خواجہ سرا: ہمارے گھروں میں


\"Rabi ہمارے سماج میں خواجہ سراؤں کو انسان کم اور زیادہ تر ایک عجیب اور گھٹیا مخلوق تصور کیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے ان کے لیے الگ سے تعلیمی اداروں کا سوال ایک مضحکہ تصور رکھتا ہے۔ جب میں نے خواجہ سراؤں کے الگ تعلیمی اداروں پہ بات کی تو لوگوں نے بہت مذاق اڑایا۔ اور کہا کہ وہاں کے استاد ایسے ہوں گے، وہاں کا پرنسپل ایسا ہوگا۔ وہاں ایسی تعلیم دی جائے گی اور ساتھ گھٹیا حرکتوں سے مظاہرہ کیا جاتا رہا۔ خواجہ سراؤں پہ بات کرتے ہوئے ہمارے سامنے صرف وہی خواجہ سرا ہوتے ہیں جو ناچتے گاتے ہیں یا گلیوں بازاروں میں زنانہ کپڑے پہنے ہوئے مانگتے نظر آتے ہیں۔ یہ خواجہ سراؤں کا اتنا حقیر سماجی کردار نہیں، اس سے بھی زیادہ بھیانک صورتِ حال ہمارے ’’معزز‘‘ سماج کے عزت دار محلوں اور گھرانوں میں ہے۔ گلیوں میں نظر آنے والے خواجہ سرا زیادہ تر بھیک مانگنے کے لیے اپنا روپ دھار لیتے ہیں ان میں سے بہت سے مرد ہوتے ہیں اور بہت سے ایسے گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں جو بہت غریب ہوتے ہیں اور جو اپنی بدنامی کے ڈر سے یا خواجہ سراؤں کی کمیونٹی کی دباؤ کی وجہ سے اپنے خواجہ سرا بچوں کو ان کے حوالے کر دیتے ہیں اور وہ اپنے والدین سے زیادہ یوں ناچ کے یا بھیگ مانگ کے پیسے کما لیتے ہیں۔ مگر ایک بھیانک صورت ہمارے محلوں اور عزت دار گھروں میں پرورش پانے والے خواجہ سراؤں کی ہے۔ آپ کو حیرانی ہوگی کہ جس طرح کا حقیر تصور ان بچوں کے ساتھ ہمارے گھروں میں جڑا ہُوا ہے وہ کسی جانور کے لیے بھی شرم ناک ہے۔

مجھے یاد آرہا ہے کہ گوجرانوالہ میں ہمارے محلے میں ایک عورت ’’تائی‘‘ رہا کرتی تھی۔ بچپن میں تو ہمیں احساس نہ ہُوا مگر بڑے ہونے پر پتا چلا کہ یہ عورت نہیں ایک خواجہ سرا ہے۔ اُس تائی کے ساتھ سارا محلہ مذاق کرتا اور گھر والے بھی اُسے ہر وقت طعنے مارتے رہتے۔ وہ گھر میں ہی رہتی۔ گھر کے کام کاج کرتی اور محلے کے اکلوتے بازار تک آتی جاتی دیکھی جاتی۔ اتنا گھٹیا تصور کہ میں بتا نہیں سکتی۔ اُس کے گھر والے اُسے ایک ’’جانور‘‘ کی طرح پکارتے اور تضحیک کرتے۔ آتے جاتے اُس پر قہقہہ لگاتے، ہنسی ٹھٹھا کرتے۔ میں خود چھوٹی عمر میں اُسے تنگ کرنے والوں میں شامل رہی، جس پر مجھے اب شرمندگی بھی محسوس ہوتی ہے۔ حالاںکہ وہ ایک نیک خواجہ سرا تھی۔ ایک دن گلی میں شور مچا ہُوا تھا کہ تائی نے خود کشی کر لی۔ ’’تائی‘‘ نے خود کو کرنٹ کے تار سے چھو لیا تھا۔مگر وہ ہسپتال سے جلد واپس آ گئی اور زندہ بچ گئی۔ اُس کے اس اقدام کی وجہ اُس کا مسلسل تضحیک کا نشانہ بننا تھا۔ آپ تائی جیسے کردار ہر محلے میں دیکھیں گے۔ یہ وہ خواجہ سرا ہیں جو ہمارے گلی محلے میں پائے جاتے ہیں اور مانگتے نہیں اور ’’معزز‘‘ زندگی گزارتے ہیں۔

آپ کو اکثر دکانوں کے مالکان یا کسی معزز محنت کش پیشے سے جڑے خواجہ سرا ملیں گے مگر اُن کو طعنہ یا تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا رہے گا۔ خواجہ سرا تو ایک گالی ہے۔ کسی کو چھیڑنا ہو یا کسی کی تحقیر کرنا مقصد ہو تو اُسے ہیجڑا یا کھسرا کہا جاتا ہے۔ میں خواجہ سراؤں پہ کچھ مضامین دیکھ رہی تھی تو اچانک میرے سامنے وسعت اللہ خاں کا ایک کالم کھل گیا میں وسعت اللہ جیسے بڑے لکھاری کے قلم سے ایسی تحقیر پڑھ کے شرمندہ ہو گئی۔ کالم کا عنوان تھا:

\’چند نشریاتی زنخوں کی مردانگی\’

یہ کالم 23 دسمبر 2013 کو چھپا۔ آپ اندازہ کر لیں کہ وسعت اللہ خاں جیسا صحافی بھی کسی اینکر کو بزدل کہنا ہو تو حقارت کے لیے ایک ایسی مخلوق کا انتخاب کرتا ہے جو معاشرے میں خوب خوب حقیر تصور کی جاتی ہے۔

\"transgenders\"خواجہ سرا سب سے پہلے انسان ہیں۔ اُن کے تمام حقوق وہی ہونے چاہیے جو ایک انسان کے لیے معزز معاشرے میں رائج ہیں۔ ہم صنف کے معاملے میں حساس کیوں ہیں۔ عورت کا نام لیں تو معاشرے جگہ جگہ بیرئیر کھڑے کر دیتا ہے۔ بچوں اور بوڑھوں کے حقوق بھی بار بار دہرانے پڑتے ہیں۔ رہے بیچارے یہ خواجہ سرا تو ان کا پُرسانِ حال تو کوئی بھی نہیں۔ جنہوں نے انہیں جنا ہوتا ہے وہ خود انہیں حقوق اور عزت دینے کو تیار نہیں تو معاشرہ کیا دے گا۔ والدین خود انھیں ایک بوجھ اور ’’عذاب‘‘ سمجھتے رہتے ہیں۔

گھروں میں خواجہ سرا ،چوںکہ شادی بیاہ نہیں کر پاتے، ایک ملازم کے طور پر زندگی گزارتے ہیں۔ اگر خواجہ سرا \”مرد غالب\” ہے تو وہ گھر کے کام کاج اور بچوں اور عورتوں کے چھوٹے موٹے کام کاج کرتا پایا جائے گا۔ خواجہ سرا عموماً کھانا پکانے، رکشہ چلانے اور چھوٹی موٹی دکانوں کا کام کرتے ملیں گے۔ اگر \”عورت غالب\” خواجہ سرا ہے تو وہ گھر میں بچوں کی آیا کا کردار کرتے ہیں۔ گھر کے کام کاج اور گھرداری میں ماہر ہوتی ہیں۔ مگر بات وہی ہے کہ اُن کی عزت کوئی بھی نہیں کرتا۔

معاشرے میں انسانوں کی تمام اصناف کو عزت دی جانے چاہیے۔ عورتوں اور مردوں کے حقوق کی طرح خواجہ سراؤں کے لیے بھی شعور اور آگاہی ضروری ہے۔ خدا کے لیے! انسان کی تذلیل تو ایک طرف کسی جانور کی تحقیربھی نہیں ہونی چاہیے۔ یہ کیسا مذہبی سماج ہے جس میں انسان کو اُس کی جینیاتی ساخت کی سزا ساری زندگی سناتا رہتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments