا اور ہنستے مسکراتے ان کے لمبے منہ کھلے چھوڑ کر نکل گئے۔ یہی کمال ہم نے پارکنگ میں دکھایا اور بغیر کسی بے دھیانی کے ٹکا کر سیدھی گاڑی پارک کی اور بغیر سپلی کے آخری معرکہ میں یعنی روڈ ٹسٹ میں جا پہنچے۔

روڈ ٹسٹ اک غلام گردش ہے جسمیں سے نکلنا کوئی آسان کام نہیں۔ محض دو منٹ کے لئے آپ کو ایک امتحان کی گاڑی میں شرطے کا ساتھ بٹھایا جاتا ہے اور ایک لیڈی کانسٹیبل پچھلی سیٹ پر پہلے فارم لیکربیٹھتی تھی اس پر کارکردگی کے اندراج کے لئے اور اب سارا سسٹم کمپیوٹرائزڈ ہونے کی وجہ سے آئی پیڈ لے کر بیٹھتی ہے اور بیک ویو مرر میں مسلسل آپ کی نگاہوں کا تعاقب کر کے ریکارڈ رکھتی ہے کہ ایک منٹ میں بیک ویو مرر سے آپ نے کتنی علیک سلیک کی۔

چونکہ یہ آپ کے فیل ہو جانے کی ایک بہت اہم وجہ ہے۔ اس دو منٹ میں آپ کے شیشہ سیٹ کرنے سے لے کر کسی انتہائی ایمرجنسی کی سچویشن تک ہر چیز پر نگاہ رکھی جاتی ہے۔ ٹسٹ چونکہ انتہائی گھمبیر ٹریفک والے انڈسٹریل ایریا میں ہوتا ہے جہاں ہر طرف ہیوی ویکل، ڈالے، ٹرک آتے جاتے رکتے، سامان اٹھاتے اور نکلتے دکھائی دیتے ہیں۔

پہ در پہ فتوحات نے سینہ بجا طور پر پھلا رکھا تھا۔ اعتماد ایسا تھا اپنے زور بازو پر کہ شرطے (پولیس ) کے ساتھ بیٹھ کر بھی نہ کانپے اور پارکنگ کے حکم پر دو لائینیں ایک ہی بار میں پھلانگیں اور زن کر کے گاڑی پارک کر دی۔ اب چاہیے تو یہ تھا کہ اس جوان مردی پر ہمیں تمغہ شجاعت تھما یا جاتا مگر شرطے نے بغیر ہمارے حسین چہرے پر ترس کھائے فیل کر کے ورقِ ندامت ہمارے ہاتھ پر دھر دیا۔ یوں لگا کہ جیسے آسماں سے سیدھے پاتال میں گر گئے ہوں۔ ایسا دکھ زندگی میں صرف ایک ہی بار ہوا۔ تار تار وجود ایسا ہوا کہ اگلے کئی سالوں تک اس ناکامی پر دیواروں سے لگ لگ خود کو سنبھالتے رہے کہ ناکامی کا دکھ سنبھالا نہ سنبھلتا۔

مگر آخر کب تک؟ بچے پال پوس کر ہم نے سکولوں میں جا داخل کروائے، برتن مانجھ مانجھ تھک گئے، اور سارا دن گھر کی بند دیواروں میں اکیلے گزارنے پڑے تو پھر کچھ کرنے کو، نوکری تلاشنے اور دنیا میں نکلنے کو دل للچایا تو پچھلے سال ہم نے دوبارہ سے روڈ ٹسٹ کے لئے درخواست جمع کروا دی۔ اصولوں کے مطابق ہمارے پاس تین روڈ ٹسٹ دینے کے چانسز تھے اور جن میں سے ایک پہلے گنوا چکے اور دوسرا اب سامنے تھا۔ خدانخواستہ تینوں چانسز میں فیل ہونے پر امیدوار کو پولیس کے ہاتھوں سے واپس سکول بھیج دیا جاتا ہے جہاں وہ سکول کے انسٹرکٹرز سے دوبارہ سے کلاسز لیتا ہے۔

تو یہ دوسرا ٹسٹ دینے کے لئے کئی کئی گھنٹے میں نے ابوظہبی کی موٹر ویز اور انڈسٹریل ایریا میں پچھلے سال پریکٹس کی اور بہت ہی ماہر اور مشتاق ڈرائیور بن کر اس سال کے شروع میں روڈ ٹسٹ کے لئے جا حاضر ہوی۔ بہت ناپ تول کر روڈ کا ایک حصہ چنا جہاں پر کم ٹریفک تھی مگر شومئی قسمت کہ پچھلی امیدوار نے گاڑی ایسی ادھوری جگہ پارک کر رکھی تھی کہ وہاں سے کس اصول کے تحت وہ واپس شاہراہ پر آئے گی کچھ خبر نہ تھی۔ سو وہی ہوا کہ نکلتے نکلتے پیچھے سے کوئی ویو نظروں سے اوجھل ہوا اور شرطے کو ہینڈل گھمانا پڑا۔ چناچہ دو منٹ کی کامیاب ڈرائیونگ اس ایک غلطی کا ازالہ نہ کر سکی جو ہم سے پارکنگ سے نکلتے سرزد ہوئی اور ہم دوسری بار بھی حیران پشیمان سے، اپنی بھرپور قابلیت سمیت فیل فرما دیے گئے۔

ناکامی برداشت کرنی اس بار بھی خاصی مشکل تھی مگر اس قدر نہیں کہ پھر سے پانچ سال غم غلط کرنے میں لگا دیتے۔ نظریہ ضرورت نے پھر گھر سے نکالا اور گرما کی تعطیلات ختم ہوتے اور بچوں کے گھر سے نکلتے ہی ہم نے پھر سے آستینیں چڑھائیں اور تیسرے اور آخری معرکے کے لئے کمر کس لی۔ میاں صاحب کو بھی ہدایات دے دیں کہ دل کو تھام کر رکھیں اس بار ہاتھوں کے میل جیسے پیسے کی فکر نہیں کرنی! اس باری کا آغاز ہی ہم نے دو گھنٹے کی کلاس سے کیا کہ ٹسٹ ایریا کا ہمارے گھر سے کوئی پینتالیس منٹ کا فاصلہ ہے تو گھر کے دروازے سے انسٹرکٹر انکل کے ساتھ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتے، اور سو سے ایک سو بیس کی سپیڈ پر موٹر وے پر گاڑی بھگاتے ٹسٹ ایریا میں پہنچتے، پھر آدھ پون گھنٹہ اس ایریا کے ہر موڑ اور چوراہے کا طواف کرتے اور پھر سے پینتالیس منٹ کا فاصلہ طے کر کے گھر کو لوٹتے۔

جب تک کہ غلطی کی گنجائش نشتہ نہ ہو گئی ہم اس پریکٹس میں مصروف رہے اور کوئی پچیس تیس کلاسز کے بعد جب ہماری رفتار اور انداز میں چیتے جیسی پھرتی آ گئی اور انسٹرکٹر نے ہاتھ کھڑے کر کے ہری جھنڈی دکھا دی تو ہم اس امید کے ساتھ ٹسٹ دینے پہنچے کہ اس بار تو ہم نے فیل ہونے کی کوئی صورت ہی نہیں چھوڑی۔ اس بار جب ہر بار ہماری غلطیاں نکالتے میاں صاحب کے پاس نکالنے کو کوئی غلطی نہ بچی، اور انسٹرکٹر گال پر ہاتھ رکھ کر گہری سوچ میں ڈوب گیا اور ہم حیران و پریشاں کہ اس بار کونسے نشے میں تھے جو خود ہمیں بھی اس بار کوئی غلطی نہ سجھائی دی مگر ہم پھر سے فیل ہو گئے اور ناکام و نامراد لوٹے۔

اور میاں صاحب کو کامیابی کی دعوت کھلانے کی بجائے اگلا ایک گھنٹہ کافی شاپ میں بیٹھ کر میاں کے ہاتھ سے ناشتہ کھاتے اور آنسو پونچھتے رہے۔ کہ اگرچہ تین بار کی ناکامی سے قوت مدافعت میں کچھ افاقہ ہوا ہے مگر اتنا بھی نہیں کہ مسکرانے ہی لگ جائیں۔ تاذہ ترین اطلاعات کے مطابق اب اور کوئی رستہ نہیں ہمارے پاس کہ اب لوٹ کر پھر سے سرکاری سرپرستی میں جائیں اور مزید فیس ہے کر کے سرکاری انسٹرکٹر کے ساتھ پھر سے کلاسز کا آغاز کریں اور اس پریکٹس اور ٹسٹ کے عمل سے تب تک گزرتے رہیں جب تک کہ مہارت کے ساتھ ساتھ ہمارا انہماک اور قسمت بھی بہترین نہ ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2