کیا غزالی نے مسلم دنیا میں عقل پسندی اور سائنس کا خاتمہ کیا تھا؟


اسی محرک اول کو مذہبی مفکرین خدا کہہ لیتے ہیں۔ نوفلاطونیت کے نزدیک بھی خدا کائنات کا تخلیقی اصول ہے جس سے کائنات کا مسلسل ظہور ہورہا ہے۔ روح انسانی بھی اسی ماخذ سے آئی ہے۔ تخلیق کا یہ سلسلہ ہمیشہ سے جاری ہے اور ہمیشہ جاری رہے گا۔ زمان کا اس میں دخل نہیں ہے۔ جب سے خدا موجود ہے تب سے تخلیق کا یہ سلسلہ بھی جاری ہے۔ فارابی اور ابن سینا بھی یہی مانتے تھے۔ قدم عالم کے اس نوفلاطونی تصور میں روح انسانی کا ماخذ بھی ذات باری ہے اور بدن سے آزاد ہونے پر روح درجہ بدرجہ ذات احد کی طرف لوٹ جاتی ہے۔

خدا تخلیق کا اصول ہے اور تخلیق درجہ بدرجہ ہے۔ ہر درجہ ایک عقل یا اصول ہے جو دوسروں درجات سے متسلسل ہے۔ خدا صرف ان عقول کا علم رکھتا ہے کیونکہ یہی عقول اصل اصول ہے۔ نیز خدا واحد ہے اور اس سے براہ راست کثرت کا ظہور نہیں ہوتا۔ کثرت تخلیق کے تسلسل میں درجہ بدرجہ پیدا ہوتی ہے۔ خدا کا علم عقول پر مبنی ہے۔ وہ جزئیات کا علم نہیں رکھتا۔ تاہم جزئیات بھی عقل کے تابع ہی قائم ہیں۔ گویا خدا اس تخلیق کا بطور کل علم رکھتا ہے لیکن جزئی علم نہیں رکھتا۔

ارسطو کی فکر سے ضمنی انحرافات کے باوجود یہی نوفلاطونیت مسلم فلسفہ کی معراج تھی جو ابن سینا کے فلسفیانہ نظام میں اپنی بہترین شکل میں سامنے آئی۔ غزالی نے اسی فکر کا رد کیا۔ ارسطو کے حوالے سے ہم اسے میٹافزکس کا رد کہہ سکتے ہیں۔ گویا غزالی نے ارسطو کی وجودیات یا فرسٹ فلاسفی کا رد کیا۔ تاہم بات زیادہ پیچیدہ ہے۔ کیا ارسطو کی فرسٹ فلاسفی کا انکار فلسفہ بطور کل یا تعقل کے انکار کے مساوی ہے؟ اگر ایسا ہے تو جدید فلسفہ کو کیا نام دیا جائے جس کی تعقلی شاخ نے ارسطو کی فکر میں اہم ترین ترمیمات کیں اور تجربی و سائنسی شاخ نے تو سرے سے ہی ارسطو کا رد کیا۔

اہم بات یہ ہے کہ جدید فکر اور غزالی دونوں ہی ارسطو کی وجودیات کے قائل نہیں ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جدید دور کے آغاز تک یہودی، مسیحی اور مسلم فلاسفہ اپنے مذہبی عقائد کا اثبات بھی ارسطو کی فکر کی اعانت سے ہی کرپاتے تھے۔ جدید فکر نے یہ بیساکھی چھین لی۔ غزالی ایک ایسے ماحول کا متکلم ہے جس میں ارسطو غیر متعلق ہوچکا ہو۔ چنانچہ تہافتہ کے مذہبی مسائل میں غزالی نے ارسطو کی وجودیات کے ساتھ ساتھ اس کی علمیات یعنی برہان demonstrative proof کا بھی رد کیا۔

غزالی کے نزدیک محض برہان مذہبی صداقت تک نہیں پہنچا سکتا۔ اس کے لیے کچھ اور بھی ضروری ہے۔ غزالی کے نزدیک یہ کچھ اور وحی یعنی نازل شدہ مذہبی کتاب تھی۔ جدید دور میں کئی مفکرین نے بھی یہی راہ اپنائی ہے کہ بعض صداقتوں میں برہان کے ساتھ ساتھ کچھ اور بھی ماننا چائیے۔ کانٹ کی مذہب پسندی نے اسے مجبور کیا کہ عقل کے لیے ایسے وجودی اصول بتائے جائیں جن کا علم حاصل کرنا عقل کے بس میں نہیں لیکن ان اصولوں کے مانے بغیر عقل خود اپنے فعل سے معذور رہتی ہے۔

کانٹ نامینا اور فی نامینا پر برہان یعنی عقلی دلیل کے استعمال کی حدود پر بھی غزالی کے قریب ہے کیونکہ تہافتہ کے دیباچہ میں منطقی و ریاضیاتی علوم کی گنجائش اسی مظہریاتی دنیا کے علم کے متعلق ہے۔ تاہم کانٹ کی جدت یہ ہے کہ غزالی کی طرح اہم ترین فلسفیانہ مسائل پر یکساں مضبوط لیکن متضاد عقلی دلائل دکھانے کے باوجود اس نے ایک طرف اپنے عہد کے سائنسی علوم کو منطقی بنیادیں دیں وہیں جدلیات کی طرف توجہ کی جس سے بعد ازاں جدید تعقلی فلسفے کے اہم ترین افراد یعنی شیلنگ اور ہیگل کی فکر برآمد ہوئی۔

غزالی نے تعقلی دلائل کا اختلاف دکھانے کے بعد محض ایمانی دلیل کی وکالت کی۔ مسلمانوں میں سائنس کا ہونا یہ نہ ہونا میرے ذاتی خیال میں غزالی کی ذات پر منحصر نہیں۔ سائنسی تحقیق اور اس کے عملی اطلاق کے جدید حالات اس وقت موجود ہی نہ تھے۔ غزالی سے کچھ مدت بعد ہی تاتاریوں نے اسلام کو سیاسی زوال بھی دوچار کردیا۔ ان حالات میں غزالی سے بھی شدید اعتقاد پرست پیدا ہوئے جن میں سرفہرست ابن تیمیہ ہیں جو منطق کا بھی رد کرتے ہیں۔

غزالی نے یہ نہیں کیا تھا۔ ہند میں احمد سرہندی تک آتے آتے ہندسہ کا بھی انکار ہوجاتا ہے۔ غزالی نے یہ بھی نہیں کیا تھا۔ غزالی کی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے تعقل کی تحدید کی لیکن چونکہ وہ ذاتی طور پر بھی فلسفہ سے زیادہ شغف نہ رکھتے تھے، سو انہوں نے تعقل کے کردار کو اس انداز سے طے کرنے کی کوشش بھی نہ کی جس سے مستقبل میں آنے والے کم از کم ان گنجائشوں کو ہی باقی رکھ پاتے جو خود غزالی نے روا کی تھیں۔ تاہم پھر یہ مسئلہ بھی ہے کہ خود مسلم تہذیب میں تعقل کا ذوق کس قدر تھا؟

اس کا اصولی جواب یہ ہے کہ مسلمانوں نے صرف اتنے تعقل کو ہی کافی سمجھا جو ان کے دین کو ثابت کرتا رہے۔ اس سے زیادہ کی چاہ کبھی نہیں رکھی گئی۔ چنانچہ مسلم فلسفہ میں تعقلی وجودیت یا مشائیت کے نمائندوں کو رد کرنے کے بعد غزالی نے تعقل سے اس کا محبوب ترین موضوع تو چھین لیا البتہ اسماعیلی باطنیوں کے کلام کا مقابلہ کرنے کے لیے غزالی نے دوبارہ برہان یعنی عقلی دلیل سے مدد لی۔ باطنیوں کا خیال تھا کہ ہر موضوع پر یکسان مضبوط عقلی دلائل موجود ہیں۔

متن کی ان گنت تاویلات کی جاسکتی ہیں۔ لہذا ایک امام ضروری ہے جس سے متن کے حقیقی و باطنی مفہوم کا علم حاصل کیا جاسکے۔ باطنی کلام کے رد میں اپنی کتاب میں غزالی نے دکھایا ہے کہ متضاد عقلی دلائل میں سے بہتر اور ٹھوس دلیل ڈھونڈنی ممکن ہے جس پر بھروسا کیا جاسکے۔ غزالی تاویل کے بڑے نمائندوں میں سے ایک ہے جس کی رائے میں بعض بنیادی معاملات کے علاوہ ہر مسئلہ میں تاویل کی گنجائش ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ غزالی کے اس تعقلی پہلو کی مخالفت بعد ازاں ابن تیمیہ میں ملتی ہے جن کے نزدیک تاویل کی ضرورت ہی تب پیدا ہوتی ہے جب مذہبی متن کو عقل کے اصولوں کے تابع رکھ کر دیکھا جاتا ہے جبکہ یہ ان سے ارفع ہیں۔ لہذا متن میں اگر خدا کے ہاتھوں کی طرف اشارہ ہے تو عقل لاکھ کہے کہ خدا کے ہاتھ نہیں ہوسکتے اور یہ علامتی گفتگو ہے مگر ہمیں متن کے سیدھے اور اٹل معنوں کو ہی ماننا چائیے۔

مسلمانوں میں جس قدر سائنس غزالی سے پہلے چل ری تھی وہ بعد ازاں بھی جاری رہی۔ یہ پنپ کر جدید سائنس میں کیوں نہ بدل سکی اس کی تاریخی وجوہات تو ان گنت ہیں تاہم موضوع سے متعلقہ ایک فکری سبب یہ بھی ہے کہ مسلمانوں میں رائج سائنس جدید سائنس نہ تھی۔ ریاضی، فلکیات، طب اور الکیمی وغیرہ جیسے علوم کا رد تہافتہ میں کہیں نہیں ہے۔ اصولی اثبات البتہ موجود ہے۔ ایسا صرف جدید دور میں ممکن ہوا ہے کہ علمیات نے وجودیات پر فوقیت اپنالی۔

یعنی سائنسی علم کی ترقی سے وجودی مسائل پر رائے بھی بدل گئی۔ قدیم دور میں وجودیات کو علمیات پر فوقیت تھی۔ غزالی یہ سوچ ہی نہ سکتے تھے کہ طبعی علوم میں اضافوں سے بھی قدم عالم جیسے خطرناک اور مذہب مخالف مسائل کی طرف جایا جاسکتا ہے۔ تمام قدیم دور میں تجربی علوم کا مقام محض یہ تھا کہ وہ ضرورت کے وقت عملی فائدہ دے سکیں۔ حقیقت مطلقہ کے علم کا سہرا صرف تعقلی یا مذہبی ماخذات پر تھا۔ پس قدیم سائنس اپنی نمو میں خود بھی معذور تھی۔

غزالی کی اہمیت کا ایک اور بنیادی سبب یہ ہے کہ غزالی مسلم تہذیب کی کئی اہم رجحانات سے مشترکہ طور پر گزرتے ہیں۔ چنانچہ غزالی کی فکر میں نقل و عقل اور انفرادی روحانی تجربہ سے لے کر علم حدیث تک محدود ہوکر روایت پسندی میں سمٹ جانے کے تمام پہلو موجود ہیں۔ غزالی مسلم فلسفہ کی بڑی تحریکوں یعنی تخلیفیت اور تعقلیت کے درمیان ایک پل کی حیثیت بھی رکھتے ہیں۔ تعلیل کے انکار سے وہ تخلیقیت کے قریب آجاتے ہیں تاہم تہافتہ کے کلامی میتھڈ میں اس وقت کے مروجہ علوم کی گنجائش سے نیز اسماعیلیوں کے رد میں اپنے کتاب کے ساتھ ملا کر دیکھنے سے غزالی کے ہاں تعقلی برہان کا پہلو بھی ملتا ہے۔

علامہ اقبال نے اپنے خطبات میں تعقلی برہان اور نقلی دلیل پر غزالی کے موقف کا جدید تناظر میں اثبات کیا ہے اور ان دونوں کو ایک جدلیاتی رشتے میں دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ اس تفصیل کا یہاں مقام نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2