پاکستان میں بار بار معاشی بحران کیوں پیدا ہوتا ہے؟


یہ بات ایک طویل عرصے سے پالیسی سازی کی اعلی سطح پر سمجھ لی گئی تھی کہ ملک کو اپنی ٹیکس بیس وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ برس پاک فوج کے سربراہ نے، جوملک کے طاقتور ترین شخص سمجھے جاتے ہیں، نے بھی ٹیکس اکٹھا کرنے کی افسوسناک حد تک غیرمناسب کوششوں کی جانب اشارہ کیا تھا۔ اقتدار سنبھالتے ہی وزیراعظم عمران خان نے اپنے پہلے خطاب میں وسیع پیمانے پر ٹیکس اصلاحات کا وعدہ کیا تھا۔ اس کے باوجود وردی والے ہوں یا سویلین، دونوں نے حقیقی ٹیکس اصلاحات کو اداراتی شکل دینے میں بری کارکردگی دکھائی ہے۔ اس کی وجہ بہت سادہ ہے: ٹیکس کی بنیاد وسیع کرنے سے ملکی اشرافیہ کو خود پر اور سیاسی طور پر حساس حلقوں پر بھی ٹیکس عائد کرنا پڑے گا۔
عمران خان کی جماعت سمیت کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے یہ ایک خطرناک بات ہے۔ ایک باریک انتخابی اکثریت کے دھاگے سے جڑی نومنتخب حکومت کو اپنے ہی حلقوں سے شدید مزاحمت کا سامنا ہو گا، ان میں سے کئی اسی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں ٹیکسوں میں استثنا ملا ہوا ہے۔ حتی کہ شہروں سے تعلق رکھنے والی حکومت کے بنیادی حامی، نئی نئی طاقت حاصل کرنے والا متوسط طبقہ بھی بڑے پیمانے پر ٹیکس اصلاحات کے بجائے کرپشن کے خلاف مہم کے حوالے سے زیادہ پرجوش ہے۔
اسی وجہ سے نئی حکومت نے بھی گزشتہ حکومت کی طرح پالیسی سطح پر ریگولیٹری ڈیوٹیز ، ٹیرف پر نظر ثانی، توانائی کی قیمتوں میں اضافہ اور ترقیاتی اخراجات میں کمی جیسے طور طریقے اختیار کیے ہیں ۔ طویل المدت ٹیکس اصلاحات اب بھی ایک دورازکار امکان نظر آتا ہے۔ پالیسی کا یہ مخمصہ صرف عمران خان کی حکومت کا نہیں ہے ، جہاں تک معاشی اصلاحات کا تعلق ہے تو تمام سیاسی حکومتیں ایک ہی طرح سے عزم کی کمی کا شکار ہیں ۔ انتخابی مہم کے دوران معاشی اصلاحات کا وعدہ تو سیاسی طور پر سودمند ہے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد انہی اصلاحات کو بروئے کار لانے سے پہلو تہی کی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس مخالف سیاسی توازن کو کیسے توڑا جائے؟
میری رائے میں عزم میں کمی کے مسئلے کا حل پاکستان کی طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں ہے۔ عمران خان۔۔۔ یا کوئی دوسرے رہنما۔۔۔ نے ٹیکس نادہندگان پر ہاتھ ڈالنا ہے تو اسے فوج سے یہ عہد لینا ہو گا کہ وہ انہیں اپنی مدد فراہم کرے گی۔
اگرچہ پاکستان ایک کمزور بیوروکریٹک صلاحیت کا شکار ہے لیکن جہاں بھی ریاست کی کوئی صلاحیت موجود ہے تو اس کا مرکز فوج ہی ہے۔ جب فوج کسی اصلاحاتی تجویز کے حق میں اپنا وزن ڈالتی ہے تو اس کا وقوع پذیر ہونا ممکن ہو جاتا ہے (وفاق کے زیرانتظام قبائیلی علاقے، جنہیں فاٹا کہا جاتا ہے، کا قومی دھارے کا حصہ بننا اس کی ایک مثال ہے)۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ تمام سیاسی اور اداراتی کرداروں میں سے فوج ہی ایک ایسا ادارہ ہے جس کے پاس ٹیکس بیس وسیع کرنے کا محرک موجود ہے۔ ٹیکس وصول کرنے کی مضبوط صلاحیت سے انہیں براہ راست فائدہ ہو گا کیونکہ اپنے اخراجات برقرار رکھنے کی صلاحیت کا کم ہونا اس کی مالی ضروریات کے لیے طویل المدت خطرے کا باعث ہے۔
سیاسی اقتصادیات کا یہ بنیادی مخمصہ ہے۔ ۔ اسی نے یورپی ریاستوں کو مالی پالیسی تشکیل دینے کے لیے تحریک فراہم کی۔ بیرونی جنگوں نے یورپی ریاستوں کے لیے ٹیکس کا نظام قائم کرنا لازم کر دیا تاکہ وہ اپنی فوجوں کے اخراجات پورے کر سکیں۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستانی فوج نے اس وقت، جبکہ وہ برسوں تک براہ راست حکمرانی کر رہی تھی، ٹیکس اصلاحات کو قومی سلامتی کا اہم ستون کیوں قرار نہیں دیا؟
اس معاملے کی وضاحت تین تاریخی اور معاصر عوامل کی مدد سے ممکن ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ ابتدائی دور سے ہی پاکستان کی فوجی اور سیاسی اشرافیہ نے اندرونی وسائل متحرک کرنے کے بجائے بیرونی امداد پر انحصار کیا ہے۔ منتخب حکومتوں کی نسبت فوجی حکومتوں کے دوران ملک کو واضح طور پر بیرونی امداد زیادہ ملی ہے۔
یہ امداد جغرافیائی حکمت عملی (جیو سٹریٹجک) پر مبنی سودے بازی تھی۔ ۔ یہ ایک انعام تھا جو پاکستان کو 1950 اور 1960 کی دہائی میں کمیونزم مخالف اتحاد کی حمایت کرنے اور 1980 اور 2000 کی دہائی کے دوران افغان جنگ کی حمایت پر ملا تھا۔ حتی کہ جب وقت کے ساتھ ساتھ امداد کے سوتے خشک ہو گئے اور ادائیگیوں کے توازن کا بحران بار بار عود کر آنے والا مظہر بن گیا تب بھی یہ اشرافیہ کے وجود کے لیے خطرے کا باعث نہ بنا کیونکہ انہیں علم تھا کہ جب بھی صورتحال سنگین ہو گی انہیں جیو پولیٹیکل رعایتوں کے بدلے بیرونی امداد مل جائےگی۔
دوسری وجہ یہ تھی کہ 1980 کی دہائی کے اواخر میں فوج کی اعلی قیادت فوج سے منسلک ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے ذریعے رئیل اسٹیٹ کے کام میں پوری طرح شامل ہو چکی تھی۔ ڈی ایچ اے کے سائے تلے پروان چڑھنے والی رہائشی اور کاروباری جائیدادیں فوجی افسروں کے اداراتی کرایوں کا اہم ذریعہ اور ملازمت پیشہ طبقے کے لیے اوپر جانے کا ایک اہم رستہ بن گئیں۔ اس طریقے سے کمائے گئے پیسے کو ٹیکس کا دائرے میں لانے کی ہر کوشش کے خلاف فوج کے اندر سے سخت مزاحمت ہو سکتی تھی۔
تیسری بات یہ ہے کہ حقیقی ٹیکس اصلاحات ان بااثر سیاسی گروہوں کو تکلیف دیتیں جن پر فوج سیاسی اتحاد بنانے کے لیے عموماً انحصار کرتی ہے۔ یہ لوگ جنہیں عام طور پر “الیکٹ ایبلز” کہا جاتا ہے، ایسے امیدوار ہیں فوج کو اپنی سیاسی خدمات فوری طور پر پیش کرتے ہیں اور کسی بھی انتخابی دوڑ میں جیت کا یقین دلانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کے معاشی مفادات کو زک پہنچانے سے سیاسی کھیل خراب ہو سکتا ہے اور فوج کی انتخابی عمل پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت میں رکاوٹ ثابت ہو سکتی ہے۔
ان تینوں عوامل کو اکٹھا کر دیا جائے تو فوجی قیادت کے لیے ان پر سمجھوتا کرنا مشکل کام ہے ، خصوصاً اس صورت میں جبکہ فوجی کمانڈروں کی معاملات کو دیکھنے کی صلاحیت محدود ہے اور جہاں فرد کے لیے تحریک یہی ہے کہ مشکل اصلاحات کے بجائے معاملات کو جوں کا توں آگے بڑھا دیا جائے۔
ترقی کے شروع ہونے اور ختم ہونے والے اس مسلسل عمل اور بار بار لوٹ آنے والے ڈیفالٹ کے خطرے پر روک لگانے کے لیے ملک کی تزویراتی قیادت کو معمول سے ہٹ کر سوچنے کی ضرورت ہے۔ اب اس بات کو تسلیم کرنے کا وقت ہے کہ پاکستان کی مسلسل “نیم کرائے کی ریاست” کا مسلسل درجہ قومی سلامتی کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔ یہ قومی سلامتی کے لیے اور ایک آزاد ریاست کے طور پر باقی رہنے کے حوالے سے شاید ہندوستا ن سے بھی زیادہ بڑا خطرہ ہے۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے امدادی پیکج اور دور افق پر موجود آئی ایم ایف پروگرام کی وجہ سے اصلاحات کے امکانات اگلے پانچ برسوں کے لیے ملتوی ہو جائیں گے یہاں تک کہ ملک کو ایک بار انہی حالات کا سامنا ہو گا اور وہ ایک مرتبہ پھر اپی جیو پولیٹیکل رعایتیں دینے کے لیے خود کو تیار کر رہا ہو گا۔
یہ کھیل ہماری اشرافیہ اور ان کے بیرونی ہمدردوں کے مفادات کے عین مطابق ہے۔ ان میں سے کوئی بھی حقیقی مالی صلاحیت تشکیل دینے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ ملک کی حکمران اشرافیہ کے لیے بیرونی امداد ان اصلاحات کو ملتوی کرنے کا جواز پیدا کرتی ہے جن سے ان کے مفادات پر زک پہنچتی ہے۔ امریکہ (یاسعودی عرب جیسے اس کے امیر حاشیہ نشینوں کے لیے) ایک قیمتی تزویراتی ذریعہ ہے جسے ہر پانچ برس بعد استعمال کیا جا سکتا ہے۔
بشکریہ الجزیرہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2