نشہ اور تعلیمی ادارے


میری امی ابو مہینے کے اختتام پر دروازے کی راہ دیکھتی رہتی ہے کہ اج یا کل ہمارا بیٹا ہاسٹل سے گھر آنے والا ہے اور میں جب گھر میں داخل ہوتا ہوں تو میری امی مجھے گلے لگا کر کہتی ہے۔ ”ہائے تم کتنے کمزور ہوگئے ہو“۔ اور پھر طرح طرح کے نوازشات مجھ پر ہوجاتے ہیں اور دو دن میں میری والدہ پوری مہینے کی کمی پوری کر دیتی ہے۔ یہ سب دیکھ کر مجھے خوشی بھی ہوتی ہے اور اپنے اپ کو خوش نصیب بھی سمجھتا ہو۔ اور یہی محبت اور توجہ مجھے اور طاقت بخشتی ہے۔ کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ بچے والدین کے بڑھاپے کا سہارا ہوتے ہیں۔ لیکن۔ !

کل جب میں جامعہ پشاور سے ہاسٹل جا رہا تھا جیسے ہی یونیورسٹی کے دروازے سے باہر نکلا تو سامنے میری نظر چند نوجوانوں پر پڑی جو بالکل مین سڑک کے کنارے ایک ٹولے کی شکل میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے گاؤں میں لوگ شادیوں میں زمیں پر کھانا کھانے کے لے بیٹھتے ہیں لیکن جب قریب پہنچا تو یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ چند نوجوان ہیروین کے نشے میں دھت بیٹھے ہے اور نا ان کو اپنی خبر ہے نا دنیا کی۔ عجیب سا لگا۔

کہ ہیروئینچی اور وہ بھی ایسی جگہ۔ جہاں روزانہ ہزاروں طلباء علم کی روشنی سے روشناس ہو نے کے لئے اتے ہیں۔ اس سب تناظر میں حیران کن بات یہ تھی کہ اس میں 20 سال سے کم عمر کے لڑکے بھی تھے اور اس کی حالت ایسی۔ کہ دھول سے ڈھلا ہوا چہرہ گندے کپڑے۔ اپنی دنیا میں مگن نشہ کرنے میں مصروف تھے۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا کہ والدین اپنے بچوں سے کتنی امیدیں وابستہ کرتے ہے اور دعائیں کرتے ہیں کہ میرا بچہ اچھے سے اچھا تعلیم حاصل کریں تاکہ کل وہ کامیاب آدمی بن کر ہمارے بڑھاپے کا سہارا بن جائے۔

اور یہ نوجوانان اپنے آپ سے بے خبر سڑک کے کناری گندگی کے ڈھیر میں اس لعنت میں مبتلا ہیں۔ جن کو یہ پتہ نہیں کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہے۔ مجھے ایک بات سمجھ میں نہیں آرہی کہ یہ لوگ آخر ہیروئین جیسے لعنت میں مبتلا کیسے ہو جاتے ہیں۔ جو اسے اس حد تک زلیل بناتا ہے جو نہ دین کا رہتا ہے نہ دنیا کا۔ مجھے یہ نوجوان دیکھ کر شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کا شعر یاد آیا۔

”محبت ہیں مجھے ان جوانوں سے“
”ستاروں پر جو ڈالتے ہیں کمند“

اگر آج علامہ اقبال زندہ ہوتا تو نا جانے ان پر کیا گزرتی یہ دیکھ کر کہ وہ نوجوان جن کو میں اپنی خودی اور نگاہ بلند کے ذریعے بلندی پر دیکھنا چاھتا تھا یہ تو آج اتنی بلندی پر گئے ہیں کہ ان کو واپس لانے کا تصور بھی ہم نہیں کر سکتے ہیں۔

میں نے وھاں پر ایک بزرگ بھی دیکھا جو اس لعنت سے مستفید (معذرت کے ساتھ) ہو رہا تھا۔ اس کے بھی بچے ہوں گے وہ بھی یہ سوچتے ہوں گے کہ بابا جان آج شام کو ہمارے پیٹ بھرنے کے لئے کچھ نہ کچھ ضرور لائیں گے۔ ان بے چاروں کو کیا پتہ کہ نا جانے بابا سے ایسا کونسا گناہ سرزد ہوا ہے جس کی اسے اتنی بڑی سزا مل رہی ہے

لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ لوگ جو اپنے آپ سے بے خبر ہیں ان کو یہ نشہ کہاں سے ملتا ہے۔ ان کے پاس کھانے پینے کے لئے ایک ٹکہ تک نہیں ہوتا، لیکن ہیروئین کے لئے پیسے کہاں سے آ جاتے ہیں۔ خیر یہ تو الگ بات ہے لیکن انتظامیہ کیوں غفلت کی نیند سو رہی ہے، کیا اس مسئلے کا کوئی حل نہیں۔ کہ ایک تعلیمی ادارے کے سامنے کھلم کھلا لوگ ہیروئین اور طرح طرح کے نشے کرتے نظر ارہے ہیں۔ کیا اس سڑک پر دن میں ایک مرتبہ بھی کوئی خکومتی نمائندہ نہیں جاتا تاکہ اس کا نوٹس لیں یا اس مسئلے کا کوئی حل نکالیں۔ پولیس بھی اس معاملے کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دے رہی۔ اگر اس طرح کے مسائل کو بروقت حل نہ کیا گیا تو مستقبل میں اس کے سنگین نتائج سامنے آئیں گے۔

ڈرگ فری ورلڈ ویب سائیٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں 13.5 ملین لوگ منشیات کا عادی ہیں جن میں 9.2 ملین لوگ صرف ہیروئین استعمال کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے منشیات اور جرائم ادارے کے مطابق پاکستان میں اس وقت 6.7 ملین لوگ منشیات کے عادی ہیں۔ اور ری ہیبیلیٹیشن سنٹرز نہ ہونے کے برابر ہیں اور اگر ہے بھی تو ایکٹو نظر نہیں آتے۔ اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ اگر پاکستان میں اور خاص کر پشاور میں اگر ری ہیبلیٹیشن سنٹرز والے ایکٹیو ہوتے تو یہ لوگ کھلے عام ہیروئین اور طرح طرح کے نشے نہیں کرتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).