سٹیٹس کو
دسمبر کے ابتدائی دن تھے۔ سورج اپنے پورے آب و تاب سے افق پر چھائے ارغوانی بادلوں کی چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں کے پیچھے سے جھانک رہا تھا۔ گو یخ بستہ ہوائوں کی بِنا اس کی دھوپ میں تمازت کا فقدان تھا تاہم شفاف دھوپ اپنا سنہرا دامن پھیلائے خوشگوار دن کی ابتدا کا سندیسہ لئے اِس بستی میں بھی آہستہ آہستہ اتر رہی تھی، جہاں ظلمتِ شب میں ٹھٹھری ہوئیں، دور دور تک پھیلی چاروں طرف خود رو جھاڑیوں کی طرح زمین سے نکلیں، ٹیڑھی میڑھی، گارے سے بنی کچی جھونپڑیوں ایستادہ تھیں، جن کے درمیان سکینہ ننگے پاو ¿ں پاگلوں کی طرح اپنے دلاور خان کو ڈھونڈ رہی تھی، جس کا کہیں دور دور تک نشان نہ تھا۔
جھونپڑیوں کے بیچوں بیچ تنگ سی گلیوں میں کہیں کوئی موٹر سائیکل کھڑی تھی اور کہیں سائیکل، اکثر جگہ پانی کھڑا تھا اور کہیں دلدل نماکیچڑ۔ گزشتہ چند روز کی بارش نے بستی کے مکینوں کو صرف نشان پا پر چلنے پر مجبور کر دیا تھا۔ پانی اور کیچڑ سے بچنے کے لئے سکینہ شلوار کے دونوں پائنچے اوپر اُڑسے ننگی گوری پِنڈلیوں پر سردی کی پروا کئے بغیر اِدھر اُدھر بھاگ رہی تھی، اس اضطرابی کیفیت میں سر کی چادر کہیں نیچے سرِک چکی تھی اور سینے کے ابھار نہ چاہتے ہوئے بھی نمایاں ہو رہے تھے۔
حد درجہ پریشانی میں چلتے ہوئے وہ ناجانے کیا کیا کچھ نہ بڑبڑا رہی تھی۔ کئی بچے اس کیمپ میں اب تک کھو چکے تھے، انہیں آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی تھی یہ کوئی نہیں جانتا تھا لیکن آج سکینہ کسی قیمت پر اپنے اکلوتے دلاور کو کھونا نہیں چاہتی تھی، وہ اپنے آپ کو کوس رہی تھی کہ صبح چھ سالہ دلاور کی پہلی آواز پر اٹھ کیوں نہیں گئی۔ اسے اتنا یاد تھا کہ دلاور صبح سے اٹھ کر رو رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ اسے بھوک لگی ہے۔ وہ نیند میں ہی لیٹے لیٹے اسے پچکار رہی تھی کہ سورج نکلنے دو…. تندور کھلنے دو، تب تمیں کچھ لاکر دیتی ہوں، وہ یہ نہیں چاہتی تھی کہ صبح صبح ہی تندور والے سے ادھار مانگا جائے، جب تک وہ اٹھتی، ناجانے دلاور کس وقت خو د ہی کہیں نکل گیا۔ پہلے وہ سمجھی کہ شاید حوائج ضروری سے فارغ ہونے گیا ہے۔ کافی دیر تک انتظار کرنے کے بعد اسے فکر لاحق ہوئی تو اسکی نیند کوسوں دور جا چکی تھی، وہ فوراً اٹھ کھڑی ہوئی اور جسم پر چادر لپیٹتی ہوئی گھر سے باہر نکل آئی، لیکن دلاور کا دور دور تک نشان نہ تھا۔
سورج اب سرمئی بادلوں کے اوٹ سے نکل کر بستی کے اوپر آچکا تھا۔ سکینہ نے دیکھا کہ بائیں جانب سے مراد خان دلاور کا ہاتھ پکڑے ا سے واپس لا رہا ہے، اسے دیکھ کر سکینہ نے ایک طویل اور گہرا سکھ کا سانس لیا۔ اس کی آنکھوں میں نمی سی اتر آئی۔ ناجانے یہ موتی خوشی کے تھے یادلاور کی بھوک کے درد کا احساس۔
وہ جلدی سے آگے بڑھی اور نیچے جھک کر دلاور کو گلے لگالیا۔
” کہاں چلے گئے تھے؟“ سکینہ نے اس کے گالوں کو والہانہ چومتے ہوئے پوچھا۔
’ اس نے جانا کہاں تھا، وہاں پڑے کچرے کے ڈھیر میں اسے کھانے کو کچھ مل گیا تھا وہیں سردی سے سکڑا، ایک کونے میں بیٹھا کھا رہا تھا کہ میری نظر پڑ گئی۔ میں نے سوچا تم پریشان ہوگی اس لئے اسے زبردستی واپس لے آ یا ہوں۔ ‘ مراد خان نے سکینہ کی ننگی پنڈلیوں کی کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا تو سکینہ نے جھٹ سے شلوار کے پائنچے نیچے کھینچ لئے۔
” مراد بھائی، آپ کا بہت شکریہ۔ “ سکینہ نے ممنونیت سے کہا۔
”اس میں شکریہ کی کوئی بات نہیں، مجھے اپنا ہی سمجھو۔ “ مراد خان اس کے سینے پر نظریں گاڑتا ہوا بولا۔ ” سکینہ، میں تو تمیں اب بھی یہی کہتا ہوں کہ جمال شاہ ہمارا افسر ہے، اس کا کہا مان جاو ¿ …. صرف ایک رات کی ہی تو بات ہے، اسکے بعد وہ تمارا خیال بھی رکھے گا۔ “ مراد خان نے چند نوٹ دلاور خان کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے سکینہ کی طرف بھرپور نگاہ ڈالی۔
سکینہ کے چہرے پر کرب کے سائے مزید گہرے ہو گئے لیکن وہ خاموش رہی۔
” اچھا اب میں چلتا ہوں، دوپہر میں تمارے گھر آو ¿ں گا تب تم تیار رہنا۔ “ اس نے گلی کی نکڑ سے کچھ لوگوں کو آتے دیکھ کر فور اً مخالف سمت میں چلنا شروع کر دیا۔ سکینہ دلاور کا ہاتھ پکڑے اپنے گھر کی طرف چل پڑی۔
گھر کیا تھا ؟ گارے اور موٹے سرکنڈوں سے کھڑی کی گئی کچی جھونپڑی کو درمیان میں ایک بانس کا سہارا دیکر کچھ اس طرح اوپر روکاگیاتھا کہ مشکل سے ایک درمیانے قد کا آدمی سیدھا چل سکتا تھا۔ چھت پر موٹے بانسوں پر بچھی کھجور کے بڑے پتوں کی چٹائی اندر کی طرف سے دکھائی دے رہی تھی، جسے باہر اوپر سے گارے کی موٹی تہ کے لیپ سے اس طرح ڈھانپ دیا گیا تھا کہ وہ دو چار بارشوں کو سہار سکے۔ اس طرح کی سینکڑوں جھونپڑیاں اب اس بستی کے ماتھے کا جھومر تھیں۔ یہ بستی گزشتہ سال باڈر پرجنگ زدہ علاقوں سے نکل کر آنے والے متاثرہ لوگوں نے منظور شدہ حکومتی بستیوں کو چھوڑ کر میدانی علاقوں میں آ کر خود ہی آباد کر لی تھی۔ گو شروع شروع میں ملکی اور کچھ غیر ملکی اداروں نے اس طرف توجہ دی لیکن بے خانماں خاندانوں کی مسلسل ہجرت نے سارے ابتدائی انتظامات کو درہم برہم کر دیا تھا۔ اب اس شہر ِ درماندہ کا کوئی پرسانِ حال نہ تھا۔ کچھ مقامی سول محکمے اور چند پرائیویٹ ادارے یہاں کام کر رہے تھے، جن میں اکثر اپنے مفادات کی خاطر بے گھر انسانوں کے ہجوم کو جانوروں سے بھی کہیں بدتر سمجھتے تھے۔ سرکاری افسروں نے تو یہاں اپنے مالی مفادات کی دوکانیں کھول رکھی تھیں، جہاں کرپشن و جوان جسموں کا کاروبار اپنے عروج پر تھا، اور یوں جمال شاہ ڈپٹی کی پانچوں گھی میں۔
کئی ایک بار سرکاری میٹنگوں میں یہ سوال اٹھایا گیا اور کہا جاتا رہا کہ اب آفت زدہ علاقوں میں قدرے سکون آ گیا ہے لہذا ان بے خانماں گھرانوں کو واپس اپنے علاقوں میں بھجوانے کا انتظام کیا جائے لیکن اوپر سے ہمیشہ سٹیٹس کو برقرار رکھنے کا ہی حکم جاری ہوا۔
سکینہ سوچوں میں گم اپنی جھونپڑی میں داخل ہوئی تو اسے زمین ہلتی ہوئی محسوس ہوئی ….
”اوہ…. میرے خدا…. پھر زلزلہ …. “ سکینہ بڑبڑائی۔
اُس نے تیزی سے دلاور کا ہاتھ تھاما اور قریب ہی زمین پر سوئی ہوئی چار سالہ نازلی اور دو ڈھائی سالہ خانم کو بغل میں دبائے باہر نکل آئی، زلزلہ کے جھٹکے چند سیکنڈ تک مزید رہے اور پھر سکون ہو گیا۔ سکینہ باآواز بلند کلمہ طیبہ کا ورد کر تے ہوئے تھر تھر کانپ رہی تھی۔ بچوں نے ماں کی حالت دیکھ کر رونا شروع کر دیا اور اس کی ٹانگوں سے لپٹ گئے، خوف ان کے چہروں سے عیاں تھا، ممکن ہے کہ زلزلے کے جھٹکے ان کے لئے کوئی اہمیت نہ رکھتے ہوں لیکن اپنی ماں کو شدید خوف کی حالت میں دیکھ کر وہ خود دہل گئے تھے، وہ صرف اتنا ہی جانتے تھے کہ ان کی ماں زلزلے سے بہت زیادہ خوفزدہ ہو جاتی ہے تو یقیناً زلزلہ کوئی بڑی عفریت ہی رہا ہوگا۔
چند لمحوں میں ساتھ جڑے ہوئے گھروں سے بھی کچھ عورتیں باہر نکل آئیں تھیں۔ وہ بھی سب آیتوں کا ورد کر رہی تھیں لیکن وہ زیادہ خوف زدہ نہیں تھیں اس کی وجہ شاید یہی رہی ہو کہ اب چند مہینوں سے ہلکے ہلکے زلزلوں کا آنا ایک معمول سا بن گیا تھا، لیکن سکینہ کے لئے زلزلے کی آمد ہی اس کی پوری شخصیت کو ہلا ینے کو کافی تھی، جب بھی کوئی زلزلہ آتا تو اسے تین سال پہلے والا وہ جان لیوا زلزلہ یاد آ جاتا جس میں اس کا فیروز خان جان سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا اور وہیں سے اس کی زندگی میں ایک حقیقی بھونچال آگیا تھا۔ وہ تنِ تنہا تین بچوں کا بوجھ اٹھائے گھر گھر محنت مزدوری کرنے کے باوجود اپنی بیوگی کو کوئی اعتبار نہ دے سکی اور پھر زندگی نے اس پر اپنے دروازے بند کر دئے اور بھوک جیسی عفریت نے اس کے بچوں کو شکار کرنا شروع کر دیا۔
انہی دنوں پورے گاو ¿ں کا امن پہلے سے برباد تھا، لیکن زلزلہ کے بعد تو پورے علاقے میں ناجانے کہاں کہاں سے ناآشنا چہرے نظر آنے لگے اور پھر ایک دن وہی ہوا جس کا ذکر اکثر گاو ¿ں کے بوڑھے بزرگ کیا کرتے تھے…. انہیں گاو ¿ں چھوڑنا پڑ گیا کیونکہ جنگ چھڑ چکی تھی۔
سکینہ نے اپنے سر کو زور سے جھٹکا اور حواس میں واپس آ گئی۔ اس نے بچوں کی طرف دیکھا جو اب تک اس کی ٹانگوں سے لپٹے، خوف و ہراس کو چہروں پر سجائے بھوک اور بے بسی کی ہولناک تصویر بنے کھڑے تھے۔ وہ لرز گئی، اسے محسوس ہوا کہ اس کے رگ و پے میں چاروں طرف سے انسانی ماس کے جلنے کی بو اور اس کی سڑاند سرایت کرنے لگی ہے۔ اسے لگا بہت سی ننگی بے روح تعفن زدہ لاشیں اس سے چمٹی ہوئی، اس کی زندگی کا خراج وصول کر نا چاہتی ہیں اور وہ اپنے جسم کی بوٹیاں نوچ نوچ کر ان لاشوں پر قہقہے لگاتے ہوئے نچھاور کر رہی ہے، پھر یکلخت اس کے جسم میں ایک بھونچال سا آگیا، اسے لگا کہ زمین سے اٹھتے ہوئے انجان سے بگولے تیزی سے اس کے جسم سے ہوتے ہوئے اوپر کی طرف اٹھنے لگے ہیں۔ پھر جیسے اس کا کھویا ہوا اعتماد کہیں سے اچانک واپس لوٹ آیا ہے وہ سر اٹھا کر سیدھی کھڑی ہوگئی، یہ فیصلہ کن گھڑی تھی۔ وہ نپے تلے قدم اٹھاتی دوبارہ جھونپڑی میں داخل ہوگئی۔ دیوار کے ساتھ دھرے تیل کے سٹوو ¿ پر چائے کا پانی رکھا، مراد خان کے دئیے پیسوں سے ایک نوٹ دلاور خان کو دیکر قریب کے تندور سے روٹی لانے کو بھجوا دیا۔ اس بار وہ نازلی کو دلاور کے ساتھ بھجوانا نہ بھولی تھی۔
اسی کے ساتھ ہی اس نے دیوار کے ساتھ رکھے ایک زنگ آلود صندوق کو کھولا اور اس میں سے اپنا ایک پرانا زری کا سرخ جوڑا نکالا اور اسے غور سے دیکھنے لگی، یہ وہی جوڑا تھا جو اس نے نو سال پہلے اپنی شادی پر پہنا تھا جب وہ صرف سولہ سال کی تھی۔ شادی کی پہلی رات اس کی آنکھوں کے سامنے ناچنے لگی۔ فیروز خان کا چہرہ اسے دھندلا یا ہوا نظر آیا، اِس نے بڑھ کر اسکا ہاتھ تھامنا چاہا تو فیروزخان کسی خوشبو کی مانند ہوا میں پھیل گیا۔
بچوں کے تندور سے آنے تک اس نے سرخ جوڑا پہن لیا، بالوں میں کنگھی کرکے تیار ہو کر قریب بیٹھی خانم سے دانستہ توتلی زبان میں مسکراتے ہوئے پوچھا، ’تیسی لد رہی اوں میں ؟‘ تو معصوم خانم کے چہرے پر بے پایاں مسرت پھیل گئی اور وہ ماما کہہ کر اس کے سینے سے لپٹ گئی۔
ابھی مراد خان کے آنے میں چند گھنٹے باقی تھے لیکن اس کچی جھو نپڑی میں سٹیس کو بدل چکا تھا۔
- سعادت حسن منٹو: حقیقت کیا ہے؟ - 07/01/2019
- تسطیر ہے کیا؟ - 05/10/2018
- یہ راستہ کوئی اور ہے - 17/03/2016
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).