خواجہ سراؤں کو انسان سمجھا جائے


مذکر ’ہی‘ کو کہتے ہیں ، مؤنث ’شی‘ کو کہتے ہیں\"rabi

مگر حضرت مخنث ہیں، ’نہ ہییوں‘ میں ، نہ’شییوں‘ میں

)اکبر الہ آبادی(

میں نے یہ شعر کالج کے زمانے میں سنا تھا۔ جو’’ہی یوں‘‘ اور’’ شی یوں‘‘ میں نہ ہو وہ مخنث کہلاتا ہے۔ اس وقت اس نام سے بہت نفرت تھی، معاشرہ کا پڑھایا سبق تھا۔ خواجہ سرا، مخنث، خسرہ، زنخہ، ہیجڑا، کھسرا وغیرہ وغیرہ کتنے نام ہیں جو ایک انسان کے ہیں۔ قصور کیا ہے! ایک نا مکمل مرد یا ایک نامکمل عورت۔

اس انسان کو ہمارے سنگ دل، بے حس معاشرے نے انسانیت کے دائرے سے ہی باہر کھڑا کر رکھا ہے۔ مخنث، پاکستانی معاشرے کا انتہائی مظلوم کردار جو قدرت کی طرف سے جسمانی طور پر نا مکمل ہے اور پھر معاشرے کا ہر ذی شعور شخص اُس کی اس جسمانی کمی کو بہانہ بنا کر اُس کی تحقیر کرتا ہے۔ اُس کے چلنے بولنے کے انداز سے حظ اٹھاتا ہے اور اُس پہ پھبتیاں کستا ہے۔ یہ قریب کا واقعہ ہی یاد کر لیں، علیشاہ نامی خواجہ سرا کو پشاور ہسپتال میں گولیاں لگنے کے بعد شدید زخمی حالت میں لایا گیا۔ لیکن یہ فیصلہ نہ کیا جا سکا کہ اسے مردوں میں شامل کیا جائے یا عورتوں میں اور آخر کار ایک انسانی جان بے بسی کے عالم میں معاشرے کی تنگ نظری کے ہاتھوں ضائع ہوگئی۔

پیدائش کے عمل کے دوران ماں کے پیٹ میں ہارمونز کے غیر متوازن ہونے سے بچے کی جنس متعین نہیں ہو پاتی۔ یوں انسان ایک نامکمل تصویر لیے دنیا میں آجاتا ہے۔ معاشرہ قبول نہیں کرتا۔ یہ استحصال نسل در نسل چلتا رہتا ہے۔ ایسے بچے کی پیدائش پر ماں باپ بدنامی کے خوف سے اپنے بچوں کو اپنانے سے ہی انکاری ہو جاتے ہیں اور ان بچوں کو ان جیسے ہی لوگوں کے حوالے کر دیتے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا یہ بچے عام بچوں کی طرح پرورش نہیں پا سکتے؟ کیا ان کے اذہان خصوصی ہوتے ہیں؟ کیا یہ عام بچوں کی طرح سکول کالج یونیورسٹی میں تعلیم حاصل نہیں کر سکتے؟ مختلف اداروں میں باعزت روزگار حاصل نہیں کر سکتے یا اپنا ذاتی کاروبار کر کے ایک نارمل انسان کی طرح زندگی نہیں گزار سکتے؟ کیا ماں کے ہارمونز غیرمتوازن ہونے سے، اُن کی جنس متعین نہ ہونے سے اُن کی ذہنی قابلیت بھی متاثر ہوتی ہے؟ فرانسائن روسو نے اپنے ایک آرٹیکل

 is there something unique about the transgender brain

میں Guillamom کے حوالے سے بات کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’تیسری جنس کے لوگ مردوں اور عورتوں سے بہت مختلف (Unique) دماغ رکھتے ہیں۔ اُن کے مطابق یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک عورت مردانی جسم میں قید ہو۔ ‘‘

اگر ان کو معاشرہ نے جگہ نہیں دینی تو کیا ان کو انسان کہا جانا چاہیے؟

ہمارے تعلیمی نظام میں کہیں بھی خواجہ سراؤں کے لیے کوئی حصہ نہیں رکھا جاتا۔ جس طرح معذور افراد کے لیے خصوصی تعلیم کے ادارے قائم کئے جاتے ہیں ایسی طرز پر خواجہ سراؤں کے لیے بھی ادارے قائم کئے جانے چاہیے۔ جہاں اُن کی ذہنی اور جسمانی استعداد اور رجحانات کی بنیاد پر خاص نصاب پڑھایا جائے تا کہ وہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد معاشرے کے مفید شہری بن سکیں۔ ملازمتوں میں اُن کے لیے کوٹہ مقرر کیا جانا چاہیے یہ چیز اُن کی حوصلہ افزائی کا باعث بنے گی اور اُن کو تعلیم کے حصول پر مائل کرے گی۔ ہمارے معاشرے میں خواجہ سرا تفریحِ طبع کا سامان ہیں۔ جو شادی بیاہ کی تقریبات یا نجی محفلوں میں رقص کے لیے باقاعدہ ’ہائر‘ کیے جاتے ہیں۔ وہ اپنے ٹھمکوں ، میک اپ کی تہوں میں چھپے چہرے اور زنانہ کپڑوں کی جھلملاہٹ سے لوگوں کو خوش کر کے اپنا پیٹ بھرتے ہیں یا گھر گھر جا کر مانگتے ہیں۔ جسم فروشی بھی آج کے دور میں خواجہ سراؤں کے روزگار کا ایک اہم اور بڑا ذریعہ بن چکی ہے اور ہمارے معاشرے کے نام نہاد با عزت افراد ان کے اس روزگار کی افزائش کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ خواجہ سراؤں کو انسان سمجھا جائے۔ معاشرے کی سوچ میں تبدیلی لائی جائے۔ حکومتوں کو اس سلسلے میں پیش قدمی کرنی چاہیے۔ نصابات میں خواجہ سراؤں کے تقدس کا مواد شامل کیا جانا چاہیے۔ مذہب کی انسان دوست روایات کو بچوں کو پڑھانا چاہیے اور پھر خواجہ سراؤں کے لیے بھی الگ سے سپیشل تعلیمی ادارے کھولنے کی ضرورت ہے جہاں وہ زندگی کو سمجھ کے زندگی کا کارآمد حصہ بن سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments