خالی مکانوں میں جلتے دیے


 

\"sibteساری دنیا میں حادثات اور سانحات رونما ہوتے ہیں لیکن کوئی یوں ہاتھ پہ ہاتھ دھر کے بیٹھ نہیں جاتا۔ جیسا رو دھو کر ہم بیٹھ جاتے ہیں۔ کسی دوسرے سانحے اور حادثے کے انتظار میں۔ متواتر سنتے آ رہے ہیں کہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے۔ کیا ٹوٹی ہوئی کمر کے ساتھ کوئی یوں سرگرم عمل ہو سکتا ہے جیسا کہ وہ ہو رہے ہیں؟ نیشنل ایکشن پلان ایک جامع دستاویز ہے جو ہمارے تمام مسائل کا احاطہ کرتی ہے۔ لیکن کوئی اس پر دل و جاں سے عمل پر آمادہ بھی ہو؟دہشت گردی صرف خوفناک اور دل دہلا دینے والے حملوں کا نام نہیں۔ حضور، یہ ایک بیانیہ ہے ۔ ایک مبسوط اور مخصوص ذہنی عرق ریزی کے ساتھ گھڑا گیا نظریہ ہے۔ جس کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق ہو یا نہ ہو لیکن گزشتہ ساٹھ برس کے مسلسل جمہوریت گریز رویوں اور ایک خاص طرح کی پیدا کی گئی ذہنی کیفیت سے قریبی تعلق ہے۔ جب تک اس مخصوص بیانیے کے بالمقابل بیانیہ وجود میں نہیں آتا اس کا مقابلہ کیسے کیا جاسکتا ہے؟ کیا اس اس بالمقابل عقلی بیانیے کو جو ہمارے پاس موجود ہے، حکومت اور ریاست نے بھی اختیار کیا ہے؟بعض مدہم اور مبہم سے اشاروں کے سوا ہمارے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے کہ حکومت و ریاست نے اپنا وہ بیانیہ تبدیل کر لیا ہے۔ جس نے ہمیں یہ دن دکھائے ہیں۔ وہ مبہم اشارے یہ ہیں کہ وزیر اعظم نے ایک تقریر میں کہا ہے کہ پاکستان کا مستقبل ایک لبرل اور جمہوری پاکستان میں ہے۔ لیکن عمل ؟  وہ کہیں نظر نہیں آتا۔ مثلا! پچھلے دنوں کمسن لڑکیوں کی شادی کے معاملے پر ایک بل پیش کیا گیا۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے نیم خواندہ ملاوں نے اس کا جو حشر کیا وہ تو کیا۔ لیکن اس وقت حکومت کہاں تھی؟  جو سمجھتی ہے کہ ریاست کا مستقبل جمہوریت اورسماجی آزادیوں میں ہے۔ کیا آج بھی وہ وقت نہیں آیا جب ہم پیچھے مڑ کر دیکھیں کہ ایک منتخب پارلیمان کی مٹی پلید کرنے کے لیے ایک نامزد ادارے کا ہاتھی ہم نے کیوں پال رکھا ہے؟  اور یہ جمہوریت کو تقویت دینے کا کونسا طریقہ ہے؟  دور سے جلتے بجھتے چراغوں کو دیکھ کر پیدا ہونے والی امید اس وقت دم توڑ دیتی ہے ۔ جب وزیر داخلہ سے ریاست کی عین ناک کے نیچے بیٹھ کر اس کے سینے پر مونگ دلنے والے ایک ملاں کے متعلق سوال کیا جاتا ہے تو کمال اطمینان سے جواب دیتے ہیں کہ ثبوت کہاں ہیں؟  چلیں اس ملاں کو تو چھوڑیں کہ اس کے سامنے کھڑا ہونے پر داخلی قانون کے ماتھے پر پسینہ بہنے لگتا ہے۔ یہ جو گلی گلی فرقہ واریت کی آگ بھڑکاتے ملا، خطیب، ذاکر اور واعظ دندناتے پھر رہے ہیں۔ جو آگ اگلتے اور اپنی جیبیں بھرتے ہیں۔ ان کو لگام ڈالنے کے لیے کونسے لاﺅلشکر کی ضرورت ہے؟  پچھلے ہفتے سندھ حکومت نے جمعے کے خطبے کو حکومتی نگرانی میں بروئے کار آنے کا اعلان کیا۔ ایسا سن کر ہی دل و دماغ میں اطمینان کی ایک پرسکون سی لہر دوڑ گئی۔ کاش کہ ایسا ممکن ہو جائے۔ مساجد کے لاوڈ سپیکر پر پابندی اور خطبہ جمعہ کو حکومتی نگرانی کے تحت لانا۔ اگر یہ دونوں کام حکومت کر گزرے تو جان لیجیے فرقہ واریت جو دہشت گردی کی جو کوکھ ہے، اس کی نس بندی ہو جائے گی۔ لیکن حکومت کوئی ایسا عملی کام کرتے دکھائی نہیں دے رہی۔ اس کی تو کچھ اور ہی ترجیحات ہیں۔ سڑکیں، پل، ٹھیکے اور کانٹریکٹ۔ حضور اگر ٹھیکہ دینا ہی ہے تو کسی دن پاک افغان طویل سرحد پر باڑ لگانے کا ٹھیکہ دے دیجیے۔ تاکہ روز اول سے ہمارے سروں پر مسلسل ٹوٹتا عذاب تو تھمے۔ یہ جو کل باچا خان یو نیورسٹی پر عذاب نازل ہوا ہے۔ وہ بھی یہیں سے آیا تھا۔ یہ عذاب اس دن ختم ہوگا جب دونوں ممالک کے درمیان ڈیورنڈ لائن پر سمجھوتہ اور اس طویل سرحد پر کوئی رکاوٹ کھڑی کی جائے گی۔ کشمیر سے دونوں نہیں، صرف ایک آنکھ تھوڑی دیر کو ہٹا کر ڈیورنڈ لائن پر بھی توجہ کر لیجیے جناب۔ اور فاٹا کو جتنا جلدی ہو ایک صوبائی اکائی اور انتظام میںلے آئیے۔ پختون خواہ حکومت اپنی ذمہ داری قبول کر ے باچا خان یونیورسٹی کے سانحہ پر۔ آپ نے چون گارڈ تو بھرتی کر لیے اور انہوں نے بلا شبہ بہت دلیری سے دہشت گردوں کا مقابلہ کیا۔ لیکن صاحب پیشہ ورانہ قابلت و صلاحیت کی دلیری و بہادری کے علاوہ بھی کچھ شناخت ہوتی ہے۔ جو یہاں عنقا تھی۔ ہماری ریاست و حکومت کا بنیادی المیہ ہی یہ ہے کہ سوائے ایک دو اداروں کے کہیں بھی پیشہ ورانہ صلاحیت نظر نہیں آتی۔ یہ وہ شے ہے جس کے بغیر حکومت ہو یا اس کے ادارے یا روزمرہ زندگی کا کام نہیں چلتا۔ اور براہ کرم ہمارے بچوں کی المناک اموات کو قربانی کا نام مت دیں۔ بچے بچے ہوتے ہیں۔ زندگی کا اصل سرمایہ۔ وہ قربانی دینے کے لیے نہیں ہوتے۔ ان کی ماﺅں نے انہیں صبح سویرے تیار کر کے قربانی پیش کرنے کے لیے نہیں بھیجا تھا۔ قربانی دینے کا وقت اور مقام کچھ اور ہوتے ہیں۔ اور ان کی اموات پر فخر کرنا بھی چھوڑیں۔ یہ فخر کا نہیں، شرم اور دکھ کا مقام ہے۔ جب تک فرقہ واریت کو لگام نہیں دی جاتی۔ غلط تاریخ پڑھائے جانے کا سلسلہ موقوف نہیں ہوتا۔ فوج کے علاوہ سول ملیشیا کا قلع قمع نہیں کر دیا جاتا۔ تعلیمی و سول اداروں میں اہم ترین جگہوں پر بیٹھے ہوئے معلوم سہولت کاروںکے گرد گھیرا تنگ نہیں کیا جاتا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنے کا عزم روشن دن کو کھلی آنکھوں سے دیکھے ہوئے اس خواب جیسا ہے جس کی کوئی تعبیر نہیں ہوتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments