امجد صابری۔۔۔ یہ چراغ کس نے بجھا دیا؟


\"Afshanچوبیس جون کی صبح نو بجے کے قریب ایک فون کال موصول ہوئی۔ نیوجرسی میں مقیم ہمارے یہ شفیق دوست جس طرح زارو قطار رو رہے تھے وہ پریشان کن تھا۔ اس وقت وہاں شاید رات کے بارہ بجے ہوں گے۔ ہچکیاں بندھی ہوئی تھیں اور جو ٹوٹے پھوٹے جملے رندھی آواز میں سماعتوں سے ٹکرائے کچھ یوں تھے \”امجد کا جنازہ دیکھا ابھی۔ کاش میں اسے دِکھا سکتا کہ کتنی دنیا اس شخص سے پیار کرتی تھی۔ ایسے خوبصورت انسان کے قتل نے پاکستانی معاشرے سے بندھی میری آخری امید کی کرن بھی بجھا دی جو میں ہمیشہ کہیں نہ کہیں جلا کر چھپا کر رکھتا تھا\”۔ اور جانے کتنی دیر بے بسی اور کرب سے کراہتے رہے۔

ان الفاظ نے سوچ کا ایک تکلیف دہ دریچہ کھول دیا ہے۔ ہمارے وہ پاکستانی دوست احباب اور رشتہ دار جو دہائیوں سے بیرون ملک مقیم ہیں اور جِن کی اگلی نسلیں ظاہر ہے کہ پاکستان آ کر تو سکونت اختیار کریں گی نہیں۔ لیکن یہ ہمارے فنکار، گلوکار اور ادیب و شعراء ہی وہ کڑیاں ہیں جن کا فن اُن لوگوں کو پاکستان سے دِلی طور پر جوڑے رکھتا ہے۔ پاکستان کا دنیا بھر میں ایک سافٹ امیج بنانے والے یہی لوگ ہیں۔ پاکستانی نژاد دوسرے ممالک کے شہری اپنی جنم بھومی کو جِن حوالوں سے یاد کرتے ہیں ان میں دیسی پکوانوں کے علاوہ سب سے بڑا حصہ ہی ہمارے فنکاروں کا ہے۔ یہ معاشرے کا وہ طبقہ ہیں جو کسی بھی قسم کی تقسیم، شدتوں اور نفرتوں سے دور اپنے فن کی ریاضت اور نوک پلک سنوارنے میں مصروف رہتے ہیں۔ اپنے پیروکاروں اور سراہنے والوں کو پیار اور امن کے پیغام کے سوا نہ انہیں کچھ سکھایا گیا اور نہ یہ اس گھٹن کا پرچار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

بائیس جون سہ پہر سے لے کر چوبیس تاریخ تک تین تحاریر تلف کرنا پڑیں کہ مکمل کرکے جب دوبارہ پڑھتی تو کسی طور ایک ایسے محنتی فنکار اور محبتی ہنس مُکھ انسان کے شایانِ شان نہ محسوس ہوتیں جو صابری گھرانے کی روایت اور فن کا علمبردار تھا۔ وہ شخص جِس نے باپ اور چچا کے فن کو نئے زمانے کی ضروریات سے ہم آہنگ کرکے ساٹھ کی دہائی میں گائی جانے والی قوالیاں اس ڈھنگ سے دوبارہ گائیں کہ آج کی نسل میں زبان زدِ عام ہوگئیں۔ جدت اور روایت کے تال میل سے سُر اور آواز کے ایسے رنگ بکھیرے جو ہمیشہ کے لیے اب امجد صابری کے نام کے ساتھ یاد کیے جاتے رہیں گے۔

گو فیصلہ یہی تھا کہ میری ایسی اوقات نہیں جو \”صابری قوالی\” کے خونِ ناحق پر نوحہ لِکھ سکوں۔ لیکن کچھ الفاظ انسان کو جھنجھوڑ جاتے ہیں اور پھیلی انارکی کا لفظی محاسبہ کرنے پر اکسانے لگتے ہیں۔

\"amjad-sabri-1\"میں ایک عام سی گھریلو خاتون ہوں۔ واجبی سمجھ بوجھ اور مناسب سی تعلیم والی۔ نہ مجھے سُر تال کی پہچان نہ ہی قوالی جیسی خوبصورت صنف کے برصغیر میں ارتقائی مراحل پر کوئی قابلِ بیان گرفت رکھتی ہوں۔ جانتی ہوں تو فقط اتنا کہ اپنے وقت کے کامیاب کاروباری انسان ہونے کے باوجود میری والدہ کے دادا نے گھر میں ٹی وی ایک زمانے کے بعد ہی داخل ہونے دیا تھا۔ وجہ تھی صابری برادران کی قوالی

میرا کوئی نہیں ہے تیرے سوا

جو سرِراہ کہیں سنی تھی اور ایسے محو ہوئے کہ ٹیلی ویژن خریدنا ہی پڑا۔ پھر یاداشت ٹٹولوں تو لائلپور کے انار کلی بازار میں ایک بڑا سا گھر جس کی سیڑھیاں چڑھ کر والدہ کے ساتھ بہت شوق سے ان کے نانا نانی کو ملنے جایا کرتی۔ وہ سیڑھیاں ہمیشہ ایک ہی آواز سے استقبال کرتیں-صابری برادران- کبھی \”من کنتُ مولا\” تو کبھی \”سر لامکاں سے طلب ہوئی\” اور پھر \”ذی حال مسکیں\” اور شاید تیس چالیس کے قریب قوالیوں کی پوری کلیکشن تھی جو اس گھر میں گونجا کرتی۔

یا صاحب الجمال
ہم پنجتنی ہیں
ملتا ہے کیا نماز میں
یا علی مولا
اجمیر کا مہکتا چمن
یا محمد نور مجسم
جب وقت نزاع آئے

\"Amjad-Sabri\"یاد تو مجھے یہ بھی آتا ہے کہ جب دادا مرحوم جناح کیپ لیے \”بھر دو جھولی \” پر جھوم رہے ہوتے تو میں ہمیشہ ان کا کندھا ہلا کر کہتی \”ابا جی! تھوڑے بال لمبے کرلیں تو بالکل غلام فرید صابری لگیں\” وہ پیار سے گھورتے اور میں کھی کھی کرتے بھاگ جاتی۔ بچپن کی سحری کی یاد سے جو شے جُڑی ہے وہ ٹی وی پر چلتی قوالی \”تاجدارِ حرم\” اور دستر خوان پر ماں کے ہاتھوں کے بنے پراٹھے ہیں۔ مختصر یہ کہ صابری قوالی ہر دور میں ہمارے کانوں میں رس گھولتی امن کا درس دیتی رہی۔ پھر پیار کا پیغام لے کر آئے اس گھرانے کے امجد صابری۔ وہ شخص جو ہمیشہ مسکراتا ہی دیکھا۔

میں نے اپنے پڑنانا، دادا اور والد کو انہی قوالیوں پر جھومتے دیکھا تھا جو آج امجد صابری کی آواز میں سننے پر میرے ننھے بھتیجے بھتیجیاں گنگناتے ہیں۔ تو ایسا کیا ہوا کہ ان ظالموں کو مسکراہٹیں بانٹتے، پیار سکھاتے ایک بے ضرر فنکار پر گولیاں برساتے رحم نہ آیا۔ قوالی سے جُڑے اور انسانیت میں گندھے ہر انسان کے لیے ماہِ صیام میں ایسی خون آشام خبر قہر بن کر ہی تو نازل ہوئی۔ کوئی کہتا ہے کہ شہید نے ایک سہرا گا کر \”گستاخی\” کی تھی۔ اور میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ برصغیری روایات میں شادی بیاہ پر سہرے پڑھنا/گانا صدیوں سے موجود ہے۔ تو اس میں گستاخی کا پہلو تلاش کیونکر ہوا۔

\”سبھی خوش ہیں
علی کے ساتھ ہے زہرہ کی شادی\”

اپنی محبوب ہستیوں کے لیے قوالیوں میں بہت کچھ کہا جاتا رہا ہے۔ اس معاملے کو جِن مخصوص چینلز یا افراد کی جانب سے اچھالا گیا میں جاننا چاہتی ہوں کہ اب وہ کیسا محسوس کررہے ہیں۔ معاشرے میں عدم برداشت پیدا کرکے مسلسل اکساتے رہنے کی یہ ریٹنگ زدہ بھوک جانے اور کِتنوں کی جان لے گی۔ کیا ہم بھول سکتے ہیں کہ سابق گورنر سلمان تاثیر پر نام نہاد گستاخی کے فتوے کِس طرح ٹی وی شوز سے منظم طریقے سے جاری ہوتے رہے۔ نتیجہ یہ کہ اپنے ہی محافظ نے سستی بہشت کے چکر میں خونِ ناحق بہا ڈالا۔

\"AMJAD-SABRIامجد صابری کی شہادت پر دوسرا کربناک پہلو تھا اس ظلم کو کبھی کسی مخالف سیاسی جماعت کے پلے ڈالنا تو کبھی ایسے ٹی وی چینل کی جانب اشارہ کرنا جِس سے مخاصمت پال رکھی ہو۔ ہم اتنے بے حس ہوچکے ہیں کہ لاشوں پر بھی ذاتی دشمنیاں نبٹانے کی راہ نکال لیتے ہیں۔ آدھے گھنٹے میں سوشل میڈیا سے الیکٹرانک میڈیا تک سب ہی نے تفتیش مکمل کرکے فیصلہ بھی سنا ڈالا۔ تب یاد آئیں سبین محمود جیسی زندگی سے پیار کرنے والی خاتون, جنہیں سعد عزیز نامی بزنس گریجویٹ دہشت گرد نے شدت پسندی کی بھینٹ چڑھا دیا جبکہ ایک طبقہ بلوچ رہنماؤں کو مدعو کرنے والی اظہارِ رائے کی آزادی کی داعی سبین کی شہادت عسکری ادارے سے منسوب کرتا رہا اور دوسرا ظالمان کی کارستانی بتاتا رہا۔ وجہ وہی ازلی تفتیشی صلاحیتیں اور پھرتیاں۔ ہمارے ایک قوال قاری سعید چشتی کو کھاریاں میں محفلِ سماع کے دوران قتل کردیا گیا۔ کیا کچھ تُکے نہ لگائے لوگوں نے۔ تفتیش ہوئی تو منتظم کی ذاتی رنجش کا شاخسانہ نکلا۔

پروین رحمٰن جیسی باصلاحیت خاتون بھی شدت پسند سوچ کی نظر ہو گئیں۔ اور اب مجھے ان کی فیلڈ میں ان جیسا محنتی مستقبل قریب میں دکھائی نہیں دیتا۔ جامعہ کراچی کے پروفیسر وحید الرحمٰن کو محض اس لیے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا کہ ان کے ملحد ہونے کی افواہ پھیلائی گئی تھی۔ اول تو ان کی بیٹی کا بیان ہی کافی ہونا چاہیے۔ لیکن بالفرض وہ اپنے ذاتی عقائد و معاملات میں جو بھی نظریہ رکھتے ہوں تو یہ حق کِس نے دیا ہے کہ سرِ عام ایک استاد سے جینے کا حق ہی چھین لو۔ پروفیسر شکیل اوج کو بھی نفرتوں کی نذر کردیا گیا۔

یہاں کون سا معاشرتی طبقہ ہے جس نے \”تزویراتی گہرائیوں\” کے نام پر لاشے نہیں ڈھوئے۔ آرمی پبلک سکول کے سینکڑوں معصوم پھول خون میں نہلا دیے گئے۔ اور پھر باچا خان یونیورسٹی پر دہشتگردوں کا حملہ ہوگیا۔ یہ بچے اس وطن کا مستقبل تھے۔ ان کے گھرانوں میں ہر روز قیامت بیتتی ہوگی۔

سُرخیاں امن کی تلقین میں مصروف رہیں
حرف بارود اُگلتے رہے اخبار کے بیچ

ہمارے تو مسیحا سفاک جہالت کی نذر ہورہے ہیں۔ مشہور کارڈیالوجسٹ شاہد نواز کو سر میں گولی ماری گئی۔ حال ہی میں ڈاکٹر مہدی علی قمر کو ان کے مذہبی عقیدے کی بنیاد پر قتل کردیا گیا۔ منڈی بہاؤالدین کے مقتول ڈاکٹر شاہد نذیر گوندل بھی اب کسی کو یاد نہیں۔ رئیس امروہی مارے گئے۔ محسن نقوی جیسا شاعر ابھی تک تو پیدا ہوا نہیں۔ ایسے سُچل لوگوں کو قتل کرتے ہاتھ کبھی کانپے بھی نہیں ہمارے ہاں۔ ہم تو وہ ہیں جنہوں نے حکیم سعید جیسی شفیق اور خوبصورت شخصیت کو خدمات کا صلہ بندوق کی گولی کی صورت عنایت کردیا تھا۔ صحافی برادری پر آئے روز قاتلانہ حملے اور گمشدگی سے لے کر قتل تک معمول بنا دیا گیا ہے۔ تاجروں کو کِس بنیاد پر موت بیچی جاتی ہے اب تو بچہ بچہ جان چکا ہے۔ خواجہ سراؤں کی تو چونکہ عزت ہوتی ہی نہیں لہذا یا تو اسلام کا نام بلند کرنے کو یا پھر جنسی تعلقات سے انکار پر سزا موت ہی ہے۔ خیبر پختونخوا میں کچھ برسوں میں کتنے خواجہ سرا قبروں میں اتر گئے۔ معاشرے کی اس بڑھتی فرسٹریشن بارے طویل مدتی کام کرنے کی فرصت نہیں لہذا سالانہ بجٹ میں کچھ رقم مختص کرکے واہ واہ کروالی جائے۔

ہمارے ہاں ایسے بقراط بھی ہیں جِن کے نزدیک سیاستدان چین کی بانسری بجاتے ہیں جبکہ عوام و فنکار موت کے گھاٹ اتر رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو بھول جاتے ہیں کہ پاکستان میں بے نظیر بھٹو جیسی سیاستدان طالبانی سوچ کی نذر ہوگئیں۔ بلوچستان سے ثناءاللہ زہری کا بیٹا، بھائی اور بھتیجا دہشتگردی کا نشانہ بن گئے۔ پنجاب کے وزیرِ داخلہ شجاع خانزادہ نے جام شہادت نوش کیا۔ عوامی نیشنل پارٹی کے میاں مشتاق، نجمہ حنیف، بشیر بلور اور ڈاکٹر ضیاءالدین اور میاں افتخار کے اکلوتے بیٹے سمیت سینکڑوں کارکن انہی تزویراتی گہرائیوں کا صدقہ بن گئے۔ شہباز بھٹی اور ہینڈری مسیح جان سے گئے۔ رکن سندھ اسمبلی ساجد قریشی بیٹے سمیت قتل کردیے گئے، رشید گوڈیل صاحب پر قاتلانہ حملہ ہوا اور ہمارے کچھ گِدھ صفت صحافی ان کی موت کی خبریں چلاتے رہے۔ رکن سندھ اسمبلی طاہرہ آصف، رکن پنجاب اسمبلی رانا شمشاد بیٹے اور ساتھی سمیت، ڈاکٹر زہرہ شاہد، رکن خیبر پختونخوا اسمبلی فرید خان اور سردار سورن سنگھ ۔۔۔ یہ سب لوگ سیاست نامی میدان ہی سے وابستہ تھے۔ بس ہماری یاداشت کمزور ہے۔

جب لوگ کسی خونِ ناحق کے فوری بعد اپنی سہولت، بغض اور پوائنٹ اسکورنگ کے واسطے اس میں سے لسانی، علاقائی، سیاسی، مسلکی و عسکری رنگ برآمد کرتے ہیں تو مجھے یہی طویل فہرست یاد آنے لگتی ہے۔ کسی بھی معاشرے میں جہاں ڈاکٹر، وکیل، صحافی، سیاستدان، طلباء، فنکار اور شعراء کو مارنے کی روایت جڑ پکڑ لے تو ایک وحشت کا راج ہر جانب دکھائی دیتا ہے۔ سوچ بنجر اور خیال کھنڈر ہوجاتا ہے۔

ابھی جِس وقت یہ سطور گھسیٹ رہی ہوں تو پس پردہ وہی قوالی چل رہی ہے جس سے بچپن سے لے کر بائیس جون کی دوپہر تک تمام ہی خوشگوار یادیں جُڑی تھیں۔

اندھیرے میں دِل کے چراغِ محبت
یہ کس نے جلایا سویرے سویرے

لیکن اب چار روز بیت چکے ہیں اس سوال کی تلاش میں کہ صابری قوالی کے حوالے سے ہمارے گھروں میں، لوگوں کے چہروں پر اور اپنے دوستوں کی زندگیوں میں \”چراغِ محبت\” بن کر جگمگاتا امجد صابری کیوں بجھا دیا گیا۔ وہ تو جاتے جاتے بھی \”وقتِ نزاع\” میں دیدار کی دعا مانگتا رہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments