بے زبان جو ہوئے


\"jehangirبچپن میں ایک استاد صاحب نے کہا تھا بیٹا جو چیز اس جماعت میں غیر اہم سمجھ کر چھوڑ دو گے وہی چیز آپ کو اگلی جماعت میں تنگ کرے گی۔اس لئے بہتر یہی ہے کہ اس جماعت کا جتنی بھی سلیبس ہے یہیں پڑھ لو آگے مشکل نہیں ہو گی۔ ہاں اگر یہ سوچتے ہو کہ جو کچھ چھوڑ دیا بس چھوٹ گیا تو غلط سوچتے ہو۔ اس بات کو آج سولہ سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے ۔لیکن استاد صاحب کی یہ نصیحت آج کل مجھے کچھ زیادہ ہی یاد آنے لگی ہے۔ واقعی ایسا ہی ہوا جو چیز میں نے پہلی کلاس میں غیر اہم سمجھ کر چھوڑ دی تھی یا توجہ نہیں دی تھی آج جب مجھے اس سے واسطہ پڑتا ہے تو بہت مشکل ہو تی ہے۔ میں تختی بہت جلدی میں لکھا کرتا تھا اور لکھائی پرتوجہ نہیں دیتا تھا آج حالت یہ ہے کہ اگر کسی پارسل پر پتہ لکھنا ہو تو کمپیوٹر میں سے پرنٹ نکالنا پڑتا ہے۔پھر احساس ہوتا ہے کہ کاش اسی وقت تختی آرام سے لکھ لی ہوتی۔

یہی کچھ ہمارے مذہبی لوگوں کے ساتھ ہوا ہے۔اس میں مجھے رتی برابر بھی شک نہیں کہ یہی لوگ انسانیت کی سب سے زیادہ خدمت کرنے والے ہیں، انسانیت کا محسن یہ طبقہ انسان کی خدمت اور اس کی بھلائی کی محنت میں اس حد تک مصروف ہو گیا کہ وہ آنے والے وقت کی ضروریات کا ادراک تک نا کر سکا۔ وہ اس حد تک بے خبر رہا کہ اس کا دشمن نئے نئے ہتھیاروں سے لیس اس کی چار دیواری میں گھس آیا۔

اس طبقہ نے جدت کو گناہ سمجھا یا جدت کوا پنا ہی نہیں سکا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب ہر طرف سے اس پر اور نظریات پر گولہ باری ہوتی ہے تو یہ اپنی بات منوا تو کیا دفاع بھی نہیں کر سکتا۔ اگر آج وہ بولنا بھی چاہتا ہے تو اسے بولنے نہیں دیا جاتا۔ وہ کب، کس وقت، کہاں بولے گا اس کا فیصلہ آج اس کا دشمن کرتا ہے۔ ایک طرف یہ طبقہ بے زبان ہوا اور دوسری طرف اس کے نوجوان مقلد پر یلغار ہوئی۔ نوجوان کنفیوز ہو گیا۔ کوئی راستہ نظر نہیں آیا تو اس کی ہی انگلی پکڑ لی جس نے ہاتھ بڑھایا۔

آج اگر یہ لوگ بھی جدید ہتھیاروں سے لیس ہوتے، یہ بھی جدید ذرائع ابلاغ کو اپناتے اور ان کا استعمال کرتے تو آج جو غیر ضروری اور غیر اہم سوال اور بحثیں جنم لے رہی ہیں یہ اپنی موت آپ مر جاتیں۔

ایک طوفان کھڑا ہو گیا۔ آخر کسی نے پوچھا تو اتنا ہے کہ کیا کسی گروہ کو حکومت وقت غیر مسلم قرار دے سکتی ہے۔ یہ علما کا فرض ہے کہ اس کا جواب دیں۔ پھر مناظرے ہوئے، بحثیں اور بڑی بڑی تحرریں شروع ہو گئیں۔ کسی نے کہا دے سکتی ہے اور کسی نے کہا نہیں۔ کسی نے تو اس مسئلہ کو دوبارہ سے اٹھانے کا مشورہ دے ڈالا۔

پاکستان کی پارلیمنٹ کا تو پتہ نہیں کہ اس کا کیا دائرہ اختیار ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ برٹش پارلیمنٹ اگر سوچتی ہے کہ نیلی آنکھوں والے تمام لوگوں کو مار دیا جائے تو ان کو مار دیا جائے۔ اگر پارلیمنٹ کہتی ہے کہ عورت مرد ہے اور مرد عورت تو پھر ایسا ہی ہے۔ سچ یہ ہے کہ جو کام پارلیمنٹ کر دے اسے کوئی بھی دوسرا چیلنج نہیں کر سکتا۔

لیکن کیا کریں آج یہ مذہبی طبقہ بے زبان ہو چکا ہے۔ آج اپنی مرضی کے ملا لوگوں کے سامنے لائے جاتے ہیں اور ٹاک شوز میں عجیب طرح کے ڈرامے ہوتے ہیں۔اور دوسری طرف کوئی نہ کوئی متنازع سوال اٹھا دیا جاتا ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ ایسے سوال بس ایسے ہی اٹھ جاتے ہیں؟ یہ بحثیں ایسے خواہ مخواہ میں شروع ہو جاتی ہیں؟ ان کے پیچھے کوئی منصوبہ بندی نہیں ہوتی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments