دھرنے اور مذہبی حساسیت کے مسائل: چند معروضات


ہر دھرنے کی طرح یہ دھرنا بھی بہت سارے نئے سوالات چھوڑ گیا ہے جن کے جواب شاید ہی کبھی مل پائیں۔ سنجیدہ طرز فکر کے فقدان اور جبر کے ماحول میں ہلکی پھلکی گفتگو سے ہی دل بہلا لیا جاتا ہے تاوقتیکہ کوئی نیا دھرنا یا واقعہ رونما نہیں ہوجاتا۔ویسے بھی پوائنٹ سکورنگ کے زمانے میں کسے فرصت ہےکہ معاملے کا گہرائی سے تجزیہ کیا جا سکے۔
یہ کوئی بہت پرانی بات نہیں ہے کہ 80 اور 90 کی دہائی میں بھرے پرے مذہبی اور عوامی اجتماعات میں کافر کافر کے نعرے گونجتے تھے، فتووں کا چلن عام تھا ہم میں سے بیشتر نے وہ نعرے اپنے گناہ گار کانوں سے سنے ہیں لیکن اس وقت ریاست کی ضروریا ت اور ترجیحات اور تھیں اس لیے کارروائی تو درکنار بہت سارے گروہوں کی سرپرستی کی داستانیں زبان زد عام رہیں لیکن سب چپ سادھے رہے۔ اب جب وہ آگ کچھ بہت ہی اعلی مقامات تک پہنچی ہے تو معلوم ہوا ہے کہ یہ سب کچھ تو غلط تھا۔

اب ہر ٹی وی چینل پر عالم نما دانشور اور دانشور نما علماء سامعین اور ناظرین کو اپنی اپنی طرز پر مذہب کی اصل تعلیمات کی طرف دھیان دلوانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں جیسے علماء شاید ان تعلیمات سے بے بہرہ ہوں۔ اسے کہتے ہیں پرندوں کو اڑنا سکھانا۔ یہی وہ لوگ تھے جو آج سے ایک سال پیشتر دھرنے کی فضیلیت اور مذہبی معاملات کی حساسیت کو سمجھنے اور دھرنوں کے جواز کے لیے دلائل تراش رہے تھے ۔ یہی وہ روش ہے جو پچھلے 70 سال سےملک میں جاری وساری ہے اور جس پر نہ تو کسی کو کوئی افسوس ہے اور نہ احساس۔

جب سوچنے اور سوال کرنے کی آزادی سلب ہوجائے تو پھر نتیجہ اس کے سوا کیا نکلے گا کہ عام آدمی سے لے کر دانشور ،طالب علم سے لے کر استاد اور وزراءسے لے کر وزیر اعظم اور حساس اور غیر حساس اداروں کے سربراہوں تک ہر کوئی حساس معامالات پر ایک ہی طرح کی سوچ اور ردعمل ظاہر کرے گا توپھر اس ساری صورت حال کا غیرجانبدارانہ اور غیر جذباتی تجزیہ کون کرے گا اور حل کون تجویز کرے گا؟ ۔ اور یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ جب سوچیں گروی ہوجائیں تو پھر یہی کچھ ہوتا ہے جو آج معاشرے میں ہو رہا ہے۔اسی لیے تو کسی نے کہا تھا کہ جہاں سارے لوگ ایک جیسا سوچنے لگیں یہ دراصل سوچ کے خاتمے کی علامت ہے۔

ریاست اور ریاستی ادارے اس طرح کے معاملات میں بہت گہرے الجھاؤ کا شکار ہیں۔انھیں احساس ہی نہیں ہوا کہ انھوں نےجانے انجانے میں بہت سارے معاملات سے آنکھیں بند کیے رکھیں اور نتیجے کے طور پر حساسیت کی سرحدیں وسیع سے وسیع ترہوتی چلی گئیں۔ جہادی معاملات کے اندر بھی ہم نے یہی دیکھا کہ جب ریاست کی ضرورت تھی تو ہر طرح کی مذہبی تعلیمات کے ذریعے سادہ لوح نوجوانوں کو پتہ نہیں کون کون سے سبز باغ دکھا دکھا کر اس میں شامل کروایا گیا اور جب ایک بار پھر ترجیحات بدلیں تو جو اس راہ پر جا نکلے تھے انھیں بتائے بغیر اپنا راستہ تبدیل کرلیا گیا اور ساتھ میں یہ بھی فرض کر لیاگیا کہ وہ جو کوئی بھی تھے وہ تو محض روبوٹ اور مشینں تھے کہ جب چاہا تو بٹن دبا دیا تو وہ چل پڑیں گے اور جب ضرورت نہیں ہوگی تو بٹن آف کردیں گے تو وہ دوسری طرف کھڑے ہوجائیں گے۔ پہلے لوگوں کو ایک خاص طرح کی حساس مذہبی تعبیروں کے پیچھے روانہ کیا گیا اور جب لگا کہ یہ تعبیریں تو خود اپنے پاؤں بھی جلانے لگی ہیں تو اور طرح کی تاویلات و تعبیرات کے انبا ر لگا دئیے گئے۔

اس طریقہ کار نے بہت سارے خطرناک نتائج کو جنم دیا جس کا شکار آج پورا سماج نظر آتا ہے۔لوگوں کو مذہب کے حوالے سے اتنا زیادہ حساس کیا گیا کہ اب وہ مذہبی فریم ورک کے بغیر سوچنے سمجھنے کے قابل ہی نہیں رہے۔ پھر یہ بھی فرض کر لیاگیا کہ کسی مسئلے پر صرف ایک ہی طرح کا رویہ اور حل ہی قابل عمل ہے اور بجائے وسعت اور رخصت کے بہت مقید اور محدود دائروں کے اندر معاملات کو بند کردیاگیا اور پھر سوچوں پر پہرے الگ بٹھا دیئے گئے کہ اگر اس سے ہٹ کو سوچا بھی تو گناہ گار ہوجاؤ گے۔

مذہبی معاملات کو متبادل مذہبی بیانیوں(اور بالخصوص ہر عشرے بعد بدلتے سرکاری بیانیوں ) سے درست کرنے کی روش کے نتائج بھی ظاہر ہے کوئی بہت امید افزا ثابت نہیں ہوئے بلکہ مزید اور الجھنوں کا باعث بنے۔ جب گفتگو پر غیر ضروری قدغنیں لگا دی جائیں اور لوگوں کو صرف ایک ہی طرح کے بیانیوں کے سننےکا عادی بنا دیاجائے اور ہر مخالف سوچ اور نظریے پر پابندی لگا دی جائے تو پھر ایک وقت آتا ہے کہ آپ کے حق میں بھی بولنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ یہی کچھ آج معاشرےمیں ہو رہا ہے جب کمزورافراد اور طبقات پر فتوے لگ رہے تھے، لوگوں کو مارا جا رہاتھا ،مارنے پر اکسایا جاتارہا تو سارے لوگ لاتعلق ہو کر بیٹھے رہے اور آج جب ان حساس معاملات کی وجہ سے خود حساس طبقات پر بھی زد پڑنے کا اندیشہ در آیا ہے تو سب کو پریشانی پڑ گئی ہے۔
بجائے اس کے کہ اس طرح کے معاملات پر لوگوں کو تعمیری ، تحقیقی اور تنقیدی طرز فکر کا عادی بنایا جاتا الٹا انھیں تکفیری طرز فکر کا عادی بنا دیا گیا تاکہ بوقت ضرورت کام آئے ۔ مقصد خوف پیدا کرنا تھا سو وہ ہوکر رہا اور پورا سماج نفسیاتی طورپرایک خوف کا شکار کردیا گیا اور جوں ہی کوئی حساس مسئلہ آیا تو اس پر فورا سپر ڈال دی۔

اگر معاشرے میں مخصوص نظریات اور نقطہ نظر کے حامل افراد کو بدلتی ترجیحات اور ضروریات کے تحت پروان نہ چڑھایا جاتا تو آج ہمارے پاس اس نازک صورت حال میں اپنے دفاع کےلیے کوئی علمی وفکری بنیاد بھی موجود ہوتی لیکن جب علم،فکر اور آزادانہ علم وتحقیق کو کبھی مذہب اور کبھی حب الوطنی کے مخصوص مفاہیم کےتابع فرمان رکھا جائیگا تو کونسی توانا آواز آپ کے لیے اٹھے گی اور یہ تو اقبال نے بھی کہا تھا کہ’ سنگ وخشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا’ ۔

اب ظاہر ہے اس صورت حال سے نکلنے کا کوئی بھی آسان حل ممکن نہیں ہے۔ جب تک سماج میں حساسیت کے نام پر کچھ موضوعات کو ممنوع قرار دیا جاتا رہیگا یہ معاملہ ختم ہونے والا نہیں کیوں کہ پورا سماج ایک ایسے علمی اور مذہبی جمود کا شکار ہوگیا ہے کہ اب لوگوں کے اندر کچھ اور سوچنے، سمجھنے اور سننے کی صلاحیت بھی ختم ہوتی جا رہی ہے۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ کوئی موضوعات یا معاملات حساس نہیں ہوتے مسئلہ یہ ہے کہ ان حساس موضوعات اور معاملات کی طرف ہمارا ردعمل کیا ہوتا ہے۔علمی طور پر پسماندہ معاشروں کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہاں لوگ عدم تحفظ کا شکار ہوتے ہیں وہ اپنی ثقافت، معاشرت،مذہبی شناخت اور رہن سہن کو صرف خوف کے زیر اثر باقی رکھنا چاہتے ہیں یہی کچھ بدقسمتی سے آج کل کے اکثر مسلمان معاشروں کا حال ہے ۔
اور اس کا نتیجہ ظاہر ہے یہ ہوا ہے کہ بعض معاملات کی حساسیت کو جانے انجانے میں اتنا بڑھاوا دیا گیا ہے کہ کوئی حد فاصل ہی نہیں رہی اور اب تو آئے روز اس فہرست میں اضافہ ہی ہورہا ہے۔ ہر ایک کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے ایمان کے لیے کسی نہ کسی سرٹیفیکیٹ کا محتاج دکھائی دیتا ہے۔اس ساری صورت حال سے نکلنے کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے معاشرے کے اندر آزادانہ فکروعمل کی آزادی تاکہ ہر طرح کے حساس اور غیر حساس موضوعات پر لوگ بغیر کسی خوف کے گفتگو کرسکیں اور جب کوئی طرح کا موقع آئے تو آپ کے حق میں بھی بولنے کے لیے کوئی موجود تو ہو.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).