اپنا بویا کاٹنے کی مثال اور اردو کی بگڑتی ہوئی شکل


قیام پاکستان کے بعد ایک نئی قسم کی غیر فطری صورت حال پیدا ہوئی۔ اردو کو قومی زبان قرار دے کر پورے ملک میں نافذ کر دیا گیا۔ اردو پڑھنا لازمی ہوا، اور اس کے بغیر نوکری ملنا ناممکن۔ اب یہ حکمرانوں کی زبان بن گئی۔ لہٰذا جس طرح یر ملکی حکمرانوں کے لشکروں نے اپنی زبان میں عربی فارسی کے الفاظ شامل کرکے اک نئی زبان بنائی تھی، اب مقامی زبان بولنے والوں نے بھی سرکاری زبان کے الفاظ اپنی گفتگو میں شامل کرنا شوع کردیا۔

لیکن ساتھ ہی اردو بولتے ہوئے جب اُنہیں اُردو کا کوئی مناسب لفظ نہ ملتا، تو وہ اپنی علاقائی زبان کا لفظ شامل کر لیتے۔ نتیجہ یہ ہوا علاقائی زبانوں کا بیڑہ غرق ہونے لگا، لیکن کُچھ نہ کُچھ اثر تو اردو پر بھی پڑا۔ مقامی زبانوں میں سب سے زیادہ نقصان پنجابی کا ہوا، کیونکہ پنجابی اکثریت اپنی زبان کے معاملے میں زیادہ حساس ثابت نہیں ہوئی، اور چیدہ چیدہ آوازیں جو اُٹھیں، ان پر ملک دشمنی کے الزام لگنا شروع ہو گئے۔

اردو کو شروع میں زیادہ نقصان اس لئے نہیں ہوا، کہ ایک تو اُس وقت پنجاب میں بھی عربی فارسی جاننے والے بہت تھے، جو سکولوں کالجوں میں بھی اردو کی حفاظت کرتے تھے، اور جولکھنے پڑھنے کا شغف رکھتے تھے وہ بھی کتابوں اور اخبارات میں اردو کی نوک پلک درست رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتے تھے۔ ریڈیو، ٹی وی پر اول تو اردو کے اہل زبان کو ترجیح دی جاتی تھی، اور جو چند مقامی لوگ آتے بھی تھے، شاہ سے بڑھ کر شاہ کے طرفدار تھے۔ اس لیے مقامی زبانوں خاصکر پنجابی کو جتنا نقصان ہوا، اُس کا ہزراواں حصہ بھی اردو کو نہیں ہوا۔

لیکن اب صورت حال پھر سے بدل گئی ہے۔ سب سے بڑی تبدیلی تو یہ آئی کہ عربی فارسی جاننے والے رخصت ہو گئے۔ اب اردو بولنے والے سرے سے یہ جانتے ہی نہیں، کہ کس لفظ پر کونسی گرامر لاگو ہو گی، لہٰذا وہ فطری لسانیاتی اصولوں کے مطابق اردو الفاظ کو بھی مقامی گرامر کے مطابق بولنے لگے ہیں۔ پھر 2002 میں ٹی وی چینلوں کے سیلاب نے اینکروں اور رپورٹروں کی اتنی آسامیاں پیدا کردی ہیں کہ ہر طرف وہ لوگ چھا گئے ہیں، جو بنیادی طور پر مقامی زبانیں بولتے ہیں، اور اردو کی غیر فطری گرامر سے نابلد ہیں، اور اُن کی گلابی اردو اب ہر گھر میں اس طرح پہنچی ہے کہ اُسکا اثر ہر شخص کی زبان پر ہو رہا ہے۔ حتٰی کہ خود اہل زبان بھی اس سے محفوظ نہیں۔ خود علی رضا عابدی صاحب نے اپنے مضمون کی دوسری ہی سطر میں پنجابی ترکیب ”رُل گئی“ استعمال کی ہے۔ اسی طرح ”مُک مُکا“ کی ترکیب اب ہماری سیاسی لغت کا لازمی جزو ہے۔

اردو کے ساتھ جو کُچھ اب ہو رہا ہے، یہ تو ”میری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی“ والے مذکورہ اسباب کے مطابق ہونا ہی تھا۔ عابدی صاحب نے درست فرمایا کہ ہر زبان کی اپنی ایک تہذیب ہوتی ہے۔ مقامی زبانوں کی اپنی اپنی علیحدہ تہذیبیں ہیں۔ وہ لوگ اگر اپنی زبانوں کی بگڑتی ہوئی شکلوں کے بارے میں زیادہ حساس نہ بھی ہوں تو اپنی تہذیب کے بارے میں ضرور ہیں۔ اور اپنی تہذیب کا اظہار، اجنبی زبان میں ممکن نہیں۔ اس لیے اردو بولتے ہوئے بھی جہاں اُن کے اظہار کی شدت کے مطابق اُنہیں کوئی لفظ نہیں ملتا، تو وہ اپنا مقامی لفظ جان بوجھ کر بھی شامل کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ اب جو مزا ”رُل گئی“ کہنے میں ہے وہ ”خوار ہو گئی“ کہنے میں کہاں! ۔ جو تسلی ”مُک مُکا“ بولنے میں ہوتی ہے، وہ ”ملی بھگت“ کہنے میں تو ممکن ہی نہیں۔

مختصر یہ کہ اُردو زبان کے ساتھ اس وقت جو ہو رہا ہے اُسکا معمولی سا ”بیک فائر“ ہے جو اردو نے مقامی زبانوں کے ساتھ کیا۔ اگر معاملہ اسی طرح چلتا رہا، تو نہ مقامی زبانوں کے پلے کُچھ رہے گا، اور نہ اُردو کے۔ اگلی چند نسلوں کے بعد اس خطے کی زبان کُچھ اور ہی ہو گی۔ آپ صرف یہ تصور کر لیجیے کہ وہ نسل جو آج کی گلابی اردو بول رہی ہے، آج سے دس سال بعد جب انہیں میں سے اُردو کے اساتذہ بنیں گے تو پھر کیا ہوگا۔ اس کا واحد سد باب یہی ہے کہ تمام علاقائی زبانوں کو اُن کا مناسب درجہ دیجئے، اور اردو کو بھی اردو بولنے والوں تک محدود کیجئے۔

آپ دوسروں کی زبان پر حملہ آور بھی ہوں اور پھر اپنی زبان (عزت کی طرح) دوسروں کے ہاتھ میں دے کر توقع کریں کے وہ اسے آپ ہی کی طرح عزیز رکھیں گے، تو اسے دیوانے کا خواب ہی کہا جا سکتا ہے۔ اس وقت ہماری زبانیں جس طرح سے بدل رہی ہیں، اُس میں آخر کار اردو کا نقصان زیادہ ہو گا، کیونکہ یہ محض دو سو سال پرانی نوزائیدہ زبان ہے جو ہزاروں سالہ تاریخ رکھنے والی طاقتور زبانوں کے ساتھ مڈبھیڑ کے نتیجے میں چند نسلیں بھی نہیں چل سکے گی۔ ہاں لازم ہے کہ مقامی زبانوں کی صورت بھی غیر فطری طریقے سے مسخ ہو جائے گی۔

آخر میں ایک بات عابدی صاحب کے لئے بطور خاص کہ ذرا کوئیں سے نکلئے اور ارد گرد کی زبانوں پر نظر دوڑائیے۔ ”مُدا“ مدعا سے نہیں نکلا، ہزاروں سال پرانا لفظ ہے جو پنجابی سے آیا ہے اور ہندی میں بھی بولا جاتا ہے۔ یہ اس لئے عام ہو رہا ہے کہ کوئی اردو لفظ اس کی معنویت کا احاطہ نہیں کرتا۔ یہ ”موضوع زیر بحث“ کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے، اور کسی کارروائی کی ذمہ داری کے معنوں میں بھی۔ اس کے مشتقات مدعا سے مختلف ہیں، جیسا کہ مُدے، مُدوں وغیرہ۔

اُردو کے نوحہ کناؤں کی دل آزاری کے لئے معذرت لیکن سچائیاں ہمیشہ دل آزار ہوتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2