کراچی کی کوئین وکٹوریہ ایمپریس مارکیٹ۔


گذشتہ کئی دنوں سے شہرِ کراچی میں تجاوزات کے خلاف سپریم کورٹ کے احکامات پر ہونے والے آپریشن جو تاحال جاری ہے اور جس نے شہر کے کئی علاقوں کو یکسر تبدیل کردیا ہے۔ اس آپریشن کے دوران آپریشن میں حصہ لینے والے محکمے کے ذمہ داروں کی جانب سے میڈیا پر ” ناجائز تجاوزات ” کی ایک نئی اصطلاح بھی سامنے آئی ۔ تجاوزات تو تجاوزات ہی ہوتے ہیں اب یہ وہی بتا سکتے ہیں کہ جائز تجاوزات کیا ہوتے ہیں اور ناجائز تجاوزات کیا ہوتے ہیں ویسے وقت کے ساتھ اپنی سہولت کے لیے اب نئی اصطلاحات کے استمال کا رجحان زیادہ ہی ہوتا چلا جارہا ہے ۔ ویسے شاید اس کا بہتر جواب بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ نواب محمد اسلم خان رئیسانی صاحب ایک جملے میں دے سکتے ہیں کہ تجاوزات تجاوزات ہوتا ہے چاہے جائز ہو یا ناجائز ہو۔

اس عمارت کا تاریخی پس منظر کچھ اس طرح سے ہے کہ ابتدائی طور پر 1839ء میں اس جگہ کو کیمپ بازا ر کہا جاتا تھا، 10 نومبر 1884ء کو اس عمارت کا سنگ بنیاد بمبئی کے گورنر سر جیمز فرگوسن نے رکھا ، عمارت میں جودھپوری سرخ پتھروں کا استمال کیا گیا ۔اس عمارت کی تعمیر کا کام تین ٹھیکداروں کے سپرد کیا گیا تھا اور مجموعی طور پر عمارت کی تعمیر میں ڈیڑھ لاکھ سے دو لاکھ روپے کے اخراجات آئے ۔ 21 مارچ 1889ء کو کمشنر مسٹر پرچرڈ نے عمارت کا باقاعدہ افتتاح کیا کیوں کہ 1889ء ملکہ وکٹوریہ کی سلور جوبلی کا سال تھا اس مناسبت سے اس کا نام کوئین وکٹوریہ ایمپریس مارکیٹ رکھا گیا۔

Empress Market Karachi 1890

اس عمارت سے جڑا ایک تاریک پہلو یہ بھی ہے کہ 1857ء میں کراچی میں مقیم برطانوی فوج کی اکیسویں رجمنٹ کے سپاہیوں نے رام دین پانڈے کی قیادت میں ایک منصوبہ بنایا جس کے مطابق ایک رات رجمنٹ کے سپاہیوں نے کنٹونمنٹ پر قبضہ کرکے انگریز فوجی افسروں کو قتل کرکے آزادی کا باقاعدہ اعلان کرنا تھا لیکن اسی رجمنٹ کے کچھ مخبروں نے اس منصوبے کی اطلاع انگریز افسران کو دے دی جس کے بعد رام دین پانڈے سمیت تمام منصوبہ کاروں کو گرفتار کرلیا گیا جنہیں 13 اور 14 ستمبر 1857ء کی درمیانی شب اسی عمارت کے سامنے میدان میں پھانسی دے دی گئی جب کہ رام دین پانڈے سمیت 3 جنگ آزادی کے کمانڈروں کو توپ دم یعنی توپوں کے منہ پر باندھ کر اڑا دیا گیا ۔کہا جاتا ہے اس کے بعد ایک عرصہ تک لوگ اس جگہ پر چھپ چھپ کر پھول نچھاور کرتے رہے تھے ۔ جب انگریزوں کو یہ خطرہ محسوس ہوا کہ اس جگہ ان باغیوں کی کوئی یادگار قائم نہ ہوجائے اس واسطے اس جگہ یہ مارکیٹ تعمیر کروادی گئی۔ ابتدا میں ماسوائے انگریزوں کے اس عمارت میں داخلے کی کسی کو اجازت نہیں تھی بعد میں اس کی اجازت دے دی گئی تھی۔ عمارت کے بیچوں بیچ ایک صحن ہے جس کا کل رقبہ 100ضرب 130 فٹ ہے۔ عمارت کے مرکزی ٹاور کی اونچائی 140 فٹ ہے جس میں ایک بڑا گھڑیال نصب ہے اسی گھڑیال سے وقت کی آگاہی دینے والی آواز سے اس علاقے کے لوگ وقت کا اندازہ کیا کرتے تھے۔یہ گھڑیال ٹاور کی چاروں سمت نصب ہیں۔

اس عمارت کی موجود صورت حال دیکھنے کے لیئے جس دن سے ایمپریس مارکیٹ میں آپریشن شروع ہوا کئی بار جانا ہوا بہت دل دہلا دینے والے مناظر نظر آرہے تھے ایک افرا تفری کا عالم تھا اس علاقے کو دیکھ کر گمان ہوتا تھا کہ یہاں یا تو شدید زلزلہ آیا ہے یا پھر اس علاقے پر بمباری کی گئی ہے ۔ کل ایک بار پھر اس علاقے میں جانا ہوا گذشتہ دنوں کے مقابلے میں کل یہ علاقہ قدرِ پرسکون تھا۔ لیکن اس پر شور اور پر ہجوم علاقے پر عجب سکوت طاری تھا ۔جہاں کچھ عرصے پہلے تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی وہاں ایک ویران سا میدان نظر آتا ہے، عمارت کے مرکزی دروازے کے بائیں جانب ایک تختی لگی نظر آتی ہے جس پر کے ایم سی مارکیٹ 1889 کی تحریر درج ہے جب کہ مرکزی دروازہ پر سینئر ڈائریکٹر اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ بلدیہ عظمیٰ کراچی کی جانب سے ایک حکم نامہ ایک بینر کی صورت میں لگا ہوا ہے جس پر درج ہے معززسپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم کے مطابق کے ایم سی مارکیٹ کے تمام کرایہ داران کو مطلع کیا جاتا ہے کہ تمام دکاندار حضرات اپنی دکان کی حد سے تجاوز نہ کریں اور فوری طور پر اپنے قائم کردہ “تجاوازات” بشمول سن شیڈ ختم کردیں ۔ بصورت دیگر قانوں کے مطابق سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی ۔یہ بینر عمارت کے چاروں طرف آویزاں ہیں جس کو پڑھ کر اندازہ ہوا کہ ابھی تک ہم جو جائز اور ناجائز تجاوزات کی الجھن میں تھے بات اس سے بھی آگے نکل چکی ہے اور بینروں پر لفظ تجاوزات کو ایک مزید اضافی حرف الف کے ساتھ “تجاوازات” بنا دیا گیا ہے جسے یوں کہہ لیں کے لفظ تجاوزات میں ہر جگہ مزید الف کا اضافہ کرکے یہاں لفظ میں بھی تجاوزات قائم کردیا گیا ہے جو سراسر ناجائز تجاوز ہے۔

Empress market future look

عمارت کے ٹاور پر نصب گھڑیال کی اب ہر سمت کی سوئیاں مختلف ہندسوں پر رکی ہوئی ہیں شاید اس علاقے کے لوگوں کو بتانا چاہ رہی ہیں کہ وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا۔ مارکیٹ کی تباہ حال دیواروں پر کئی چھوٹے بینرز بھی نظر آتے ہیں جن پر درج ہے کہ ہماری دکان سامنے رینمبو سینٹر میں منتقل ہوگئی ہے ۔ مارکیٹ میں کئی جگہ دیواروں پر لگی خوبصورت پیتل کی تاریخی تختیاں غائب ہوچکی ہیں جس پر تاریخی تحریریں درج تھیں ، عمارت کے اندر بنی گوشت مارکیٹ بھی توڑ دی گئی ہے لیکن چند قصاب ان ٹوٹی ہوئی دکانوں میں ہی گوشت فروخت کررہے ہیں ۔ پرندہ مارکیٹ مکمل طور پر گرائی جاچکی ہے اس گرائے ہوئے ملبے پر ایک شخص چند طوطے اور دیسی انڈے فروخت کرنے کے لیئے بیٹھا تھا۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ اس عمارت کو کس طرح اس کی اصل شکل میں واپس لایا جاتا ہے اور جہاں تجاوزات گرائے گئے ہیں اس جگہ کو کس مصرف میں لایا جاتا ہے ۔ شنید یہ ہے کہ اس جگہ ایک پارک تعمیر کرنے کا منصوبہ ہے کیا اس پارک کو اس جگہ ہونے والے تاریخی واقعہ کی مناسبت سے رام دین پانڈے کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے ۔ کیا وہ دکان دار جو باقاعدگی سے کے ایم سی کو کرایہ ادا کرتے رہے ہیں اور ان کے پاس کاروبار کرنے کے لائسنس بھی ہیں ان کو کوئی متبادل جگہ فراہم کی جاتی ہے یا کوئی کمیٹی بنا کر اس کو قصہ پارینہ سمجھ کر بھول جایا جائے گا ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).