ڈومیسٹک کرکٹ میں بہتری کے لیے ماجد خان کی تجاویز


*آپ کے ڈیپارٹمنٹ کرکٹ پر تنقید کی بنیاد کیا ہے؟

ڈیپارٹمنٹ کرکٹ نے ڈومیسٹک کرکٹ تباہ کردی۔ ڈیپارٹمنٹس کی بنیاد ہی نہیں تھی۔ اچھے کھلاڑی ایسوسی ایشن والے نکالتے اور لے جاتے ڈیپارٹمنٹ والے، اور پھر ان کی وجہ سے ٹرافیاں جیت جاتے۔ مطلب یہ کہ لڑکے نکال رہے ہیں ، ایسوسی ایشن والے اوران سے فائدہ کوئی اور اٹھا رہا ہے۔ ایسوسی ایشن صرف پلیئرپیدا کرنے کے لیے رہ گئی۔ حالانکہ نہ ان کے پاس پیسہ ہے اورنہ ہی سوچ لیکن پھربھی وہ اچھے نتائج دیتے رہے ہیں ۔ ڈومیسٹک کرکٹ کی خرابی کی بات ہو توایسوسی ایشنوں کوسب گالیاں دیتے ہیں ، ڈیپارٹمنٹس کی کوئی بات نہیں کرتا، جنھوں نے کبھی کوئی پلیئرپیدا نہیں کیا۔ کارداراگرعقل مندی کا مظاہرہ کرتا تو ڈیپارٹمنٹس سے اسپانسرز کراتا کیونکہ ادارے حکومتی قبضے میں تھے اور وہ حکومت کا حصہ تھا۔ کئی بارسسٹم آپ نے بنایا اوراسے توڑا۔ ڈیپارٹمنٹ کرکٹ سے مقابلے کی فضا بن نہیں سکتی، لوگوں کو ڈیپارٹمنٹس کے درمیان میچ میں کیا دلچسپی ہوگی، دوشہروں کی ٹیموں کے درمیان میچ تولوگ شوق سے دیکھیں گے۔ اس طرح ڈویژنل ٹیموں کے درمیان میچ میں بھی لوگوں کی دلچسپی ہوگی۔

بھٹو اور حفیظ کاردار

عبدالحفیظ کاردارنے ایڈمنسٹریٹر کے طور پر پاکستان کرکٹ کوخراب کیا۔ فرسٹ کلاس کرکٹ کا بیڑاغرق کیا۔ ڈیپارٹمنٹ کرکٹ کو متعارف کرایا، جس نے ڈومیسٹک کرکٹ کوتباہ کردیا۔ چیئرمین بورڈ ہوکرانھوں نے خود ہی ڈومسیٹک کرکٹ کے نظام کوعزت نہیں دی۔ اس کی میں مثال دیتا ہوں ۔ پاکستان کی سیریزہوتی تو کھلاڑی کاؤنٹی کرکٹ چھوڑ کر کھیلنے آتے اورواپس لوٹ جاتے۔ کاردارنے کبھی ان پرڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے پرزورنہیں دیا۔ وہ اگران سے کہتا کہ تم کاؤنٹی کرکٹ ضرورکھیلو لیکن ساتھ میں ڈومیسٹک کرکٹ میں بھی حصہ لواوراگرایسا نہیں کرو گے توقومی ٹیم میں نہیں کھیلو گے۔ اس پرکھلاڑی ضرورڈومیسٹک کرکٹ کھیلتے کیونکہ کاؤنٹی میں وہ جوکچھ بھی کریں ، اصل اہمیت توپاکستان کی طرف سے کھیلنے کی تھی، اسی سے وہ دنیا بھرمیں جانے جاتے۔

کھلاڑیوں کے ذہن میں یہ بات کہ وہ ناگزیرہیں ، خود کاردارنے بٹھائی۔ کاردارچاہتا ہی نہیں تھا کہ پاکستان ٹیم settle down ہو۔ اس لیے وہ باربارکپتان بدلتا۔ اپنے دورمیں چھ سات باراس نے کپتان بدلا۔ سترکی دہائی میں ہماری ٹیم اتنی مضبوط تھی کہ ہم باہرجاکربھی ٹیموں کوہراسکتے تھے لیکن اسے ڈرتھا کہ اس سے اس کا نام پاکستان کرکٹ میں بہت پیچھے چلا جائے گا اوراس کا جوskipperکا امیج بنا ہے وہ ختم ہوجائے گا، وہ ایڈمنسٹریٹر کے طورپراچھا کام کرتا تولوگ کہتے کہ کپتان بھی بہت اچھا تھا اور ایڈمنسٹریٹر بھی، اس طرح عزت میں زیادہ اضافہ ہوتا۔

پاکستان میں کلب کرکٹ مضبوط بنیادوں پر کیوں نہ استوار ہوسکی؟

انگریزنے برصغیرمیں جواچھے کام کیے، ان کو ہم نے آگے چلایا نہیں لیکن یہاں رہ کرجوخرابیاں وہ پیدا کر گیا، انھیں ہم نے جوں کا توں رہنے دیا۔ ہمارے ہاں انگریزدورمیں کلب کرکٹ کوغلط بنیاد پر استوار کیا گیا، جس میں انگریز کا اپنا مفاد تھا لیکن اس کے چلے جانے کے بعد اس کا متعارف کرایا گیا نظام چلتا رہا۔ انگریزنے لاہورجم خانہ کلب بنایا۔ کیا یہ لاہورکی نمائندگی کرتا ہے؟ یہ اس نے سول اورفوجی افسرشاہی کے لیے بنایا۔ اس طرح اس نے پنجاب کلب بنایا، کاروباری کمیونٹی کے لیے، جوکہ باقی سارے پنجاب کی نمائندگی نہیں کرتا۔

اس طرز پر کراچی میں جم خانہ کلب اورسندھ کلب بنے۔ یہ کلب اشرافیہ کے لیے قائم ہوئے۔ اسپورٹس میں کلب کا تصورمحلے یا بستی سے وابستہ ہوتا ہے۔ انگریزوں کے ہاں کرکٹ، فٹ بال اورہاکی کے جتنے بھی کلب ہیں وہ محلے یا بستی پربنیاد رکھتے ہیں اوران کے نام سے علاقائی نسبت ظاہر ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں اس نے ایسا اس لیے نہیں ہونا دیاکہ کہیں عوام میں cohesionنہ ہوجائے کیونکہ اسپورٹس لوگوں کوجوڑتی بھی ہے، محلے کی بنیاد پرکلب ہوتے توہرطرح کا بندہ اس کا ممبربن سکتا تھا، جم خانہ کا ممبرتوگنے چنے بندے ہی بن سکتے ہیں ۔

اس لیے انگریزدورسے ہمارے ہاں کلب کا جونظام چل رہا ہے وہ بغیرمنصوبہ بندی کے اورشہرمیں موجودہ علاقوں کی بنیاد پرنہیں ہے۔ ایک بندے نے کلب کھڑی کردی۔ نہ پیسہ ہے۔ نہ گراؤنڈ ہے، بس اس نے کلب پراپنا تسلط قائم کرلیا ہے اب ساری عمروہ کلب کا کرتا دھرتا بنا رہے گا، اس کا نہ وژن ہے اورنہ کرکٹ کی سوجھ بوجھ اسے ہے۔ وہ کلب ٹورنامنٹ کھیلے گا، اورایسوسی ایشن کوووٹ دے گا۔ ان کلبوں کے میچوں میں لوگوں کی دلچسپی ہونہیں سکتی کیونکہ یہ کسی خاص علاقے کی نمائندگی نہیں کرتے۔ کلب پریکٹس سیمنٹ وکٹوں پرکرتے ہیں ، میچ ان کے سیمنٹ وکٹوں پرہوتے ہیں ، بڑی کرکٹ میں جب بیٹسمین ٹرف وکٹ پرکھیلتے ہیں ، تومشکلات کا شکارہوجاتے ہیں ۔

آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ گراؤنڈزکی تعداد میں اضافہ ہونا چاہیے تھا لیکن ہمارے ہاں اس کے الٹ ہوا اورپہلے سے موجود بہت سے گراؤنڈ ختم ہوگئے۔ ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں کہ اسپورٹس کتنی بڑی انڈسٹری ہے، اس کے چلنے سے کتنے دوسرے شعبے چل پڑتے ہیں ۔

آسٹریلیا میں ڈومیسٹک کرکٹ کا نظام کیسے کام کرتا ہے؟

آسٹریلیا کی ٹیم ڈومیسٹک کرکٹ کے نظام کی مضبوطی کے باعث تگڑی ہے، اس لیے وہ تھوڑا کمزور پڑیں توجلد ہی سنبھل جاتے ہیں ۔ ان کی اسٹیٹ ٹیم مین سٹی سے نکلتی ہے۔ نیوساؤتھ ویلز کی ٹیم سڈنی سے بنتی ہے۔ وکٹوریا کی ٹیم میلبورن سے۔ کوئنزلینڈ کی برسبن سے۔ ویسٹرن آسٹریلیا کی پرتھ سے۔ ساؤتھ آسٹریلیا کی ٹیم ایڈیلیڈ سے۔ ان کی کلب ٹیم محلے پربنیاد رکھتی ہے۔

ہر محلے میں کلب کے چار درجے ہیں ۔ اے، بی، سی اور ڈی۔ سولہ برس وہاں اسکول کی لازمی تعلیم ہے۔ اس کے بعد آپ محلے کی کلب ٹیم میں جائیں گے۔ ڈی سے آغاز کریں گے، پھرپرفارمنس کی بنیاد پرسی، بی، اور پھراے ٹیم سے آپ اسٹیٹ کی ٹیم کے لیے منتخب ہوتے ہیں ۔ ہم نے فرسٹ کلاس کرکٹ کو گریڈ کرکٹ کہہ دیا، وہاں کلب کرکٹ کوگریڈ کرکٹ کہا جاتا ہے۔ چھ اسٹیٹس ہیں ، ہرٹیم پانچ میچ اپنی اسٹیٹ میں ، پانچ باہر جا کر کھیلتی ہے۔ قومی ٹیم کا کپتان وہ عام طور پر اسے بناتے ہیں ، جواسٹیٹ کا کپتان رہا ہو۔

آسٹریلیا میں کپتانی کوبہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ کپتان کوتیارکیا جاتا ہے۔ آپ کی تاریخ میں دوکپتان کاردار اور عمران ہی ہیرو ہیں ۔ آسٹریلیاکے کئی کپتان ان کے ہیرو ہیں ۔ عمران کے بعد پاکستان میں بیس کے قریب لوگ کپتان بنے، اس عرصے میں آسٹریلیا میں پانچ چھ کپتان آئے۔ یہ بات طے ہے کہ جتنی ایڈمنسٹریشن مضبوط ہوگی اتنی ہی کرکٹ اچھی ہوگی۔ آسٹریلیا میں ہرکھلاڑی کا متبادل ہوتا ہے، اس لیے وہاں پلیئرپاوربھی نہیں ۔ ہمارے ہاں متبادل کھلاڑی نہیں ہوتے اس لیے پلیئرپاوربھی بہت ہے۔

ہمارے ہاں فرسٹ کلاس کرکٹ اورانٹرنیشنل کرکٹ میں بہت فر ق ہے۔ آسٹریلیا میں یہ فرق کم ہے، اس لیے وہاں کھلاڑی ذہنی اعتبار سے مضبوط ہوتے ہیں کیونکہ انھوں نے مسابقتی ماحول میں ڈومیسٹک کرکٹ کھیلی ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2