آسمانی صحیفہ


خلیل جبران نے ایک متبرک شہر کا قصہ لکھا ہے جس کے باشندے آسمانی صحیفوں کے مطابق زندگی گذارتے تھے۔ مگر جب وہ اس شہر کودیکھنے پہنچا تو دیکھا کہ تمام شہریوں کا ایک ہاتھ اور ایک آنکھ نہیں ہے۔ استفسار پر اس شہر کے ایک بوڑہے نے بتایا ْ خدا نے ہمیں اپنی برائیوں پر فتح دی ہے ْ انھیں مقدس منبر کے اوپر وہ تحریر بھی دکھائی گئی جس پر تحریر تھا ْ اگر تمھاری داہنی آنکھ تمھیں ٹھوکر کھلائے تو اسے باہر نکال پھینکو۔ سارے جسم کے دوزخ میں جلنے سے ایک عضو کا ضائع ہونا بہتر ہے ْ

آسمانی صحیفوں میں سب سے قدیم حضرت ابراہیم علیہ السلام کا صحیفہ تھا مگر دنیا کے کسی بھی کونے میں اس کے وجود کا سراغ نہیں ملتا مگر اس صحیفے میں سے کچھ موتی اب بھی لوگوں کو ازبر ہیں، مثال کے طور پر ْ دانش مند اپنی زبان کی حفاظت کرے ْ

دنیا میں معاش کمانے کے دو ہی ہتھیار ہیں ایک ہاتھ دوسرا زبان۔ حضرت عقبہ ابن عامرؓ نے ایک بار پوچھا ْ اے اللہ کے رسول نجات کس طرح ممکن ہے ْ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ْ اپنی زبان کو قابو میں رکھو ْ

بلھے شاہ نے جب کہا تھا ْ علمون پئے رولے ہور ْ تو اس کا مقصد علم کی مذمت نہیں بلکہ اس کا اشارہ زبان ہی کی طرف تھا۔ جب کوئی صاحب علم فلسفے کی سیڑہی چڑھ کر منطق کے منبر پر برجمان ہو کر کلام کے حصان بے لگام کو علم کے وسیع میدان میں دوڑاتا ہے تو آسمانی صحیفوں کا علم زمین پر گھسٹتاہے۔

حضرت سید شاہ محمد فاروقی ( 1878۔ 1951 ) کے ملفوظات شہیداللہ فریدی اور کپتان واحد بخش سیال نے ْ تربیت العشاق ْ کے نام سے لکھے ہیں۔ اس میں واقعہ درج ہے کہ ایک مفلوک الحال شخص بہتر معاش کی تلاش میں دہلی سے احمد آباد روانہ ہوا۔ راستے میں اس کا زاد راہ ختم ہو گیا۔ تین دن سے فاقہ زدہ سرائے میں بیٹھا سوچوں میں گم تھاکہ سرائے کے ساتھ رہنے والی ایک طوائف اس کے پاس آئی اور پریشانی کا سبب پوچھا۔ غریب نے ساری بپتا کہہ سنائی۔

طوائف نے سوت کات کر جو حلال نقدی اپنے کفن دفن کے اخراجات کے لیے رکھی ہوئی تھی۔ اسے لا کر دی اور کہا کہ اگر ہو سکے تو واپسی پر مجھے لوٹا دینا۔ مسافر نقدی لے کر چلا گیا۔ احمد آباد میں اس نے خوب روپیہ کمایا اور امیر ہو گیا۔ جب وہ واپس دہلی جاتے ہوئے اسی سرائے میں اترا اور طوائف کو اس کی رقم واپس کرنے اس کے مکان پر گیا تو اس نے دیکھا کہ طواف پر سکرات کا عالم طاری ہے۔ مسافر کو دیکھ کر طوا ئف کی مشکل آسان ہو گئی۔

مسافر نے اس کی تجہیز و تکفین کا بندوبست کیا۔ خود اس کو قبر میں اتارا۔ اس کام سے فارغ ہو کر جب سرائے میں واپس آیاتو اسے احساس ہوا کہ وہ اپنی نقدی والی ہمیانی قبر ہی میں گرا آیا ہے۔ وہ رات کے وقت چپکے سے سرائے سے نکلا۔ قبر کھودی تو یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ قبر میں میت ہی نہیں ہے۔ اسے ایک جانب کھڑکی نظر آئی۔ اس نے کھڑکی میں جھانک کر دیکھا تو ایک وسیع باغ کامنطر ہے جس میں خوبصورت مکان بنا ہوا ہے اور وہ عورت باغ میں آرام دہ نشت پر بیٹھی ہے۔ مسافر نے اس سے پوچھا کہ تم نے یہ مرتبہ کیونکر پایا۔ عورت نے جواب دیا میں نے تمھاری مشکل کے وقت میں جو مدد کی تھی۔ یہ ساری ذرہ نوازی اسی کا صلہ ہے۔

درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیان۔ خواجہ میر درد

آسمانی صحیفوں کا علم زمین پر خدا کی اشرف مخلوق کو کانا اور لولا کرنے کے لیے نہیں ہے۔ آسمانی ضحیفے در اصل اقدار انسانی کی رفعت اور سکون قلب کے منبعے اور اخوت۔ مساوات، خدا ترسی۔ عزت نفس، امن و عافیت۔ فلاح و نجات کے حصول کے قصے ہیں۔ قران کا عطا کردہ علم اسوہ رسول اللہ کی اتباع میں گناہ گاروں کو وسیع باغات میں بنے مکانات میں لے جانے کے لیے ہے۔ اتباع کے اعمال میں بلال جیسوں کی عملی اور سماجی اعانت شامل ہے۔ جب رحمت العالمین بلال کے حصے کی چکی پیسا کرتے تھے تو بلال دین کے نام سے بھی مانوس نہ تھے۔

غلام مصطفی خان نے ْ ڈاکٹر اقبال اور قران ْ میں لکھا ہے کہ علامہ اقبال نے سید سلمان ندوی کو بتایا تھا کہ ان کے والد نے انھیں نصیحت کی تھی ْ جب تم قران پڑھو تو یہ سمجھو کہ قران تم پر ہی اترا ہے یعنی اللہ تعالیٰ خود تم سے ہی ہم کلام ہے ْ۔

اللہ تعالیٰ کا اولین فرمان ہے ْ اقراء ْ۔ اقرا ء کا مطلب ہے پڑھو۔
نہیں پڑھو گے تو ایک آنکھ اور ایک ہاتھ سے محروم کر دیے جاؤ گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).