غیروں پے ستم اپنوں پے کرم


کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور صنعتی، تجارتی، تعلیمی، مواصلاتی و اقتصادی مرکز ہے۔ کراچی انیس سو سینتالیس سے لے کر انیس سو ساٹھ تک پاکستان کا دارالحکومت بھی رہا۔ پورے پاکستان سے لوگ روزگار کی تلاش میں کراچی آتے ہیں اور اس وجہ سے یہاں مختلف مذہبی، نسلی اور لسانی گروہ آباد ہیں۔ روزگار کی تلاش میں لاکھوں کی تعداد میں جب لوگوں نے شہر قائد کا رخ کیا تو کراچی میں روزگار کے مواقع کم اور افراد بڑھنے لگے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شہر میں تجاوزات قائم ہونے لگے اور قائم تو کیا غیر قانونی تجاوزات کی بھرمار ہونے لگی۔ ایک جگہ کہا گیا کہ تجاوزات کا آغاز انیس سو ساٹھ سے ہوا اور یوں ہوتا ہوتا پورے شہر میں پھیل گیا۔ عمران خان جب پاکستان کے بائیسویں وزیراعظم منتخب ہوئے تو کئی اقدامات کیے ان میں سب سے بڑا قدم جو اٹھایا گیا وہ کراچی میں قائم تجاوزات کے خلاف آپریشن تھا۔

عدالت عظمیٰ نے کراچی شہر کی روایتی خوبصورتی اور رونق بحال کرنے کے لئے تجاوزات ختم کرنے کی جو ہدایات جاری کیں، ان کی آڑ میں صوبائی و شہری انتظامیہ نے مشین کے کل پرزے کی طرح عملدرآمد کرتے ہوئے شہر کے بیشتر علاقوں کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا ہے۔ اس سے خوبصورتی اور رونق تو کیا بحال ہوتی، جگہ جگہ اشتہارات بینرز اور ہورڈنگز کے علاوہ دکانوں کے اضافی چھجوں کا ملبہ نظر آتا ہے، جس سے ایک طرف تجارتی و رہائشی علاقوں کا حسن برباد ہوکر رہ گیا ہے تو دوسری جانب چھوٹے پتھارے دار اور دکاندار بڑے پیمانے پر بے روزگار ہوگئے ہیں۔

بہت سے گھروں میں فاقوں تک نوبت جاپہنچی ہے۔ تاجروں اور صنعت کاروں نے بھی قانونی و غیر قانونی کی تفریق کیے بغیر تجاوزات ہٹانے کے نام پر توڑ پھوڑ اور مالی نقصانات پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان دکانوں کو صرف اس لئے گرایا کہ یہاں پر پر روزی روٹی کمانے والوں کے پاس کوئی ایسا کاغذ نہیں تھا جو ان کو روزی روٹی کمانے کا قانونی حق دیتا ہو۔ قانون پرستوں کو کون سمجھائے کہ انگریز کی غلامی بھی قانونی تھی، انڈین کشمیر میں ہونے والا جبر بھی قانونی ہے۔

عافیہ صدیقی کو بھی ایک قانون کے تحت سزا ملی ہے میئر کراچی جو گلی گلی کوچے کوچے تجاوزات کا شور مناتے ہیں اور اس انکروچمنٹ کے آپریشن میں پیش ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ ملک کے سب سے خوبصورت شہر کراچی کو قائم تجاوزات سے پاک کرکے چالیس سال پرانی والی شکل میں لے آئیں گے مگر دیکھئے تو سہی انکروچمنٹ آپریشن میں پیش پیش رہنے والے کا تو اپنا سگا بھائی ہی شہر میں تجاوزات قائم کرنے میں مصروف ہیں

غیروں پر ستم اپنوں پر کرم۔ مئیر کراچی نے چراغ تلے اندھیرا کی مثال سچ ثابت کر دی۔ شہر بھر میں تجاوزات کے خلاف آپریشن کرنے والے نے اپنے گھر سے آنکھیں موند لیں۔ سیکڑوں دکانیں اور گھر توڑنے والے میئر کراچی کے بھائی شہر کے بیچ و بیچ تجاوزات قائم کرنے میں مصروف ہیں۔

سپریم کورٹ کی ہدایت پر شہر میں تجاوزات کے خلاف جاری آپریشن کے کپتان جناب وسیم اختر نے شہر بھر سے ہزاروں دکانیں ”سن شیڈز اور فٹ پاتھ تو مسمار کر دیے لیکن اپنے سگے بھائی کے گھر کی گلی غیر قانونی طور پر بند کروانے کو نہ روک سکے۔ مئیر کراچی کے بھائی نعیم اختر اور فراز وسیم نے اپنے گھر کے باہر غیر قانونی تعمیرات شروع کر دیں۔

پی ای سی ایچ ایس میں میئر کراچی کے بھائی کی جانب سے سڑک پر قبضہ کرکے کی جانے والی تعمیرات علاقہ مکینوں کے لئے اذیت کا باعث بن گئی ہیں۔

علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ بچپن سے دیکھ رہے ہیں یہ گلی ہے اب میئر کراچی کے بھائی اس گلی میں مکان تعمیر کر رہے ہیں۔کراچی میں سینکڑوں دکانیں اور گھر توڑنے والے میئر کراچی کے بھائی شہر کے بیچ و بیچ تجاوزات قائم کرنے میں مصروف ہیں۔ سنتے تھے کہ ”اندھا بانٹے ریوڑیاں لیکن اپنوں اپنوں کو“، تو میئر کراچی نے بھی تجاوزات کی ریوڑیاں اپنے سگے بھائی کو ہی تھما دیں۔ قانون کی تشریح پڑھیے اور سمجھیے کہ قانون صرف غریب اور عام طبقے کے لئے نہیں ہوتا۔ بلکہ خواص بھی اسی قانون کا حصہ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).