جمہوریت یاترا


فلاچی کے اس سوال کے جواب میں کہ ملک کا سربراہ مذہبی پیشوا ہونا کیوں ضروری ہے، سیاسی فیصلوں کے لیے قران کے علم کی شرط کیوں لازم ہے، امام نے جواب دیا، ”پانچویں اصول کے مطابق جو ماہرین نے اسمبلی میں منظور کیا یہ اصول جمہوریت کے منافی نہیں، عوام علماء سے محبت کرتے ہیں، ان پر اعتماد کرتے ہیں، چاہتے ہیں کہ وہ ان کی راہ نما ئی کریں، یہ صحیح ہے کہ“ مذہبی اقتداراعلی ”مملکت کے وزیراعظم اور صدر کے امور کی نگرانی کرے، اگر میں یہ نافذ نہ کروں تو ڈر ہے کہ وہ قانون اور قران کے خلاف نہ کر بیٹھیں، مثال کے طورپر، پانچ“ عقلمند آدمی ”جو اس قابل ہوں کہ اسلام کے مطابق معاملات اور انتظامات چلاسکیں“

جمہوریت، اسلام اور قراں ایک ہی جملے میں یکجا دیکھ کر میرے آنکھیں دھندلا گئیں، اور عقیدت سے میری آواز بھاری ہوگئی، مجھے لگا کہ تلاش تمام ہوئی، کشت ختم ہوا، منزل مل گئی۔

معا میری نظردرویش بے نشاں پر پڑھی وہاں ایک ”رندانہ“ مسکرہٹ تھی

ارشاد ہوا جمہوریت میں صرف جمہور ہی ”قائم“ کرنے کا، ”تحلیل“ کرنے کا اور ”نگرانی“ کا اختیار رکھتے ہیں، جمہوریت کی کونپل جمہور کی روشنی میں ہی گلاب بنتی ہے کوئی سایہ کتنا ہی ”مقدس“ کیوں نہ ہو اس کے لیے زہرہلاہل ہی رہتا ہے۔ جمہوری ریاست کا کام اقلیتوں کوبرداشت یا خاموش کرانا نہیں بلکہ ان کی آواز کو سننا، سمجھنا اور انہیں مرکزی دھارے میں شامل کرنا ہے۔

رہا معاملہ۔

”پانچ عقلمند“ لوگوں کا تو وہ آج ”شورای نگہبان قانون اساسی“ کے 12 ممبران کی شکل میں موجود ہیں جن کا انتخاب امام ہی صوابدید پر ہوتا ہے اور وہ جمہوریت کی ”نگرانی“ کے فرائض کس طرح انجام دیتے ہیں؟ ، اور ”ساوک“ اور ”سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی“ میں نام اور کرداروں کے علاوہ کیا جوہری فرق تھا۔ اب تاریخ کا حصہ ہیں۔

فلاچی امام خمینی سے ملاقات کے بعد معمر قذافی سے ملنے طرابلس آئی، یہ وہ دور تھا جب ایران میں امریکی ایمبیسی یرغمال تھی۔ قذافی کے ساتھ گفتگو کا آغاز خوشگوار نہ تھا۔

قذافی نے کہا ”میرے پاس آپ کے لیے بری خبر ہے، یونان اور ترکی کے امریکی اڈوں میں ہلچل پائی جاتی ہے، امریکی چھاتہ بردار نیوٹران بموں کی تربیت لے رہے ہیں، تیسری جنگ عظیم شروع ہوا چاہتی ہے، میں خمینی کو قائل کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ وہ یرغمالیوں کو رہا کرے، اگر ایران پر حملہ ہوا تو لیبیا غیرجانبدار نہ رہے گا، وہ ہمارے بھائی ہیں“۔

فلاچی کے اس سوال کے جواب پہ کہ لیبیا اور ایران کے تعلقات مثالی نہیں اور موسی صدر کی لیبیا میں گمشدگی کے بعد۔ جو امام خمینی کا بھانجہ تھا۔ دونوں ملکوں کے تعلقات میں تناؤ پایا جاتا ہے۔ قذافی نے خاموشی اختیار کی اور پھر سوال کو نظرانداز کرکے قہقہ لگایا اورامریکہ کے خلاف ”عالمی انقلاب“ کی نوید سنائی۔

گفتگو اس طرح بے ربط چلتی رہتی کہ سوال ”انقلاب“ کے بارے میں آگیا۔ فلاچی نے سوال کیا جو لیبیا میں ستمبر 1969 میں ہوا وہ ”انقلاب“ نہ تھا بلکہ ”فوجی بغاوت“ تھی، قذافی نے جواب دیا، ”ہاں۔ پھر وہ انقلاب میں بدل گئی، کارکنوں نے کارخانوں پر قبضہ کرلیا اور وہ حصہ دار بن گئے، عوام نے بادشاہت کا ادارہ ختم کردیا اور“ عوامی کمیٹیاں ”قائم کردی گئیں، یہ سب میری“ سبز کتاب ”میں لکھا ہے۔ لوگ مجھے چاہتے ہیں، میرے لیے نعرے لگاتے ہیں“۔

فلاچی نے جب قذافی کا موازنہ ہٹلر اور مسولینی سے کیا تو اس نے جواب دیا ”میں آمر نہیں، انقلابی لیڈر ہوں“۔

انٹرویو کا اختتام ”سبز کتاب“ پر ہوا، قذافی نے تعارف کراتے ہوئے کاغذ پر دائرے کھینچے اور اپنا ”اچھوتا قسم“ کا لا یعنی نظام سمجھا نے کی کوشش کی اور ”جماہریہ“ کی اصطلاح ایجاد کی، ارشاد فرمایا، دنیا میں ایک دور بادشاہت کا تھا، ایک ”ریپبلک“ کا جس میں وزیر اور صدر ہوتے تھے، اب حتمی نظام ”جماہریہ ہے، اب لوگوں کو ان کے حقوق مل گئے اور کشمکش اختتام کو پہنچی“، آخر میں قذافی کی ذہنی رو بہک گئی اور وہ نعرے لگانے لگا، ”میری کتاب انقلاب ہے، یہ سچائی ہے، یہ دنیاکو بدل دے گی، میں گوسپل ہوں۔ “۔ فلاچی نے پوچھا کرنل کیا اپ خدا کو مانتے ہیں، اس نے جوب دیا ”ہاں۔ لیکن تم نے یہ سوال کیوں کیا“ فلاچی نے دیا: ”میرا خیال تھا آپ ہی خدا ہیں“۔

میں نے سر جھکالیا، کئی بت پاش پاش ہوچکے تھے، انقلاب کے خوشنما محل ڈھیر ہوئے جاتے تھے، افکارو نظریات میں تلاطم برپا تھا، فلاچی اور ”درویش بے نشاں“ حکمت کے موتی بکھیررہے تھے میں نے آنکھیں بند کیں اور انہیں جذب کرنے لگا:

انسانی تاریخ کے ابتدا سے ہی ہرغاصب اور ہر آمر نے عوام کی فلاح کا ہی راگ الاپا ہے۔

مسولینی کی روم پر چڑھائی، پاپاڈوپولس کا یونان میں جمہوریت کا تختہ الٹنا، پینوچٹ کا چلی میں اقتدار پر آمرانہ قبضہ، ”امیرالمومنین“ کا نظام مصطفی کے لیے شب خون مارنا اور منتخب وزیراعظم کو تختہ دارپر لٹکانا، ”سب سے پہلے۔ “ کا راگ الاپنا اور منتخب حکومت کو جلاوطن کرنا۔

ان سب کے پیچھے ایک ہی بزدلی، کم ہمتی، تخیل کی کج فہمی کارفرما ہے۔

لوگوں کے شعورکو بیدار کرنے، انہیں ان کے حقوق کی سمجھ دینے، ان کا معیار زندگی بلند کرنے، ان میں تعلیم کو عام کرنے، ان میں افکار کا انقلاب برپا کرنے میں اپنی ہمت اور وقت کو کھپا دینا وقت کا ضیاع ہے، سنڈی سے تتلی کا سفر صبر آزما ہے، قطرے سے گہر ہونے میں کئی مراحل درکار ہیں۔

یہ ”فکری انقلاب“ طالع آزماؤں، انقلابیوں، مسیحاوں کا کھیل نہیں یہ کسی تبدیلی کے ”نعروں“ سے نہیں آسکتا اس کے لیے صبر آزما جدوجہد اور سعی درکار ہے۔ یہ انبیا کی سنت ہے، یہ ”تدریج“ کا ”معاشرتی ارتقاء“ کا اصول ہے، منزل ملے نہ ملے راستہ یہی ہے، خدا نے کائنات کی تخلیق کے لیے ”تدریج“ کا اصول اپنایا حالانکہ وہ اس پر قادر تھا کہ کن فیکون کہتا اور یہ جہاں تخلیق کردیتا۔

استاد نے میری طرف مربیانہ انداز میں دیکھا اور دریا کو کوزے میں بند کردیا:انسانوں کا اجتماعی ضمیر صدیون اور قرنوں کی جدوجہد کے بعد اس نتیجے پرپہنچا ہے کہ پاپائیت، ملائیت، شہنشاہیت، انقلاب اور فوجی آمریت دائرے کا سفر ہیں۔ معاشرے کی نامیاتی ترقی کے لیے جمہوریت ہی انسانی فکرکے تدریجی ارتقاء کی ضمانت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2