ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد….
دنیا میں جب کبھی اور جہاں کہیں بھی کوئی پاکستانی کسی بھی شعبے میں نمایاں کارکردگی کا مظاھرہ کرے تو بجا طور پر ہر پاکستانی کو اس اعزاز پہ فخر محسوس ہوتا ہے اور وہ اس عزت میں خود کو شریک سمجھتا ہے۔ ذہنی دیانت کا تقاضا ہے کہ اگر کسی پاکستانی نے اخلاق سے گرے ہوئے کردار کا مظاہرہ کیا ہو تو شرمندگی میں بھی اشتراک سمجھا جائے۔
گزشتہ دنوں سال نو کے موقع پر جرمنی میں مہاجرین میں سے بعض سفلہ طبع افراد نے جس گھٹیا پن کا مظاہرہ جرمن خواتین سے کیا اس کی تفصیل کو دوبار بیان کرنا بھی طبیعت کو ورطہ ندامت میں ڈال دیتا ہے۔ ندامت در ندامت اس تلخ حقیقت پر ہے کہ اس بد بختی میں تین چار پاکستانی افراد بھی ملوث پائے گئے ہیں۔
قیام پاکستان سے آج تک پاکستان کے ساتھ جرمن حکومت اور عوام کی کوئی بدسلوکی سامنے نہیں آئی۔ متعدد مواقع پر مشکل وقت میں دامے درمے سخنے قدمے پاکستان اور پاکستانی عوام کی مدد البتہ ریکارڈ پر موجود ہے۔ لاکھوں پاکستانی خاندان اور ہزاروں پاکستانی طلبا جرمنی میں مقیم ہیں اور اول درجے کی رہائشی، شہری اور سماجی سہولیات اور عزت افزائیوں میں برابر کے شریک ہیں۔ صنعتی، تعلیمی اور اشاعتی میلوں میں نمایاں سٹالز لگاتے ہیں اور آپ جناب سے مخاطب کئے جاتے ہیں۔ گزشتہ برس کے پشاور سانحے پر تمام جرمن ٹی وی چینلز اس طرح اس کی کوریج کر رہے تھے اور اس طرح پبلک ہم سے اظہار افسوس کر رہی تھی کہ جیسے ہم پاکستان ہی میں ہیں اور یہ لوگ ہمارے ہموطن ہی ہیں۔
اس گھٹیا حرکت کو یہ بڑے وقار سے پی گئے ہیں اور جوابی طور پر اخلاق سے گری ہوئی کوئی حرکت اور نفرت انگیز رد عمل سامنے نہیں آیا۔ دو عالمی جنگیں یہ قوم اپنے صحن میں دیکھ چکی ہے اور عزتیں پامال ہونے اور حقوق بے دردی سے تلف ہونے کے کرب سے آشنا ہے اس لئے وہی تکلیف جوابی طور پر دینا بھی پسند نہیں کرتے۔ یہ ان کا قومی کردار ہے۔
تم نے آگ کو جلتے دیکھا۔
ہم نے آگ میں جل کر دیکھا۔
ان کو یہ شعر تو نہیں آتا ہو گا لیکن ان کا رویہ اس کی چلتی پھرتی تشریح ہے۔
عربی یا شامی مہاجرین نے کیا عمل دکھایا اس پہ میں ایک پاکستانی کے طور پر کیا کہوں لیکن پاکستانی اس حرکت میں ملوث نکلے…. اس پر مجھے سخت ندامت ہے۔ اور میں اس تحریر کی وساطت سے اور جہاں یہ شائع ہو رہی ہے ان صفحات کی وساطت سے جرمن قوم اور عوام سے معافی کا طلبگار ہوں کہ جن جاہلوں نے جرمن خواتین ہی سے پست حرکات کی ہیں ان کا تعلق اس ملک سے ہے جو میرا وطن ہے۔
برادرم سید مجاہد علی نے اپنی تحریر میں سخت غم و غصے کا اظہار کیا ہے لیکن میری طرح وہ بھی دیار غیر میں بیٹھے ہیں۔
میری اپنے پاکستان میں موجود اہل علم، حساس اور دانشور اہل قلم سے درخواست ہے کہ وہ اپنی تحریروں کو اس شرمندگی کے اظہار کا ذریعہ بنائیں۔ اپنی ذاتی حیثیت میں اس کی مذمت کریں اور پاکستان میں جرمن ایمبسی کو اپنے احساس سے باقاعدہ آگاہ کریں۔
اسی طرح اپنی حکومت کو سرکاری طور پر جرمن قوم اور حکومت سے اس حرکت پر معذرت کے لئے کہیں۔ اس سے کوئی کسر شان نہیں ہو گی بلکہ عزت میں اضافہ ہوگا۔ اس سے جگہ جگہ مقیم پاکستانیوں کو کان ہوں گے کہ ہماری گھٹیا حرکتوں کا اثر ہماری قوم اور حکومت کو محسوس ہوتا ہے اس لئے ہمیں اپنے رویوں پر اس پہلو سے بھی دھیان دینا چاہئے۔
ان سطور کو پڑھ کر اگر پاکستانی افراد جرمن ایمبسی یا جرمن حکومت کو ایسی معذرت خوہانہ ای میلز کریں تو یہ قومی سطح پر حساس ہونے کا ثبوت ہو گا۔
انفرادی سطح پر مجھے بہت سے احباب کے بارے میں یہ خوش گمانی ہے کہ وہ یہ کریں گے۔
پھر یہ کہ ہم حکومتی سطح پہ جہاز بھر بھر کے دورے کرتے ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان دو رکنی وفد بھیجیں جو جرمن چانسلر انجیلا مرکل کو ان کی طرف سے آ کے ملیں اور ان پاکستانیوں کی بد اخلاقی کی مذمت کریں۔ علاوہ ازیں اسلام آباد میں پنجاب ہاوس، سندھ ہاوس، بلوچستان ہاوس، کے۔پی۔ ہاوس اور کشمیر ہاوس کی طرف سے پانچ جرمن گھرانوں کو دعوت دیں کہ وہ اگلے سال نو کے جشن سے پہلے ہفتے دس دن کی چھٹیاں پاکستان میں آکر حکومت پاکستان کے مہمان کے طور پر ان ہاﺅسز میں آ کر رہیں اور پاکستان کی عوام کو میزبانی کا موقع دیں۔ یہ کوئی خوشامد نہیں ہو گی بلکہ داغ دھونے کی سنجیدہ کوشش ہو گی۔ باہمی بدگمانی کا مداوا ہو گا اور قرآن کریم نے یہی اصول بتایا ہے کہ آپ کءحسن سلوک ہی سے گزشتہ کوتاہیوں کی تلافی ہوتی ہے ۔
میں نے مرکز برائے امن و ترقیاتی اقدامات۔(سی۔پی۔ڈی۔آئی) اسلام آباد میں چھ سال کام کیا ہے اور میں اس ادارے پر کچھ استحقاق رکھتا ہوں۔ حکومت پاکستان ایسا کرتی ہے یا نہیں لیکن میں اس ادارے کی طرف سے ایک جرمن فیملی کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ پاکستان دو ہفتے کی چھٹیاں گزارنے جائیں۔ سی۔پی۔ڈی۔آئی۔ ان کے قیام اور میزبانی کے انتظامات کر کے خوشی محسوس کرے گا۔ اسلام آباد میں بشارت قادر صاحب کا گھرانہ ان کی دعوت کرے گا اور ’ہم سب‘ اور ’پاک ٹی ہاوس‘ ان کے دورے کی تفصیلات اپنے صفحات میں شائع کر کے پاکستانی عوام تک پہنچائیں گے۔
شاید کوئی بندہ خدا آئے
صحرا میں اذان دے رہا ہوں
- سو سلسلے خیال کے، سو رنگ خواب کے - 28/02/2016
- ڈاکٹر عبدالسلام اور محترم عامر خاکوانی …. - 26/02/2016
- نرگس ماول والا پر بات مگر سائنس کہاں ہے ؟ - 21/02/2016
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).