پابندیٔ شراب بل کی منسوخی اور فرانسیسی محقق ہنری


11 دسمبر 2018 کو قومی اسمبلی میں حکومتی اقلیتی رکن رمیش کمار نے شراب پرمٹ جاری کرنے کے خلاف بل پیش کیا، جس میں رمیش کمار نے یہ مؤقف اختیار کیا، تمام مذاہب میں شراب ہے۔ لہذا اقلیتوں کے نام پر پرمٹ جاری کرنے کا سلسہ ختم کیا جائے۔ اور شراب تیار کرنے اور بیچنے پر پابندی عائد کی جائے۔ (روزنامہ اسلام 11 دسمبر 2018 )

شراب پر پابندی کا یہ بل اس سے پہلے بھی 2014 اور 2015 میں جمیعت علمائے اسلام کے رکن حافظ حمداللہ صاحب پیش کر چکے ہیں۔ لیکن اس دفعہ شراب پر پابندی کا بل پیش کرنے والے رمیش کمارہندو اقلیتی رکن ہیں۔ مقام افسوس ہے کہ بل کی مخالفت کرنے والے مسلم اراکین اسمبلی ہیں۔ اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والی اسلامی ریاست میں آج مسلمانان عالم کو یہ بھی دن دیکھنا پڑا کہ شریعت اسلامیہ کی طرف سے حرام کردہ اشیاء پر آج مذہبی حلقوں کو بحث کرنا پڑ رہی ہے۔

اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال سمجھنا اور حلال اشیاء کو حرام سمجھنا یہ تو یہودیوں اور مشرکین کی صفت تھی۔ وہ جب چاہتے حلال کو حرام اور حرام کو حلال قرار دے لیتے تھے۔ حالانکہ یہ صفت اللہ نے اپنے علاوہ کسی کو نہیں دی۔ حلال اور حرام کا اختیار اللہ کے علاوہ کسی اور کے پاس نہیں ہے۔ لیکن برا ہو اس جمہوریت کا جو بندے کو خدا بنا دیتی ہے۔ شراب جس کے بارے اسلام کا نقطہ نظر بڑا واضح ہے۔ شراب کو ام الفواحش اور ام الخبائث بتایا گیا ہے۔

فرمان رسول کے مطابق شراب اور ایمان ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے۔ ابھی تو پچھلے دور حکومت میں پارلیمنٹ لاجز کے بلاک ایچ فور سے دوران صفائی شراب کی خالی بوتلوں کی بازگشت مدھم نہیں ہوئی تھی کہ عوام کے سامنے ان کی اندرونی کہانی آ گئی۔ مدینہ ریاست کے حکمرانوں کی ترجیحات کیا ہیں؟ محب وطن لوگوں کی محنت اس وقت رائیگاں چلی جاتی ہے جب مسند اقتدار پر براجمان طبقہ شعائراللہ کا مذاق اڑاتا ہے اور حساس مذہبی ایشو پر ٹاک کرتا ہے۔

خصوصا وزرا کی فوج موج ظفر میں ایک دومنسٹروں کی تان مذہب پر آ کر ٹوٹتی ہے۔ موجودہ حکومت جب سے اقتدار میں آئی ہے، اس کے وزیر اطلاعات ونشریات کی شخصیت متنازعہ ہی رہی ہے۔ ان کے بیانات جلتی پر تیل کا کام دیتے ہیں۔ ابھی ان کے دورہ لندن میں قادیانی کمیونٹی سے ملاقاتوں کے نشتر تازہ ہی تھے کہ موصوف نہ ایک اور بیان داغ دیا کہ شراب جس کا دل کرے پیے اور جس کا دل نہ کرے وہ نہ پیے۔ میرے خیال سے موصوف کے ذہن سے شاید ابھی تک منسٹری کا نشہ نہیں اترا، اور انہیں شاید اس بات کا ادراک نہیں، کہ اس ملک میں ایک طبقہ انتہاپسندانہ سوچ رکھتا ہے۔

ان بیانات کی وجہ سے اس کی انتہا پسندانہ سوچ کو مزید نمو ملتی ہے۔ اور وہ ملک اور قانون کا باغی بن جا تا ہے۔ اور پھر ریاست کی رٹ کو چیلنج کرتا ہے۔ اور پوری قوم کے لیے مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ اور محب وطن حلقے وہیں کے وہیں کھڑے رہ جا تے ہیں جہاں سے انہوں نے ملک وملت کے امن کی خاطر سفر شروع کیاہوتا ہے۔ ان کی آرزوؤں کو آپ ذبح کر دیتے ہیں۔ جناب والا! کیا وزیر موصوف ہمیں سوال کرنے کی اجازت دیں گے کہ کل کو اگر کوئی یہ کہہ دے کہ جس نے ملکی قوانین کا احترام کرنا ہے کرے، اور جس نے نہیں کرنا نہ کرے۔

جس کا جی چاہے قتل کرے، اور جس کا جی چاہے قتل نہ کرے۔ محترم آپ قوم کے بڑے ہیں آپ خود سوچیں کہ آپ قوم کو کس طرف لے کر جا رہے ہیں؟ در حقیقت ہم سمجھتے ہیں کہ حکومتی سطح پر یہ دوغلی پالیسی ملکی آئین کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ غریب کے لیے قانون اور ہے، اور طاقتور کے لیے قانون علیحدہ ہے۔ شراب کی بھٹیوں پر چھاپے اور پارلیمنٹ میں بیٹھ کر اس کا دفاع، با ت سمجھ سے بالاتر لگتی ہے۔ عوام حیران ہے کہ خدایا ماجرا کیا ہے؟

پرمٹ غیر مسلموں کے نام پر جا ری کروائے جاتے ہیں اور مستفید اشرافیہ ہوتی ہے۔ کیا آپ بتانا پسند کریں گے کہ پارلیمنٹ لاجز سے ملنے والی شراب کی خالی بوتلیں مسلم اراکین اسمبلی کے کمروں کے باہر سے ملتی ہیں، یا غیر مسلم اراکین اسمبلی کے کمروں سے؟ ۔ تعجب ہے کہ 2010 کہ بعد دنیا بھر میں شراب کی کھپت میں کمی آئی ہے، لیکن مقام افسوس ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس کی مانگ میں دس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ شراب بنانے والی تین قانونی فیکٹریاں اس ملک میں چل رہی ہیں۔

ان میں سے ایک ”مری بریوری“ کے چیف ایگزیکٹو اسفنیار ایم بھنڈرا کا کہنا ہے کہ وطن عزیز میں ہر سال شراب کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مشہور کالمسٹ محترم جناب عبدالصبور شاکر صاحب اپنی رپورٹ میں مزید انکشاف کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ صرف ان کی فیکٹری سالانہ 50 ہزار ہیکٹولیٹر یعنی پچاس لاکھ لیٹر بیئر اور 4 لاکھ گیلن لکر بناتی ہے۔ پاکستان میں ڈیڑھ کروڑ لوگ شراب نوشی کرتے ہیں جبکہ محکمہ صحت کی رپورٹ کے مطابق ان کی تعداد 40 لاکھ ہے۔

رپورٹ کے مطابق کچھ عرصہ قبل کراچی میں شراب کی دکانیں بند کروائیں گئیں تو دو مسلم وکیلوں نے ان کو اوپن کروانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ ایک رپورٹ کے مطابق 99 فیصد مسلمان غیر مسلموں کے لائسنسز پر شراب بیچتے اور خریدتے ہیں۔ شراب نوشی کے حوالے سے دنیا میں پاکستان کا 35 واں نمبر ہے۔ قومی اسمبلی میں شراب کی پابندی کے حوالے سے پیش کیے جانے والے بل کو مسترد کیے جانے کی بڑی وجہ یہ بھی ہے، ہمارے ملک میں مغربی سوچ اور فکر کا محافظ طبقہ جن کے ہاں شراب کا استعمال پانی کی طرح ہوتا ہے، وہ اس راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ جس کا انکشاف جرمنی کے مشہور محقق ہنری نے اپنی کتاب فواطر وسوانح فی الاسلام میں کیا ہے، وہ لکھتا ہے۔ بہت زیادہ مہلک ہتھیار جس سے اہل مشرق کی بیخ کنی کی گئی اور وہ دو دھاری تلوار جس سے مسلمانوں کو قتل کیا گیا یہ شراب تھی۔ آگے لکھتا ہے۔ ہم نے الجزائر میں یہ ہتھیار استعمال کیا، لیکن ان کے اسلامی اصول ہمارے لیے رکاوٹ بن گئے اور وہ لوگ ہم سے متاثر نہ ہو سکے، اگر یہ لوگ ہمارے اس تحفے کو قبول کر لیتے جس طرح ان کے ایک منافق قبیلے نے قبول کیا تھا تو یہ ہمارے سامنے ذلیل وخوار ہوتے۔ آج جن گھروں میں ہماری شراب کے دور چل رہے ہیں وہ ہمارے سامنے اتنے حقیروذلیل ہیں کہ سر نہیں اٹھا سکتے۔ فرانسیسی محقق کی اس رپورٹ کو آپ سامنے رکھیں اور پھر کلمہ طیبہ کا لوگو رکھنے والی پارلیمنٹ میں پابندی شراب بل کو مسترد کیے جانے کو دیکھیں تو آپ کو اندرونی کہانی سمجھنے میں مشکل نہیں ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).