عمران خان بمقابلہ شہر یار آفریدی


وزیر اعظم عمران خان نے اصرار کیا ہے کہ حکومت آسیہ بی بی کیس میں سپریم کورٹ کے ساتھ کھڑی ہے۔ لاہور میں بے گھر لوگوں کے لئے پناہ گاہ کے نام سے عمارت کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے آسیہ بی بی کی رہائی پر اٹھنے والے تنازعہ پر دوسری بار اظہار خیال کی ضرورت محسوس کی ہے۔اس سے پہلے انہوں نے 31 اکتوبر کو سپریم کورٹ کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد قوم سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے انتہا پسند مذہبی گروہوں کے احتجاج کو مسترد کرتے ہوئے متنبہ کیا تھا کہ یہ لوگ ریاست سے ٹکرانے کی کوشش نہ کریں ورنہ ان سے سختی سے نمٹا جائے گا۔ وزیر اعظم تو یہ پرجوش بیان داغنے کے بعد بیجنگ روانہ ہوگئے ، جسے ان کے چہیتے فواد چوہدری کی نگرانی میں چلنے والے پاکستان ٹیلی ویژن نے ’بیگنگ‘ قرار دینے کی ’مذموم‘ کوشش کی لیکن ذمہ داری کا بوجھ منیجنگ ڈائریکٹر پر ڈال کر وہ خود سرخرو رہے۔

نیا پاکستان بنانے والی حکومت سے اس نئی روایت کی امید کی جاسکتی تھی کہ جس محکمہ میں کسی بڑی غلطی کا انکشاف ہو اس کا ذمہ دار وزیر غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے اسے اپنی نااہلی سمجھے اور کسی دوسرے کو کام کرنے کا موقع دیتے ہوئے خود پیچھے ہوجائے۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ جوں جوں تحریک انصاف کے نئے پاکستان کے خد و خال نمایاں ہو رہے ہیں، یہ واضح ہوتا جارہا ہے کہ اس پارٹی کے نئے پاکستان میں بات کہہ کر مکرنا، مؤقف تبدیل کرنا مگر شرم محسوس نہ کرنا، پرانی حکومت کے شروع کئے ہوئے منصوبوں کا کریڈٹ لینا لیکن غلطیوں کی تشہیر کرتے ہوئے انہیں سابقہ پارٹیوں اور ان کے لیڈروں کی بدعنوانی قرار دے کر یہ یقین دلانا کہ ملک کے عوام کو اس وقت یا آنے والے چند برسوں (سہولت کے لئے انہیں پانچ برس پڑھا جاسکتا ہے جو کسی منتخب حکومت کے برسر اقتدار رہنے کی مدت مقرر ہے) میں جن مصائب کا سامنا کرنا ہوگا، اس کی ساری ذمہ داری سابقہ حکومتوں بالخصوص مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی اور ان کے قائدین پر عائد ہوگی۔

 اس نئے پاکستان کا ایک طرہ امتیاز یہ بھی ہے کہ وزیراعظم سے لے کر کسی معمولی پارٹی عہدیدار تک کو جب کوئی بات نہ سوجھے تو اس کا الزام سیاست دانوں کی بدعنوانی پر عائد کرتے ہوئے بازو چڑھا کر اور منہ سے جھاگ اڑانے والے انداز میں اعلان کیا جائے کہ حکومت کسی بھی بدعنوان کو نہیں چھوڑے گی۔ اس قسم کے نئے پاکستان میں وزیر اطلاعات ہوں یا وزیر داخلہ اور وزیر اعظم ، ان پر کسی قسم کی ذمہ داری عائد نہیں ہو سکتی۔ ایک تو یہ کہ وہ بدعنوانی ختم کرنے کے مشن میں مصروف ہیں ۔ دوسرے یہ کہ کرپشن نے ملک کو اس حال تک پہنچا دیا ہے۔ تیسرے یہ کہ بدعنوانی کا خاتمہ کئے بغیر کوئی دوسرا کام نہیں کیا جاسکتا۔ اسی لئے وزیر اعظم خواہ بیجنگ میں پی ٹی وی کے ’بیگنگ‘ والے دورے پر ہی کیوں نہ ہوں کرپشن اور بدعنوانی کا منتر تیر بہدف سمجھا جاتا ہے۔ کہ یہی نئے پاکستان کا طرہ امتیاز ہے۔

اگر کچھ من چلے بیجنگ میں کمیونسٹ پارٹی کے اجلاس سے وزیر اعظم کے خطاب میں اس قومی علت کا ذکر سن کر پریشان ہوتے ہیں اور منمناتے ہیں کہ ’ملک میں کچھ اچھا بھی ہے ‘ تو اس پر توجہ دینے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے کیوں کہ یہ طریقہ نئے پاکستان کے منشور کے خلاف ہوگا۔ ترانہ کرپشن پر اعتراض کرنے والے ملک دشمن کہلائیں گے کیوں کہ اس چلن سے ترقی کی رفتار رکنے کا اندیشہ ہے ۔ یوں بھی وزیر اعظم اور ان کے ساتھی ہر روز یہ واضح کررہے ہیں کہ رائے کی صرف وہی آزادی آئین و قانون کے علاوہ اخلاقی ضابطوں کے مطابق سمجھی جائے گی جس کا اظہار حکومت وقت کی توصیف میں قلابے ملانے کے لئے ہو۔ تنقید اور نکتہ چینی کو آزادی اظہار کہنے والوں کو نئے پاکستان کے نئے اصول سمجھنے کی ضرورت ہے۔

اس حوالے سے چند استثنیات البتہ مقرر کردی گئی ہیں جن میں سے ایک کا اعلان گزشتہ روز وزیر مملکت برائے امور داخلہ شہریار آفریدی نے سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے کیا ہے۔ اگر کچھ لوگ کسی غلط فہمی کا شکار ہوکر مظاہرہ کر بیٹھتے ہیں یا دھرنا دیتے ہیں اور اپنے بیانات میں حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا اعلان کرنے کے علاوہ فوج کے جرنیلوں کو بغاوت پر اکساتے ہیں یا ججوں کو واجب القتل قرار دیتے ہیں تو انہیں نادان سمجھ کر معاف کردیاجائے کیوں کہ نیا پاکستان بنانے کے لئے ان گروہوں سے تصادم کی بجائے مفاہمت ضروری ہے۔

شہر یار آفریدی نے اس کا مناسب حل بھی تجویز کردیا ہے کہ خود انہی اشتعال پسندوں سے پوچھ لیا جائے کہ ’حضور یہ جو لوگ آگ لگارہے ہیں یا املاک کو نقصان پہنچا رہے ہیں یا امور مملکت میں ٹانگ اڑا رہے ہیں، آپ ان کو پہچانتے ہیں‘۔ اگر اشتعال دلانے والے ہی مشتعل ہونے والوں کو پہچاننے سے انکار کردیں تو سمجھ لیں کہ یہ ضرور اپوزیشن کی شرارت ہے جس کے لیڈروں نے بدعنوانی کی مہم سے بچنے کے لئے اپنے شیطان صفت کارکنوں کو توڑ پھوڑ کے لئے تحریک لبیک کے دھرنوں میں بھیج دیا اور خود حکومت کو تصادم سے بچنے کا مشورہ دینے لگے۔ اب حکومت کے وزیر مملکت برائے داخلہ نے اس سازش کا پردہ چاک کردیا ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت نے شہر یار آفریدی کی سرکردگی میں تحریک لبیک سے مفاہمت اور دوستی کے جس مشن کا آغاز کیا ہے ، اسی کی وجہ سے حکومت نے ابھی تک آسیہ بی بی کے معاملہ میں چپ سادھی ہوئی ہے۔ وزیر اعظم نے بالکل درست کہا ہے کہ حکومت سپریم کورٹ کے فیصلہ کا مکمل احترام کرتی ہے اسی لئے آسیہ بی بی کو ملتان جیل سے ’آزاد‘ کرواکے کسی خفیہ مقام پر محصور کردیا گیا ہے تاکہ اس کی جان کے دشمن اس تک نہ پہنچ سکیں۔ سپریم کورٹ اسے بے گناہ سمجھتی ہے اس لئے حکومت بھی اسے بے گناہ کہتی ہے۔ تحریک لبیک اسے قصور وار سمجھتی ہے تو شہریار آفریدی اب اسے سمجھابجھا کر یہ بتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ آسیہ کو ملک سے باہر بھیج کر سانپ بھی مر جائے گا لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی۔

احتجاج اور توڑ پھوڑ کی لاٹھی لبیک تحریک والے کسی دوسرے موقع پر استعمال کرسکتے ہیں۔ آسیہ کوئی اس ملک کی آخری عیسائی یا اقلیت سے تعلق رکھنے والا آخری فرد تو نہیں ہے۔ ابھی تو ٹارگٹ کرنے کے لئے بہت سے لوگ باقی ہیں۔ اپنے وطن کو شدھ کرنے کی تحریک بھارت کے ہندو انتہا پسند ہی نہیں چلا رہے ، پاکستان کے جاں باز مسلمان بھی اس پاک دھرتی پر غیر عقیدوں سے تعلق رکھنے والوں کا وجود برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اس لئے مفاہمت کے نام پر امن و امان قائم رکھنے کے ذمہ دار وزیر شہریار آفریدی لبیک والوں کو یہی سمجھا رہے ہوں گے کہ اگر انہوں نے اپنی ساری صلاحتیں آسیہ کے خلاف استعمال کرلیں تو باقی اقلیتوں کی ’صفائی ‘ کا کام کون کرے گا۔ حوصلہ رکھیں، دم لیں ، یہ ملک بھی یہیں ہے، عوام بھی اسلام کے جاں نثار ہیں اور حکومت بھی مدینہ کی ریاست بنانے کا عزم کئے ہوئے ہے۔ پھر جلدی کس بات کی ہے۔ ابھی سپریم کورٹ جوش میں آئی ہوئی ہے۔ اس لئے آسیہ کے معاملہ کو بھول کر مستقبل کے امکانات کی طرف دیکھا جائے تو بہتر ہوگا۔

شہر یار آفریدی نوجوان اور باصلاحیت ہونے کے علاوہ پرجوش اور صاحب ایمان ہیں ۔ اس لئے اس بات کا کامل یقین رکھنا چاہئے کہ لبیک تحریک کے معمر جوشیلے لیڈر بھی ان کی باتوں کو سمجھ جائیں گے اور اہل پاکستان کے علاوہ دنیا کو جلد ہی یہ خبر دے دی جائے گی کہ آسیہ کو بیرون ملک روانہ کردیا گیا ہے۔ یوں سپریم کورٹ بھی نظر ثانی کی سعی لاحاصل سے بچ جائے گی، حکومت کو بھی اطمینان کا سانس لینا نصیب ہو گا اور لبیک والے بھی مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے میں آزاد ہوں گے۔

یہ یقین بھی رکھنا چاہئے کہ وزیراعظم عمران خان نے شہر یار آفریدی سے مشاورت کے بعد ہی آج کا بیان دیا ہو گا کہ حکومت سپریم کورٹ کے ساتھ ہے۔ یا کم از کم ان کی سینیٹ کی میں کی گئی بصیرت افروز تقریر سن لی ہوگی۔ اور یہ جان چکے ہوں گے کہ ان کے دیرینہ جا ں نثار اور امور داخلہ میں ان کے معاون شہر یار آفریدی اپنی ہوشمندی سے لبیک والوں کو بھی سپریم کورٹ کا احترام کرنے پر ’مجبور‘ کرنے میں راضی ہونے والے ہیں۔ بصورت دیگر سپریم کورٹ کا ساتھ دینے کے بارے میں عمران خان کے آج کے دعویٰ کو ان کی 31 اکتوبر والی تقریر کی روشنی میں دیکھنے والے تو نت نئے سوال اٹھا کر حکومت کو عاجز اور عمران خان کو شرمندہ کرسکتے ہیں۔

کہاں شر پسند عناصر سے نمٹنے کی دھمکیاں اور کہاں ان کے نائب وزیر داخلہ کی طرف سے انہی شر پسندوں کو گلے لگانے کی حکمت عملی۔ بظاہر دکھائی دینے والا یہ تضاد دراصل نیا پاکستان کے تصور سے ناآشنا لوگوں کی شرارت ہے ورنہ عمران خان نے نہ پہلے غلطی کی تھی اور نہ اب کوئی غلط اعلان کیا ہے۔ وہ کل بھی سپریم کورٹ کی حمایت ہی کررہے تھے اور آج بھی اسی کا اعادہ کررہے ہیں ۔ البتہ درجن بھر دھمکیوں ، چند دھرنوں اور چند سو ارب روپوں کے نقصان کے بعد حکمت عملی تبدیل کرنا تو عین دانشمندی ہے۔ یہ سبق عمران خان کو ان کے ساتھی اور معاون شہریار آفریدی ہی نے از بر کروایا ہو گا۔ ورنہ عمران خان کی زبان تو کچھ بھی اگل سکتی ہے۔ اسی لئے تو نئے پاکستان کا ماٹو ’یو ٹرن ‘ قرار پایا ہے۔

عمران خان کا نیا پاکستان اگر اسی رفتار اور اسی شان سے آگے بڑھتا رہا تو ملک میں انتشار پیدا کرنے والوں کو سڑکوں پر نکلنے کی زحمت گورا کرنے کی ضرورت بھی نہیں رہے گی۔ یہ کام حکومت کے ایوانوں سے باآسانی سرانجام دیا جاتا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali