اور آنا گھر میں مرغیوں کا


اس جنس کے بارے میں ایک مایوس کن انکشاف یہ بھی ہوا کہ خواہ آپ موتی چگائیں، خواہ سونے کا نوالہ کھلائیں مگر اس کو کیڑے مکوڑے، جھینگر، بھنگے، چیونٹے اور کیچوے کھانے سے باز نہیں رکھ سکتے، اور میں یہ باور کرنے کے لیے تیار نہیں کہ اس کا اثر و نفوذ انڈے میں نہ ہو۔ پھر موپساں کے افسانے کا ہیرو اگر یہ دعوٰی کرے کہ وہ زردی کی بو سے یہ بتاسکتا ہے کہ مرغی نے کیا کھایا تھا تو اچنبھے کی بات نہیں۔ خود ہمارے ہاں ایسے ایسے لائق قیافہ شناس دال روٹی پر جی رہے ہیں جو ذرا سی بوٹی چکھ کر نہ صرف بکری کے چارے بلکہ چال چلن کا بھی مفصل حال بتاسکتے ہیں۔

آپ نے سنا ہوگا کہ کھلی اور بھوسے کی خاصیت، اور چوپایوں کی خصلت کے پیش نظر، بعض نفاست پسند والیان ریاست اس بات کا بڑا خیال رکھتے تھے کہ جن بھینسوں کے دودھ کی بالائی ان کے دسترخوان پر آئے، ان کو صبح و شام بادام اور پستے کھلائے جائیں تاکہ اس کا اصل ذائقہ اور مہک بدل جائے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس زمانے میں عمدہ دودھ کی خوبی یہ تھی کہ اسے پی کر کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ یہ دودھ ہے۔

ایک اور سنگین غلط فہمی جس میں خواص و عوام مبتلا ہیں اور جس کا ازالہ میں رفاہ عام کے لیے نہایت ضروری خیال کرتا ہوں یہ ہے کہ مرغیاں ڈربے اور ٹاپے میں رہتی ہیں، میرے ڈیڑھ سال کے مختصر مگر بھرپور تجربے کا نچوڑ یہ ہے کہ مرغیاں ڈربے کے سوا ہر جگہ نظر آتی ہیں اور جہاں نظر نہ آئیں، وہاں اپنے ورود و نزول کا ناقابل تردید ثبوت چھوڑ جاتی ہیں۔ ان آنکھوں نے بارہا غسل خانے سے انڈے اور کتابوں کی الماری سے جیتے جاگتے چوزے نکلتے دیکھے۔ لحاف سے کڑک مرغی اور ڈربے سے شیو کی پیالی برآمد ہونا روزمرہ کا معمول ہوگیا۔ اور یوں بھی ہوا ہے کہ ٹیلیفون کی گھنٹی بجی اور میں نے لپک کر ریسیور اٹھایا۔ مگر میرے ہیلو! کہنے سے پیشتر ہی مرغ نے ٹانگوں کے درمیان کھڑے ہوکر اذان دی، اور جن صاحب نے ازراہ تلطف مجھے یاد فرمایا تھا انہوں نے ”سوری رانگ نمبر“ کہہ کر جھٹ فون کردیا۔

پھر ایک اتوار کو شور سے آنکھ کھلی تو دیکتھا ہوں کہ بچے اصیل مرغ کو مار مار کر بیضوی پیپر ویٹ پر بٹھا رہے ہیں۔ مانتا ہوں کہ اس دفعہ مرغ بے قصور تھا۔ لیکن دوسرے دن اتفاقاً دفتر سے ذرا جلد واپس آگیا تو دیکھا کہ محلے بھر کے بچے جمع ہیں اور ان کے سروں پر چیل کوے منڈلارہے ہیں۔ ذرا نزدیک گیا تو پتا چلا کہ میرے نئے کیرم بورڈ پر لنگڑے مرغ کا جنازہ بڑی دھوم سے نکل رہا تھا۔ سب بچے اپنے اپنے قد کے مطابق چار چار کی ٹولیوں میں بٹ گئے اور باری باری کندھا دے رہے تھے۔ غور سے دیکھا تو جلوس کے آخر میں کچھ ایسے شرکاء بھی نظر آئے جو گھٹنیوں چل رہے تھے اور اس بات پر دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے کہ انہیں کندھا دینے کا موقع کیوں نہیں دیا جاتا۔

اور اس کے کچھ دن بعد چشم حیراں نے دیکھا کہ ہمسایوں میں شیرینی تقسیم ہورہی ہے۔ معلوم ہوا کہ ”شہ رخ“ (چتکبرا مرغ) نے آج پہلی بار اذان دی ہے۔ میں نے اس فضول خرچی پر ڈانٹا تو میرا تردد رفع کرنے کی خاطر مجھے مطلع کیا گیا کہ خالی بوتلیں، میرے پہلے ناول کا مسودہ اور اسناد کا پلندہ (جو بقول ان کی دس برس سے بیکار پڑا تھا) ردی والے کو اچھے داموں بیچ کر یہ تقریب منائی جارہی ہے۔ قصہٴ مختصر چند ہی مہینوں میں اس طائر لاہوتی نے گھر کا وہ نقشہ کردیا کہ اسے دیکھ کر وہی شعر پڑھنے کو جی چاہتا تھا جو قدرے مختلف حالات میں حُسنا پری نے حاتم طائی کو سنایا تھا:

یہ گھر جو کہ میرا ہے تیرا نہیں
پر اب گھر یہ تیرا ہے میرا نہیں

اب گھر اچھا خاصا پولٹری فارم (مرغی خانہ) معلوم ہوتا تھا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ پولٹری فارم میں عام طور سے اتنے آدمیوں کے رہنے کی اجازت نہیں ہوتی۔

جو حضرات الام دنیوی سے عاجز و پریشان رہتے ہیں، ان کو میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ مرغیاں پال لیں۔ پھر اس کے بعد پردہٴ غیب سے کچھ ایسے نئے مسائل اور فتنے خودبخود کھڑے ہوں گے کہ انہیں اپنی گزشتہ زندگی جنت کا نمونہ معلوم ہوگی!

یہ سلسلہ چل ہی رہا تھا کہ ادھر ایک تشویش ناک صورت یہ رونما ہوئی کہ ایک مرغ کٹ کھنا ہوگیا۔ پہلے تو ہوا یہ کرتا تھا کہ جب بچوں کو تماشا دیکھنا منظور ہوتا تو دو مرغوں کے منہ پر توے کی کلونس لگا کر کھانے کی میز پر چھوڑ دیتے اور لڑائی کے بعد میز پوش کے داغ دھبوں کو ربڑ سے مٹانے کی کوشش کرتے۔ لیکن اب کسی اہتمام کی ضرورت نہ رہی، کیوں کہ وہ دن بھر پڑوسیوں کے مرغوں سے فی سبیل اللہ لڑتا اور شام کو مجھے لڑاتا۔ یہاں یہ بتانا شاید بے محل نہ ہوگا کہ مرغ کے مشاغل و فرائض منصبی کے بارے میں میرا اب بھی یہ تصور ہے کہ:

مرغا وہ مرغیوں میں جو کھیلے
نہ کہ مرغوں میں جا کے ڈنڈ پیلے

معاملہ ہم جنس تک ہی رہتا تو غنیمت تھا لیکن اب تو یہ ظالم مرغیوں سے زیادہ آنے جانے والوں پر نظر رکھنے لگا۔ مرزا عبدالودود بیگ سے میں نے ایک دفعہ تذکرہ کیا تو کہنے لگے کیا بات ہے۔ ہم پر تو ذرا نہیں لپکتا۔ ان کے جانے کے بعد راقم الحروف قدآدم آئینے کے سامنے دیر تک کھڑا رہا۔ لیکن عکس میں بظاہر کوئی ایسی بات نظر نہ آئی جسے دیکھتے ہی کسی امن پسند جانور کی آنکھوں میں خون اتر آئے۔ بہرحال جب پڑوسیوں کی شکایتیں بڑھیں تو ایک مشہور مرغ باز سے رجوع کیا۔ اس نے کہا کہ قدرت نے اس پرند کو ہر لحاظ سے ہری جگ بنایا ہے اور یہ مرغ غالباً اس لیے کٹ کھنا ہوگیا کہ آپ نے اسے بچا کچھا گوشت کھلادیا۔ میں نے گھر پہنچ کر تشخیص سے آگاہ کیا تو کہنے لگیں۔

”توبہ! اب ہم اتنے برے بھی نہیں کہ ہمارا جھوٹا کھانا کھا کے اس منحوس کا یہ حال ہوجائے۔“

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3