سو دن میں سمت کا تعین بھی نہیں ہو سکا


چیف جسٹس بھی کسی سیاست دان کی طرح پاپولر فیصلوں اور اعلانات پر یقین رکھتے ہیں۔  اسی لئے اب انہوں نے ڈیم بنانے کے علاوہ آبادی پر کنٹرول کے منصوبہ کا اعلان کیا ہے اور غیر شادی شدہ لوگوں کو مشورہ بھی دیا ہے کہ وہ شادی ہونے کی صورت میں دو بچوں سے زیادہ پیدا کرنے کی کو شش نہ کریں۔  دسمبر کے دوسرے ہفتے میں سپریم کورٹ میں آبادی میں کمی کے حوالے سے ایک کانفرنس بھی منعقد ہوگی جس میں چیف جسٹس کے علاوہ وزیر اعظم بھی شریک ہوں گے۔

گویا عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومت کے سربراہ ایک بار پھر یہ اعتراف و اعلان کریں گے کہ قومی منصوبوں کے آغاز اور تکمیل کی ذمہ داری حکومت پر نہیں بلکہ سپریم کورٹ پر ہی عائد ہوتی ہے۔  حکومت تو کسی اچھے بچے کی طرح اس کے بنائے ہوئے منصوبوں پر عمل کرکے انہیں کامیاب کروانے کی کوشش ہی کرسکتی ہے۔  لہذا ڈیم فنڈ کو وزیر اعظم فنڈ کہنے کے بعد اب آبادی کنٹرول منصوبہ میں سپریم کورٹ کی قیادت قبول کرنے کا اعلان کیا جائے گا۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور تحریک انصاف کی حکومت اب تک خارجہ پالیسی میں جس سب سے بڑی کامیابی کا سہرا اپنے سر باندھ سکتے ہیں، وہ بھی پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی عطا کردہ ہے۔  انہوں نے اگست میں عمران خان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لئے آئے ہوئے بھارتی پنجاب کے وزیر اور سابق کرکٹر نوجوت سنگھ سے ملاقات کے دوران بابا گرونانک کی 550 ویں سالگرہ کے موقع پر گردوارہ دربار صاحب کرتار پور تک سکھ زائرین کی رسائی کے لئے سرحد کھولنے کی پیش کش کی تھی۔

بھارتی حکومت نے بہت رد و کد کے بعد دو روز قبل اس پیش کش کو قبول کرلیا تھا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود نے بھارتی ہم منصب سشما سوراج کو یہ راستہ کھولنے کی سہولتوں کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں شرکت کی دعوت دی تھی۔ تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان سرد مہری کو ختم کیا جاسکے۔  بھارتی وزیر خارجہ نے البتہ یہ دعوت قبول کرنے سے معذرت کرتے ہوئے بعض جونئیر وزیروں کو بھیجنے کا وعدہ کیا ہے۔  شاہ محمود قریشی اسے بھی پاکستانی خارجہ پالیسی کی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔

حالانکہ کرتار پورا منصوبہ پر ہونے والی پیش رفت اگر دونوں ملکوں کے تعلقات کے حوالے سے کوئی سفارتی کامیابی ہے تو اس کا کریڈٹ تو آرمی چیف کو جاتا ہے جنہوں نے ایک وزیر اعظم کی تقریب حلف برداری کے موقع پر یہ پیشکش کرکے اس سفارتی بریک تھرو کا امکان پیدا کیا تھا۔ منتخب حکومت یا نمائندوں کا اس سفارتی مہم جوئی میں کوئی کردار نہیں ہے۔  بلکہ منتخب لیڈر تو ایسا وعدہ کرنے کی صورت میں ملک دشمنی کا خطاب پا سکتا ہے۔

عمران خان اور ان کے ساتھی اقتدار میں سو دن مکمل ہونے پر کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے اگر صرف یہ غور کرنے کی زحمت ہی کرسکیں کہ ملک میں پارلیمنٹ اور حکومت کا کیا کردار ہے۔  کیا فوج کو خارجہ اور سپریم کورٹ کو قومی منصوبوں کی باگ ڈور سونپ کر وزیر اعظم اور ان کی کابینہ اپنی سیاسی و سفارتی کامیابیوں کا اعلان کرسکتی ہے۔  کیا ملک میں جمہوریت اور نظم حکومت کے لئے یہ اچھی خبر ہے کہ حکومت کے کرنے کے اہم کام وہ ادارے کررہے ہیں جن کے پاس ان کاموں کا آئینی اختیار ہی نہیں ہے۔  البتہ حکومت اس پر تشویش کا اظہار کرنے کی بجائے ہم آہنگی کے نام پر جوش و خروش سے ان کی تکمیل میں حصہ دار بننا ضروری سمجھتی ہے۔  اگر یہی جمہوریت ہے اور اسی اختیار کے لئے عمران خان نے بائیس برس سیاسی جد و جہد کی تھی توپھر ملک میں انتخاب کا ڈھونگ کرنے اور پارلیمنٹ کا ڈرامہ رچانے کی کیا ضرورت ہے۔

اسی دوران ورلڈ اکنامک فورم نے جنوبی ایشیائی ملکوں میں سرمایہ کاری کے مسائل سے متعلق جو رپورٹ جاری کی ہے اس میں پانی کے بحران کے علاوہ افراط زر، دہشت گردی، شہری منصوبہ بندی میں ناکامی اور ناقص انفرا اسٹرکچر کو بنیادی وجوہ میں شامل کیا گیاہے۔  عمران خان کی حکومت ان میں سے کسی بھی مسئلہ کے بارے میں کسی منصوبہ کا آغاز نہیں کرسکی۔ عمران خان بدعنوانی کو تمام اقتصادی اور سیاسی مسائل کی جڑ قرار دے کر اس کے حل کے لئے اپنے سیاسی گرو مہاتیرمحمد سے ملنے کوالالمپور کا دورہ کرکے آئے ہیں۔  تاہم ملکی مبصرین کے علاوہ عالمی اکنامک فورم بھی اس مسئلہ کو پاکستان کی مالی مشکلات کے حوالے سے بنیاد نہیں مانتا۔ اس طرح بدعنوانی کے خلاف عمران خان کی مہم جوئی قومی معاشی احیا کا موجب بننے کی بجائے سیاسی انتقام کی شکل اختیار کررہی ہے۔

وزیر اعظم اپنی حکومت کے پہلے سو دن کی کارکردگی کے حوالے سے پبلک ریلیشننگ کے نئے پہلو تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔  ایسے میں اگر وہ تھوڑا وقت نکال کر یہ غور بھی کرسکیں کہ عوام نے ووٹ دیتے ہوئے ان سے کیا امیدیں باندھی تھیں تو شاید وہ کارکردگی کے سراب سے باہر نکل کر یہ جان پائیں کہ ان کی حکومت کے تو پاؤں ہی زمین پر نہیں دھرے۔  عوام کا دیا گیا اعتبار پورا کرنے کے لئے سیاسی اختیار کی کوشش کیے بغیر کسی قومی منصوبہ کی تکمیل ممکن نہیں ہو سکتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2771 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali